مراق مرزا
کسی بھی ملک یا انسانی سماج میں صحافت کا کردار بے حد اہم ہوتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایماندار اور غیر جانبدار صحافت ملک کی ترقی کے سفر میں قدم سے قدم ملا کر اہل اقتدار کے ہمراہ چلتی ہے اور عوام کے لیے چلائے جانے والے سرکاری فلاحی پروگراموں میں حکمراں طبقے کی مدد و معاونت کرتی ہے۔ عوام اور حکمراں کے مابین بھروسے کا رشتہ مستحکم کرنے اور اسے قائم رکھنے میں بھی صحافت کلیدی رول ادا کرتی ہے لیکن صحافت کا دوسرا چہرہ بھی ہے۔ جمہوری نظام حکومت میں صحافت ایک سخت اور با اصول واچ ڈاگ یا پہرہ دار کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ جب کہیں بدعنوانی اور بے انصافی نقطۂ عروج پر پہنچ جاتی ہے، ارباب اختیار جب مسند حکمرانی کے نشے میں چور ہوکر آئینی اقدار و تقدیس کو قدموں تلے روندنے لگتے ہیں اور عوام کو غلام سمجھ کر ان کے بنیادی حقوق کو پامال کرنے لگتے ہیں تو سچی صحافت خاموش نہیں رہتی۔ ایسی صورتحال میں وہ مطلق العنان سرکاروں کے خلاف قلم کو تلوار بنانے سے پیچھے نہیں ہٹتی۔ وہ اپنے ملک اور عوام کی بقا اور دفاع کے لیے انجام کی پروا کیے بغیر میدان جدال میں اتر جاتی ہے۔ صحافت کے حوالے سے تاریخ میں متعدد ایسے واقعات درج ہیں کہ جب صحافت عوامی انقلاب کا محرک بنی ہے اور اپنی طاقت سے بدعنوان اور ظالم حکومتوں کے تختے پلٹ دیے ہیں۔ بے باک اور بااصول صحافت حکومت کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکتی۔ حکومت کا ظلم و جور اسے متزلزل یا کمزور کرنے میں ہمیشہ ہی ناکام رہا ہے۔ جمہوریت اگر عوامی حکومت کا نام ہے تو بے خوف صحافت عوام کا وہ ہتھیار ہے کہ جس کے ذریعے جمہوری نظام صحیح طریقے سے چلتا ہے اور آگے بڑھتا ہے۔ غالباً یہی سبب ہے کہ ہر وہ ملک جہاں دستور جمہوریت کا راج ہے وہاں صحافت کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
دنیا کے بہت سے دیگر ملکوں کی طرح ہندوستان کی جنگ آزادی میں بھی صحافت کا اہم اور نمایاں کردار نظر آتا ہے۔ مہاتما گاندھی نے ملک کی آزادی کی لڑائی صرف اپنے نظریۂ عدم تشدد کے ہتھیار سے نہیں لڑی بلکہ اس لڑائی میں ان کا صحافتی قلم بھی شامل تھا۔ ہفتہ روزہ اخبار ’ینگ انڈیا‘ بھی شریک تھا۔ ’ینگ انڈیا‘ کی بنیاد لالہ لاجپت رائے نے 1916 میں رکھی تھی جس کی اشاعت کی ذمہ داری بعد میں گاندھی جی نے اٹھالی تھی۔ 1933 میں گاندھی جی نے ’ہریجن‘ نام سے انگریزی میں ایک ہفت روزہ اخبار کا اجرا کیا تھا جس کا سفر 1948 تک جاری رہا۔ اسی دوران گاندھی جی نے گجراتی زبان میں ’ہریجن بندھو‘ اور ہندی میں ’ہریجن سیوا‘ نام سے بھی دو اخبار کی اشاعت شروع کی تھی۔ یہ اخبار مہاتما گاندھی کے قلمی ہتھیار تھے۔ گاندھی جی کے علاوہ پنڈت جواہر لعل نہرو، مولانا آزاد نیز چند دیگر مجاہدین آزادی کے سماجی و سیاسی مضامین بھی ان اخبارات میں شائع ہوتے تھے۔ مولانا آزاد نے1912 میں ’الہلال‘ نامی ایک ہفتہ روزہ اخبار جاری کیا تھا۔ یہ ایک اردو اخبار تھا جس کے ذریعے وہ اپنے صحافتی قلم سے حکومت برطانیہ کی بربریت اور ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھایا کرتے تھے اور ملک کے مسلمانوں اور نوجوانوں کو وطن کی آزادی کے لیے چلائی جارہی مہمات سے جڑنے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ علاوہ بریں کئی دیگر لکھنے والے مجاہدین آزادی بھی برطانوی سامراجیت کے خلاف اپنے صحافتی قلم سے جہاد کر رہے تھے۔ تب جہاد کا معنی و مفہوم الگ تھا۔ آج کی سیاست نے جہاد کا مطلب بگاڑ دیا ہے۔
صحافت کا سیاست سے جو رشتہ ہے، اس سے الگ صحافت کئی دیگر فرائض بھی انجام دیتی ہے۔ کسی بھی ملک میں مہذب سماج کی تشکیل میں صحافت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اخبارات و رسائل میں شائع ہونے والے سماجی مضامین اچھے سماج کی تعمیر میں معاون و مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ حقیقی صحافت کے وقار و حرمت میں آج بھی کوئی خاص کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ عصر حاضر میں بھی بڑے بڑے مناصب پر فائز ارباب اختیار ہمارے سامنے موجود ہیں جو اخبارات و رسائل میں کالم لکھتے رہتے ہیں۔ ان میں سیاسی لیڈران کے علاوہ ڈاکٹرس، رائٹرس، ریٹائرڈ پولیس اور ملٹری افسران نیز مذہبی رہنما شامل ہیں۔آج تو صحافت قلمی دائرے سے نکل کر برقی ذرائع ابلاغ ٹی وی ڈیجیٹل میڈیا کے آفاق پر پھیل چکی ہے۔ ماضی کے مقابلے آج کی صحافت ہزار گنا طاقتور ہو چکی ہے، چنانچہ کسی بھی ملک میں سرکار بنانے، گرانے نیز عوام کے مزاج کو کسی ایک مخصوص سیاسی جماعت کی طرف موڑنے کا کام بھی صحافت سے لیا جا رہا ہے، لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ آج کے دور کی صحافت اپنا حقیقی کردار کھو چکی ہے اور ضمیر فروخت کر چکی ہے۔ جسے ہم صحافت سمجھ رہے ہیں، وہ تفریحی شو کے سوا کچھ نہیں ہے۔ صحافت جب تک اپنے حقیقی کردار کے پیکر میں سانس لیتی ہے تب تک ہی اسے صحافت کے زمرے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جب اپنے آدرش اور اصول کو بیچ کر وہ سیاست کی غلامی قبول کر لیتی ہے تو اس کا وجود باقی نہیں رہتا۔ عالمی سطح پر آج کی جو صحافت ہے، وہ ایک مہلک ہتھیار بن چکی ہے جس کا استعمال کر کے کئی ملکوں نے عوام کو غلام بنا لیا ہے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ صحافت جب سرما یا دارانہ نظام کی داشتہ بن جاتی ہے تو اس سے جڑے تمام اعتبار و وقار ختم ہو جاتے ہیں۔ اس کی تقدیس فنا ہو جاتی ہے۔ پھر اس کی حیثیت بازار میں بکنے والی کسی شے سے زیادہ نہیں رہ جاتی۔ ایسی صحافت کو لوگ صحافت نہیں بلکہ سیاست کی دلال کہتے ہیں۔ جس طرح ضمیر بیچنے والا انسان اندر سے مرجاتا ہے اسی طرح قلم جب بک جاتا ہے تو صحافت کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ تاریخ میں سچی صحافت کے راستے پر چلنے والے متعدد جانباز صحافیوں کی شہادت کے واقعات درج ہیں۔ اپنے قلم کی تقدیس اور اپنے آدرش اور اصول کی حفاظت نیز ملک وقوم کی فلاح و بہبود کے لیے جو جان کی بازی لگا دے، ایسے ہی قلم کے سچے سپاہی کو سچا صحافی کہا جاتا ہے۔ ایسا صحافی اگر چاہے تو اپنے ملک اور قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے۔n