محمد حنیف خان
صحافت جمہوریت کا چوتھا ستون ہے جس کا فریضہ عوام اور حکومتوں کے مابین پل کا کام کرنا ہے۔اس کے فرائض منصبی میں عوام کی آواز ایوانوں تک پہنچانا ، ان کے مسائل سے حکومت کو آگاہ کرنا ، ظالم کو ظلم سے روکنا اور مظلوم کی حمایت کرنا شامل ہے تاکہ عوام کو یہ احساس ہوسکے کہ جمہوری نظام حکومت میں اس کی بھی حصہ داری ہے، اس کی آواز اٹھانے والا اور اس کے مسائل حل کرانے والا بھی کوئی ہے۔ جمہوریت کا یہ چوتھا ستون موجودگی کا احساس پہلے سے کہیں زیادہ شدت سے کرا رہا ہے لیکن اپنے فرائض منصبی سے بہت پہلے انحراف کرچکا ہے۔ آج ہندوستان کا ہی نہیں، دیگر ملکوں کا میڈیا بھی عوام کے بجائے سرمایہ داروں، طاقتور لوگوں، مجرموں اور سیاست دانوں کی پشت پر کھڑا نظر آ رہا ہے۔ ہر طرف سے جمہوریت کی دہائی دی جا رہی ہے مگر حالات میں تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ ابتدا سے ہی اس چوتھے ستون کا استعمال مذکورہ فرائض منصبی کے برعکس اپنے کاز اور مخصوص اجتماعی؍گروہی مفادات کے لیے کیا گیا ہے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ دراصل میڈیا کی بنیاد کی پہلی اینٹ میں ہی کجی تھی جو شعوری تھی،جس کے بداثرات سے آج بھی میڈیا پاک نہیں ہوسکا ہے۔ دنیا کا سب سے پہلا اخبار 1605 میں جرمنی سے شائع ہوا لیکن ایک اطلاع کے مطابق، اس سے قبل 1580میں جرمنی کے شہر فرینکفرٹ اورلاپاز سے کاروباری معلومات پر مشتمل ششماہی کا اجرا کیا گیا۔ یہ دونوں جرمن زبان میں شائع ہوتے تھے۔ ان کا مقصد کاروبار میں توسیع اور بازار کی معلومات فراہم کرنا تھا۔ اس کے بعد اس میں تہذیبی اور ثقافتی خبروں کو بھی جگہ ملنے لگی جس کی وجہ سے ان کی مقبولیت عوام میں بڑھنے لگی۔ اس طرح کاروباری خبروں کی اشاعت نے عوامی خبروں کی اشاعت کی راہ آسان کر دی لیکن یہ سب غیر منظم طور پر ہو رہا تھا۔اس کے پیچھے صرف آگاہی کا جذبہ کار فرما تھا لیکن جب اخبارات نے مقبولیت حاصل کرلی اور وہ ایک انڈسٹری کی راہ پر چل پڑے تو اسے ایک گروہ نے اچک لیا جس نے پریس کا منشور تیار کیا۔ منشور دو طرح کے ہوتے ہیں- بالکل ہاتھی دانت کی طرح کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ میڈیا کے بارے میں بھی یہی کیا گیا۔
میڈیا کو ایک انڈسٹری بنانے اور اس کو مقبول عام کرنے میں یہودیوں کا سب سے بڑا کردار ہے۔ یہ کردار انہوں نے جمہوریت سے محبت اور عوام کی آواز کو مضبوط کرنے کے لیے نہیں ادا کیا تھا بلکہ اس کے پیچھے ان کے اپنے مذہبی اور گروہی مقاصد تھے جن کی بر آوری کے لیے یہودیوں نے دماغ اور سرمایہ دونوں لگایا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ آج وہ تعداد میں سب سے کم ہونے کے باوجود پوری دنیا پر قابض ہیں۔ وہ جب جہاں جو چاہیں کر سکتے ہیں، جس ملک کی چاہیں اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں، عوام کو سڑکوں پر لاسکتے ہیں۔ان کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ کسی بھی ملک کا تختہ پلٹ سکتے ہیں۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیونکر ممکن ہے تو اس کا جواب بہت سادہ اور چھوٹا سا ہے کہ پوری دنیا کے میڈیا کے ایک بڑے حصے پر ان کا قبضہ ہے۔انہوں قبضہ کیسے کیا؟ اس سوال کا جواب پانے کے لیے سوا سو سال پیچھے جانا ہوگاجب ہولوکاسٹ نہیں ہوا تھا، اس کے باوجود یہودیوں نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ دنیا کے سامنے اپنی مظلومیت کا رونا رونا ہے جس کے لیے میڈیا کا سہارا لینا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کا اپنا کوئی ملک نہیں تھا، وہ ریشہ دوانیوں کے سبب ہر ملک سے در بدر کیے جا چکے تھے مگر اپنی روش پر جمے رہے اور جس ملک میں گئے، اس کو سازشوں کا مرکز بنا لیا جس کے سبب ہر جگہ یہ ناپسند کیے گئے مگر ہمیشہ وسائل پر قبضہ رکھا اور نئے نئے وسائل کی تلاش کی۔ جب میڈیا جیسا طاقتور وسیلہ وجود میں آیا تو اس پر قبضے کے لیے یہودیوں نے ایک منصوبہ تیار کیا۔ 1897میں سوئٹزرلینڈ کے شہر بال میں تھیوڈورہرتزل کی قیادت میں پوری دنیا کے تین سو یہودی دانشوروں نے ایک میٹنگ کی۔ اس میں 19نکاتی ایک دستاویز تیار کیا گیا جس کا اصل مقصد پوری دنیا پر حکومت کرنا تھا۔ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے۔ اس 19 نکاتی دستاویز میں بارہویں نمبر پر میڈیا کو رکھا گیا تھا جس کی غیر معمولی اہمیت، اس کی طاقت اور اس کی افادیت کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کے لیے منشور تیار کیا گیا جس میں ایسے قوانین کی توضیع کی بات کی گئی کہ بغیر اجازت کے کچھ بھی چھپ نہ سکے تاکہ ان کے خلاف اگر کوئی مواد شائع ہونے والا ہو تو اس سے وہ باخبر ہوجائیں۔ مطلق العنان حکمرانوں، اوباش سیاست دانوں کے ساتھ ہی ایسے افراد، جماعتوںکی حمایت کا بھی منصوبہ بنایا گیا جو جمہوریت اور عوامی مسائل کے حامی ہوں تاکہ توازن برقرار رہے۔ جعلی خبروں کا منصوبہ ابتدا میں ہی بنا لیا گیا تھا تاکہ مقاصد پورے کیے جاسکیں اور رائے عامہ کو اپنے مفادات کے لیے ہموار کیا جاسکے۔ آج ہندوستانی میڈیا کو اگر اس تناظر میں دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ ابتدائی منصوبوں پر ہی عمل پیرا ہے۔
میڈیا پر قبضہ کرنے کے لیے یہودیوں نے خبر رساں ایجنسیوں کے قیام پر توجہ دی ۔ ان کامقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ اس طرح اخبارات کو وہی خبریں ملیں گی جو وہ چاہیں گے۔ چونکہ ہر اخبار ہر شہر اور ہر ملک میں اپنا نامہ نگار اور بیورو چیف تو نہیں رکھ سکتا، ایسے میں اگر کوئی ایسا ادارہ ہو جو خبریں ان تک پہنچائے تو کم خرچ میں اخبارات ہر جگہ کی خبریں حاصل کر سکتے ہیں۔ جوں ہی اس طرح کی ایجنسیاں قائم ہوئیں، اخبارات نے بلا تامل ان کی خدمات حاصل کرلیں۔ اس سے یہودیوں کو دو طرح کے فائدے حاصل ہوئے- اول فکری نہج قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ دوم اس انڈسٹری پر ان کا قبضہ ہوگیا۔جس کے لیے رائٹر، ایسوسی ایٹیڈ پریس، اے ایف پی، یونائٹیڈ پریس جیسی خبر رساں ایجنسیاں قائم کی گئیں۔ خبر رساں ایجنسیوں نے صرف خبروں پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ خبر کے ساتھ ہی ان پر تبصرے، فیچر، کالم، اسٹوری وغیرہ بھی فراہم کرنا شروع کیا۔ اس سے اخباروں کا کام آسان ہوگیا مگر چونکہ ان کے پیش نظر کچھ خاص مقاصد تھے، اس لیے انہوں نے اس پر خصوصی توجہ دی۔ جس سے دنیا کا میڈیا نہ صرف ان کے قبضے میں آگیا بلکہ قارئین اس نہج پر سوچنے لگے جس نہج پر وہ ان کی فکر کو ڈالنا چاہتے تھے۔ یہیں سے رائے عامہ کی ہمواری کا آغاز ہوا۔
عالمی خبر رساں ایجنسی ’رائٹر ‘کے بانی جولیس ریوٹر ہیں جو 1816 میں جرمنی کے ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے بینک کی نوکری چھوڑ کر اس پیشے کو اختیار کیا۔ 1851تک رائٹر کا دائرۂ کار لندن تک بڑھ چکا تھا۔ یہ خبر رساں ایجنسی سیاسی ،سماجی،کاروباری اور ثقافتی خبریں مہیا کراتی تھی۔ چند برسوں میں ہی جرمنی، امریکہ، فرانس اور انگلینڈ کے اخبارات نے اس کی خدمات لینی شروع کر دیں۔ 1857 میں جولیس ریوٹر کو برطانوی شہریت دے دی گئی۔ پوری دنیا کے اخبارات اس یہودی خبر رساں ایجنسی کی خبروں کو کسی آسمانی صحیفے کی طرح آج بھی اہمیت دیتے ہیں۔ امریکہ کے پانچ بڑے روزناموں نے مل کر ’ایسوسی ایٹیڈ پریس ‘نام سے خبر رساں ایجنسی قائم کی جو 1900میں ایک عالمی خبر رساں ایجنسی بن گئی ۔ اس کمپنی میں 90 فیصد حصہ یہودیوں کا تھا۔ 1907 میں امریکہ کے دو بڑے سرمایہ دار اسکرائپس ہوارڈ نے ’یونائٹیڈ پریس‘نام سے خبر ساں ایجنسی قائم کی۔ 1909 میں ولیم ہیرسٹ نے خبر رساں ایجنسی ’انٹرنیشنل نیوز سروس‘ قائم کی۔ اس کی شاخیں بہت جلد پوری دنیا میں پھیل گئیں۔ ولیم ہیرسٹ اگرچہ خود عیسائی تھے مگر ان کی بیوی ایک بڑے یہودی سرمایہ کار کی بیٹی تھیں جس کے بعد ان کے بچوںڈیوڈ ہیرسٹ اور پیٹریشیا ہیرسٹ کا پورا خاندان ایک یہودی خاندان میں تبدیل ہو گیا۔ فرانس میں بھی یہودیوں نے ایجنسیوں کے ذریعہ میڈیا پر قبضہ کیا۔ یہاں کا سب سے بڑاخبر رساں ادارہ ’ایجنسی فرانس پریس ‘ہے جسے ایک یہودی خاندان ’ہاواس ‘ نے ’ہاواس نیوز ایجنسی‘ نام سے قائم کیا تھا۔ اس کے علاوہ فرانس کے اہم اخبارات پر ابتدا سے ہی یہودیوں کا قبضہ تھا۔برطانیہ میں اگرچہ عیسائیوں کی کثرت ہے۔ اس کے باوجود وہاں کا میڈیا یہودیوں کے ہاتھ میں ہے۔ بی بی سی جیسے ادارے کے متعدد سربراہ یہودی ہوئے ہیں۔اسے آج بھی ایک معتبر خبر رساں ادارہ تصور کیا جاتا ہے۔اسٹار ٹی وی کی اپنی رسائی ہے۔ اس پر یہودی پروپیگنڈہ ہمیشہ غالب رہا ہے۔1780سے شائع ہونے والا’’لندن ٹائمس‘‘ برطانیہ کا ایک اہم اخبار ہے جس کے ایسے حالات ہوئے کہ اسے بند ہونے سے بچانے والا آسٹریلیائی یہودی سرمایہ کار روپرٹ مردوخ نجات دہندہ تصور کیا گیا۔ اس نے ’سنڈے ٹائمز‘ بھی خرید لیا۔ اس طرح برطانیہ کے دو سب سے اہم اخباروں پر بھی یہودیوں کا قبضہ ہوگیا۔ان سبھی اخبارات میں ایک قدر یہ مشترک تھی، یہودیوں کے خلاف کبھی خبریں شائع نہیں ہوتی تھیں۔ ان کے کالم، خبروں،فیچر اور اسٹوری نے ان کی شبیہ سازی کا کام کیا۔ اسی طرح جس قوم سے ان کو خطرہ تھا، اسے ایک وِلن کے طور پر پیش کیا۔آج بھی ہولوکاسٹ سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور اگر کوئی عالمی سیاست داں یہ جرأت کرنے کی حماقت کردے تو پوری دنیا کا میڈیا اس کا ناطقہ بند کر دے گی۔ اس طرح یہودی ابتدا سے ہی میڈیا پر قابض ہیں۔ یہودیوں کے مقاصد یکساں ہیں۔ ہندوستان کے میڈیا کا ایک طبقہ خاص طرح کے رنگ میں رنگا ہوا ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ا س طبقے کے لوگ ایسی خبروں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جن میں کوئی مسلم بطور مجرم ہو لیکن وہی جرم اگر کوئی غیر مسلم کرتا ہے تو میڈیا خاموش ہو جاتا ہے۔ دہلی میں فسادات ہوئے تو میڈیا کا رنگ الگ تھا، منی پور تین ماہ سے جل رہا ہے مگر میڈیا ایک شان بے نیازی کا مظاہرہ کر رہا ہے جس سے اس کی روش کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آج بھی میڈیا ان ہی مقاصد کے حصول کے لیے کاربند ہے جو ابتدا میں طے کیے گئے تھے۔ n