سوشل میڈیا: مقبولیت بے وجہ نہیں!

0

صحافت کی تاریخ پر اگر غور کیا جائے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہر دور کے حساب سے اس نے اپنا دائرہ وسیع کیا ہے۔ پہلے اخبار و رسائل ہی شائع ہوا کرتے تھے۔ اس وقت تک خبریں صرف پڑھی جا سکتی تھیں۔ مطلب یہ کہ پڑھے لکھے لوگ ہی باخبر رہ سکتے تھے یا وہ لوگ جو ناخواندہ لوگوں کو باخبر رکھنا چاہتے تھے۔ پھر ریڈیو آگیا۔ اس نے ان لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کر دیں جنہیں پڑھنا نہیں آتا تھا۔ وہ سن کربھی باخبررہ سکتے تھے۔ اس کے بعد ٹیلی ویژن آگیا۔ اس نے صحافت کے دائرے کو اور وسیع کر دیا۔ ٹیلی ویژن کے آنے سے خبریں سننے کے ساتھ دیکھنے کا بھی چلن شروع ہوا، یہ محسوس کرنے کا بھی چلن شروع ہوا کہ کوئی حادثہ یا واقعہ کیسا اثرچھوڑتا ہے۔ یہیں سے صحافت بڑی تیزی سے تبدیل ہونا شروع ہوئی۔ انٹرنیٹ کی ایجاد کے بعد خبروںتک رسائی اورآسان ہو گئی۔ خبروں کے لیے بہت انتظار کرنے کا دور ختم ہوا۔ پھرسوشل میڈیا آگیا۔ اس سے یہ ہوا کہ عام لوگ بھی صحافی کا کردار ادا کرنے لگے، تصویریں اور ویڈیو ڈالنے لگے۔ دعویٰ سے یہ کہنا مشکل ہے کہ صحافیوں کے بہتر رول ادا نہ کرنے کی وجہ سے بہت سے لوگ دلبرداشتہ تھے، وہ حقائق دکھانا چاہتے تھے، اسی لیے سوشل میڈیا سے ان کی دلچسپی بڑھی، البتہ یہ کہنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ سوشل میڈیا نے روایتی میڈیا اور صحافت کے مختلف ذرائع کو متاثر کیا ہے۔ ان سے وابستہ لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبورکیا ہے کہ وہ اگرحقیقت نہیں بھی دکھائیں گے تو حقیقت سامنے آجائے گی، لوگ اسے سامنے لائیں گے۔ دراصل صحافیوں کے ساتھ مجبوری یہ تھی کہ وہ انجام کی پروا کیے بغیرکچھ بھی نہیں دکھا سکتے مگرجو لوگ صرف حقیقت دکھانا چاہتے ہیں، نام کمانا چاہتے ہیں، انہیں اس کی فکرنہیں رہتی کہ ان کا کیا ہوگا۔ ان کے لیے اہمیت کی بات یہ زیادہ ہوتی ہے کتنے لوگ ان کے سبس کرائبر بن رہے ہیں،کتنے لوگوں نے ان کا ویڈیودیکھا۔ ویسے ایسا نہیں ہے کہ عام لوگوں نے ہی سوشل میڈیا کا ’بھرپور‘ استعمال کیا ہے،وہ صحافی جو کسی چینل سے وابستہ رہ کر اپنی پسند کی صحافت نہیں کر پاتے تھے، ان کے دل میں کہیں یہ کسک رہتی تھی کہ انہیں محنت کے مطابق معاضہ نہیں مل رہا ہے، وہ بھی سوشل میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ یو ٹیوب پر کئی مقبول صحافیوں کے چینل چل رہے ہیں۔ ان کے سبس کرائبروں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ان کے ایک ایک پروگرام کو لاکھوں لوگ دیکھتے ہیں۔ وہ ہر ماہ لاکھوں روپے کماتے ہیں۔ ان کا اپنا ایک نام ہے۔ انہیں یہ خوف نہیں کہ کسی خبر کی وجہ سے ان کی نوکری چلی جائے گی۔ دوسری طرف لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ جو خبریں انہیں الیکٹرانک میڈیا کے چینلوں پردیکھنے کو نہیں ملیں گی، یو ٹیوب چینلوں پر ملیں گی۔ بڑے صحافی خبریں ٹھونک بجاکر پیش کرتے ہیں، البتہ سوشل میڈیا کی خبروں پر آنکھ بند کرکے یقین کرنا کتنا مہلک ہوتا ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ سوشل میڈیا کی اہمیت بڑھے گی، اس پر دی جانے والی خبروں کے معیار میں بہتری آئے گی اور اس سے روایتی میڈیا والوں پر یہ دباؤ بڑھے گا کہ وہ اصلاح کریں۔ ’جودکھتا ہے وہی بکتا ہے‘ کی پالیسی پر عمل کرنے کے بجائے ’ جو دکھتا ہے، ضروری نہیں کہ وہ سچ ہو‘ والی پالیسی پرعمل کریں۔ اس سے ان کی خبریں جھوٹ کا پلندہ نہیں ہوں گی۔ انہیں لوگوں کو جوڑے رکھنے کے لیے، ٹی آرپی بڑھانے کے لیے جادو ٹونے کی کہانیاں نہیں سنانی پڑیں گی، باباؤں کے قصے نہیں دکھانے پڑیں گے۔ وہ لوگوں کے ذہن میں زہر گھولنے کا کام نہیں کریں گے۔ کسی خاص کمیونٹی کے لوگوںکو نشانہ بنانے اورسیاست کی آنچ پر روٹی سینکنے کی ضرورت انہیں نہیں پڑے گی۔ بدلتے حالات کو جو چینل جتنی جلدی سمجھے گا، آنے والے وقت میں وہ اتنا زیادہ فائدے میں رہے گا مگر جو بدلتے حالات کو سمجھنے میں تاخیر کرے گا، اس کے لیے گزرتے وقت کے ساتھ مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا، کیونکہ کوئی بھی وقت برباد کرنے کے لیے ٹیلی ویژن کے سامنے نہیں بیٹھتا۔ اگر صرف جھوٹی خبروں اور کسی خاص کمیونٹی کے لوگوں کو نشانہ بنانے کی وجہ سے ہی کوئی چینل چل جاتا توپھر چینلوں کوباباؤں کے قصے سنانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ان کے ذمہ داران ٹی آرپی کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے اور مختلف طرح کے ہتھکنڈے نہیں اپناتے۔ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS