حکمراں پارٹی کی ’بے معنی سیاست‘: محمد حنیف خان

0

محمد حنیف خان

افکار و خیالات خواہ کتنے بھی بدل جائیں مگر کسی بھی فرد یا جماعت کو ایک خاص سطح سے نیچے نہیں آنا چاہیے،اگر کوئی ایسا کرتا ہے تواس جماعت اور فردکو سطحی تصور کیا جاتا ہے۔ سیاست میں تبصرے اور جملے بازی سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے لیکن ان کی بھی حد اور سطح ہوتی ہے۔مگر شاید ملک کی حکمراں پارٹی بی جے پی کے لیے کوئی سطح نہیں ہے،سیاست میں وہ ہر طرح کی جملے بازی اور رکیک سے رکیک تر جملوں کو بھی درست تصور کرتی ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو وزیراعظم نریندر مودی اپنی سیاسی حریف کانگریس کے اتحاد’’Indian National Developmental Inclusive Alliance(I.N.D.I.A)‘‘کو وہ ’’انڈین مجاہدین‘‘ سے تشبیہ نہ دیتے۔یہ ہندوستانی سیاست کا المیہ ہے کہ اعلیٰ ترین عہدے پر بیٹھے افراد بھی سیاست کی نزاکت کوملحوظ نہیں رکھ پاتے بلکہ وہ جماعتی سیاست کا اس طرح شکار ہوتے ہیں کہ ان کو خیال ہی نہیں رہتا کہ ان کا تعلق حکمراں پارٹی سے ہے اور سامنے والی پارٹی یا اتحاد ان کی مد مقابل ہے جسے آئین ہند نے ایک خاص منصب دیا ہے ۔کانگریس ملک کی ایک حکمراں پارٹی ہے اور اس کے اتحاد میں شامل پارٹیوں کو الیکشن کمیشن آف انڈیا سے منظوری حاصل ہے،ایسے میں ان سیاسی جماعتوں کو ایک ایسی جماعت سے تشبیہ دینا جس پر دہشت گردی کے الزامات ہیں، کہاں تک درست ہے؟ کیا ہماری سیاست اتنی سطحی ہوگئی ہے؟اور اگر ہوگئی ہے تو اس کے اسباب و وجوہ کیا ہیں؟اس پر غور کرنا از حد ضروری ہے اورجس کاجواب پارٹیوں کی سیاسی جڑوں اور ان کے فکری سرچشموں تک رسائی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
جمہوریت میں سیاست کو بڑی اہمیت حاصل ہے،اسی اہمیت کے پیش نظر ملک کی یونیورسٹیوں کے نصاب میں ’’سیاسیات ‘‘ ایک اہم موضوع ہے،جس میں ماسٹرڈگری کے ساتھ پی ایچ ڈی کرائی جاتی ہے۔اس موضوع کا مقصد یہ ہے کہ طالب علم اور ریسرچ اسکالر ملکی اور عالمی سیاست کے رموز سیکھ لیں اور ان نکتوں کو جان لیں جن کے ارد گرد کسی ملک یا جماعت کی سیاست ہوتی ہے۔ہر ملک کی سیاست سے ماہرانہ واقفیت رکھنے والے افراد ہوتے ہیں کیونکہ وہ ان ملکوں کے سیاست دانوں،جماعتوں اور حکمرانوں کی سیاسی ترجیحات اور ان کے سرچشموں کو تلاش کرلیتے ہیں۔اس تناظر میں اگر ہندوستان کی سیاست کی بات کی جائے تو یہاں کئی طرح کے افکار و خیالات کے حامی افراد/ سیاست داں اور جماعتیں ملیں گی۔ چونکہ ہندوستان متنوع مذاہب،کلچر اور زبان کا حامل ملک ہے،اس لیے افراد اور سیاسی جماعتوں کی سیاست کا رخ بھی جدا جدا ہوتا ہے۔امریکہ اور برطانیہ کی طرح یہاں دوپارٹی نظام نہیں ہے،اس لیے ہر شخص کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ پارٹی قائم کرکے گروہی سیاست کا آغاز کردے،جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے ایسے گروہ سیاست میں داخل ہوگئے جن کی سوچ اور فکر بہت محدود تھی۔آج بھی ملک کی مختلف ریاستوں میں مختلف سیاسی فکر کی حامل جماعتیں ہیں۔شمال مشرق اور جنوبی ہند کی جماعتیں اس کی بہترین مثال ہیں۔ مرکزی اور ریاستی درجے کی حامل سیاسی پارٹیوںکی کثیر تعداد ہے لیکن مرکزی سطح پر صرف دو پارٹیاں کانگریس اور بی جے پی ہیں،جن کے ارد گرد دوسری مرکزی اور ریاستی سطح کی پارٹیاں جمع ہیں۔
وقت کے ساتھ چیزیں تبدیل ہوجاتی ہیں،لیکن یہ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ ملکی سیاست کی نہج ہی اتنی تبدیل ہوجائے گی،ملک کی آزادی سے قبل ہندوستان میں صرف دو سیاسی جماعتیں تھیں، ایک کانگریس جسے ایک انگریز ایچ اے ہیوم نے قائم کیا تھا اور دوسری مسلم لیگ تھی جس کے روح رواں محمد علی جناح تھے جس کا قیام ڈھاکہ موجودہ بنگلہ دیش میں 1906میں عمل میں آیا تھا۔آزادی کے ساتھ ہی مسلم لیگ کا وجود ختم ہوگیا۔ ہندوستان میں 1951-52 میں پہلا الیکشن کانگریس،سی پی آئی اور سوشلسٹ پارٹی کے مابین ہوا تھا،جس میں کانگریس کو 44.99فیصد، سوشلسٹ پارٹی کو10.59فیصدجبکہ سی پی آئی کو 3.29 فیصد ووٹ ملے تھے۔
کانگریس وہ پارٹی ہے جس سے وابستہ لیڈران کی ملک کی آزادی کے لیے قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ملک سے اس کی محبت کی نشانیاں اس کے چپے چپے پر ثبت ہیں،جس حالت میں ہندوستان کی باگ ڈور کانگریس کے ہاتھوں میں آئی اور اسے خود کفیل بناکر نیوکلیائی طاقت سے اس نے لیس کیا، وہ اس کی قوت ارادی کی دلیل ہے۔ہر جماعت میں کچھ ایسے افراد ہوتے ہیں جن کے سامنے ملکی اور ملی کاز کے بجائے ذاتی مفادات ہوتے ہیں جن سے کوئی بھی سیاسی و سماجی جماعت انکار نہیں کرسکتی ہے۔کانگریس اور بی جے پی دونوںمیں بھی ایسے افراد کی کمی نہیں ہے۔بی جے پی تو 1980میں وجود میں آئی، اس سے قبل 1977 میں یہی جنتا پارٹی کے نام سے وجود میں آئی تھی اور اس سے قبل 1951میں جن سنگھ کے نام سے جانی جاتی تھی جس نے وقت کے لحاظ سے اپنے نام بدلے مگر اس کے اپنے کچھ خاص مقاصد تھے جن کے حصول کے لیے وہ ابتدا سے ہی کاربند تھی۔
بی جے پی ایک ایسی سیاسی جماعت ہے،جس کے مرکز میں ’’ہندوتو‘‘ ہے۔جب ہندوتو کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد ہندوازم نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسا ہندوازم جس میں تفوق اور تشدد کی نفسیات کارفرماہو۔کیونکہ اس پارٹی کا فکری سرچشمہ آر ایس ایس ہے،جس کی بنیاد ہی اس لیے ڈالی گئی تھی تاکہ ہندوؤں میں تفوق کا جذبہ پیدا کرکے ان کو ملک پر حکومت کے لیے تیار کیا جائے اور ملک کوہندو راشٹر بنایا جائے جس میں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے لیے دوم درجے کا شہری ہونا لازمی ہو۔یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے ابتدا سے ہی مذہب اور جذبات کی سیاست کی ہے، جذبات کو ابھارنے کے لیے اس نے مذہب کا سہارا لیا، جب تک بابری مسجد کی جگہ رام مندرکی تعمیر کا فیصلہ عدلیہ سے نہیں ہوگیا، اس وقت تک اس کے مرکز میں بابری مسجد تھی،جس سے ہندو-مسلم کی تفریق کو ہوا ملی اور حالات یہ پیدا ہوگئے کہ ایک ساتھ رہنے والے پڑوسی ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے۔بی جے پی نے ابتدا سے ہی ایسی سیاست کا مظاہرہ کیا ہے جس میں لچک کے بجائے سختی اور تشدد ہے جس کا مشاہدہ عملی اور فکری دونوں سطحوں پر کیا جا سکتاہے۔
دنیا کے کسی بھی ملک میں حریف سیاسی جماعتوں خصوصاً حزب اختلاف پر ملک مخالف ہونے کا الزام عائد نہیں کیا جاتا، ان کی بدعنوانی، ترجیحات، عزائم اور منصوبوں کو موضوع بنایا جاتا ہے،ان کے کالے کرتوت سامنے لا کر عوام کو واقف کرایا جاتا ہے کہ اگر ایسی جماعت اقتدار میں آگئی تو اس سے ملک کی ترقی رک جائے گی۔مگر یہاں پہلے تو ’’کانگریس سے پاک ملک ‘‘ کا نعرہ دیا جاتا ہے اور اس کے بعد اس پارٹی کے ساتھ ہی اس کے اتحاد کو ہی انڈین مجاہدین یعنی دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے۔سیاست کا یہ وہ آخری گڑھا ہے جس کے بعد اس میں بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔ایسا نہیں ہے کہ وزیراعظم نے لاشعوری طور پر ایسا کہا بلکہ خوب سوچ سمجھ کر انہوں نے یہ تبصرہ کیا تھا،کیونکہ بی جے پی کی سیاست کا دوسرا مرکز ’’حب الوطنی‘‘ ہے۔حب الوطنی کو بی جے پی نے ایک نشہ آورگولی کی طرح استعمال کیا ہے،اپنے حامیوں میں اسی جذبے کو ابھارنے کے لیے انہوں نے کانگریس کے اتحاد کو ’’انڈین مجاہدین ‘‘ سے تشبیہ دی تھی۔اس معاملے میں وہ تنہا نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ مرکزی وزرا بھی ہیں۔وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر نے کانگریس کے چین سے تعلقات پر ایسا ہی تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’راہل جی کی نقلی محبت کی دکان میں چینی سامان سامنے آنے لگا ہے‘‘۔انہوں نے چین کے ساتھ خفیہ ساز باز کا الزام عائد کرتے ہوئے غیر ملکی میڈیا کے سامنے راہل کی گفتگو کو نشانہ بنایا جس کے جواب میں ششی تھرور نے کہا کہ گلوان میں چین کے ذریعہ بیس ہندوستانی فوجیوں کی شہادت پر ہم نے حکومت کی نکتہ چینی کی جو حزب اختلاف کا حق ہے مگر اس پر ایسی سیاست بے معنی سیاست ہے۔واقعی ایسی سیاست بے معنی ہے جس میں اخلاقیات نہ ہو۔حکمراں پارٹی کو اس بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا اور اس کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جمہوریت میں بہتر اور عوامی مفاد میں حکمرانی کے لیے ایک مضبوط حزب اختلاف کا ہونا ضروری ہے،جس کو نہ تو ملک سے ختم کیا جاسکتا ہے اورنہ ہی اس پر ملک دشمنی کا الزام عائد کیا جاسکتا ہے۔جمہوریت اور عوام کے حق میں یہی بہتر ہے کہ سیاست کو سطحیت اور نشہ آور گولیوں سے بچایا جائے، اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو اس سے ایک سیاسی جماعت کو تو فائدہ ہوسکتا ہے،وہ اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب بھی ہوسکتی ہے مگر ملک اور عوام کا اس سے ایسا نقصان ہوگا جس کی تلافی ناممکن ہوجائے گی کیونکہ ایسی صورت میں جمہوریت،عوام اور ملک تینوں پس پشت چلے جائیں گے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS