سید خالد حسین (سنگاپور)
اکثر لوگ جزیرہ نمائے عرب اور برصغیر ہند و پاک میں اسلام کی آمد اور توسیع کے بارے میں واقف ہیں، لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جنوب مشرقی ایشیا میں اسلام کب اور کیسے آیا اور اسلام سے پہلے یہاں کون سے مذاہب تھے۔ گیارہ ممالک پر مشتمل جنوب مشرقی ایشیا بحر ہند میں واقع ہے۔ یہ ممالک انڈونیشیا، ملیشیا، برونائی، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ، ویتنام، میانمار، کمبوڈیا، لاؤس اور تیمور لیسٹے (مشرقی تیمور) ہیں۔ ا28 لاکھ مربع میل پر پھیلے ہوئے اس خطے کے شمال میں چین، کوریا اور جاپان ہیں، جنوب مشرق میں آسٹریلیا ہے اور مغرب میں ہندوستان اور اس کے اطراف کے ممالک ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا کی کل آبادی اڑسٹھ کروڑ ہے، جس میں سے 28 کروڑ یعنی 41 فیصد مسلمان ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے بعد (جس کی آبادی 36 کروڑ ہے، جن میں سے 33 کروڑ یعنی اسی فیصد مسلمان ہیں) کسی بھی خطے میں یہ مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی ہے۔ تیسرے نمبر پر جنوبی ایشیا ہے، جس کی آبادی ایک ارب اسی کروڑ ہے اور اس میں 60 کروڑ یعنی 32 فیصد مسلمان ہیں۔
اسلام اور جنوب مشرقی ایشیا کے درمیان بالکل ابتدائی رابطہ ساتویں صدی عیسوی میں ہوا، جب جزیرہ نمائے عرب، فارس(موجودہ ایران) اور ہندوستان کے مسلمان تاجروں نے اس خطے کے وسیع تجارتی راستوں کو تلاش کرنا شروع کیا۔ یہ تاجر اپنے ساتھ نہ صرف مال تجارت لائے بلکہ اسلامی تعلیمات کو بھی جنوب مشرقی ایشیا کے ساحلوں تک پہنچا دیا۔ عرب تاجروں نے (موجودہ مغربی ملیشیا کے شہر) ملاکا اور(جواب انڈونیشیا کے شمالی جزیرہے سماٹرا کے شہر) آچے جیسی بندرگاہوں پر اقتصادی راستے اور بستیاں قائم کیں،یا جس کے ذریعے اسلام نے اس پورے خطے میں جڑ پکڑنا شروع کر دی۔ ملاکا (جو اس خطے کی سب سے اہم بندرگاہ تھی) نے ایک نقطہ آغاز کے طور پر کام کیا اور یہاں سے خطے میں تجارتی راستوں کے ساتھ اسلام کی تبلیغ کی گئی۔ اس طرح ملاکا اسلام کا ابتدائی مرکز بنا اور سب سے پہلی مسلم آبادی آچے میں وجود میں آئی۔
اس خطے میں اسلام کی تبلیغ و توسیع میں عرب، خصوصی طور پر یمن اور ہندوستان سے آئے ہوئے صوفیائے کرام کا بھی بہت اہم کردار رہا ہے۔ ان صوفی علماء اور مبلغین نے اس خطے کا سفر کر کے مقامی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ انھوں نے لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے کے لئے نہ صرف اسلام کے روحانی پہلوؤں پر زور دیا بلکہ اس خطے کے مقامی عقائد اور مذہبی تصورات کے ساتھ اسلامی نظریات کو ہم آہنگ کرکے اسلامی عقیدے کو پھیلایا۔ ان صوفیائے کرام نے مقامی برادریوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے اور مقامی رسم و رواج اور عقائد کو اسلامی طریقوں میں شامل کرنے پر توجہ دی۔ ان کا نقطہ نظر زیادہ جامعیت اور رواداری پر مبنی تھا، جس نے اسلام کو مقامی آبادی میں قبولیت حاصل کرنے میں مدد کی۔ اسلام آنے کے بعد جب اس خطے کے لوگ تیزی سے اس دین کو قبول کرنے لگے تو خطے کے حکمران طبقوں نے بھی اپنی حکمرانی کو جائز بنانے کے لئے اسلام قبول کر لیا، جس نے پورے خطے میں اسلام کے پھیلاؤ میں مزید مدد کی۔
ساتویں صدی عیسوی سے چودھویں صدی عیسوی تک سماٹرا کے جزیرے پر واقع کلاسیکی بدھ بادشاہت ملائی کنگڈم کے نام سے جانی جاتی تھی۔ یہ بادشاہت جنوب مشرقی ایشیا اور مغربی نوسنتارا پر مشتمل تھی۔ نوسنتارا میں آسٹرونیشیا سے متعلقہ ثقافتی اور لسانی علاقے شامل تھے، یعنی انڈونیشیا، ملیشیا، سنگاپور، جنوبی تھائی لینڈ، فلپائن، برونائی، مشرقی تیمور اور تائیوان۔ ان میں سب سے نمایاں سلطنتیں ملاکا، جوہر-ریاؤ-لنگا اور برونائی کی تھیں۔
بدھ مت اور دراوڑی ہندو مت
اسلام کی آمد سے قبل بدھ مت اور ہندو مت کی غیر ویدک دراوڑی شکل اس خطے کے اہم مذاہب تھے اور جزیرہ نمائے ملیشیا و انڈونیشیا سری وجیا کے نام سے ایک طاقتور بدھ تجارتی سلطنت تھی۔ نویں صدی عیسوی تک مسلم تاجروں نے جنوب مشرقی ایشیا میں تجارت پر غلبہ حاصل کر لیا تھا۔ سن 1025 عیسوی میں جنوبی ہند کے چولا شاہی خاندان کے راجہ راجندر اول نے سری وجیا پر بحری حملے شروع کر دیے۔ جیسے جیسے سری وجیا سلطنت کا اثر و رسوخ کم ہوتا گیا، عرب اور ہندوستانی مسلم تاجر وہاں معاشی مراکز قائم کرنے اور خطے میں اسلام کے عقیدے کی تبلیغ کرنے میں کامیاب ہوتے گئے۔
تیرہویں صدی میں جنوب مشرقی ایشیا میں مسلم سلطنتوں کے قیام نے اسلام کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا۔ سلطنت ملاکا، سلطنت دیما (موجودہ جاوا، انڈونیشیا) اور سلطنت برونائی جیسی طاقتور اسلامی ریاستوں نے اسلام کی ترقی کے لیے سیاسی اور ادارہ جاتی امداد فراہم کی۔ ان سلطنتوں کے مسلم حکمرانوں نے اکثر اسلام کو ریاستی مذہب کے طور پر اپنایا اور اس کی تبلیغ کو فعال طور پر فروغ دیا۔ انہوں نے مساجد، مدارس اور دیگر مذہبی عمارتوں اور سہولتوں کی تعمیر میں بھی مدد کی۔ یہ سلطنتیں اسلامی تعلیم اور تجارت کے مراکز کے طور پر کام کرتے تھے جو مسلم دنیا کے علماء ، تاجروں اور مسافروں کو راغب کرتے تھے۔ حکمران اشرافیہ کی طرف سے اسلام کو اپنانے نے اس عمل کو مزید تیز کر دیا۔
چودھویں صدی کے دوران مالائی دنیا بہت سے اثرات کے ذریعہ اسلامائزیشن کا تجربہ کرتی رہی۔ خاص طور پر صوفی اساتذہ اور آل رسولؐ و حضرموت (یمن) اور خلیج فارس کے حکمران طبقے کے مردوں کی مالائی شاہی خاندانوں میں شادیوں سے ان اثرات میں بہت اضافہ ہوا۔ صوفیوں نے صوفی ادب کی کلاسیکی کتابوں کا عربی اور فارسی سے ملائی زبان میں ترجمہ کیا، جس سے ملائی ایک اہم اسلامی زبان بن گئی۔ صوفیوں نے اس وقت ملائی میں اصل اسلامی تصانیف کی نقل بھی کی۔اس طرح جنوب مشرقی ایشیا میں اسلام بتدریج مقامی آبادیوں میں باہمی شادیوں، ثقافتی انضمام اور مدارس کے اثر و رسوخ کے ذریعے پھیلتا رہا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلام اس خطے کے سماجی و ثقافتی تانے بانے میں گہرائی سے پیوست ہوتا چلا گیا، جس نے قانون، زبان، فن اور فن تعمیر سمیت زندگی کے مختلف پہلوؤں کو تشکیل دیا۔
حکمرانوں کا قبول اسلام
سن 1414 میں ملاکا کے ہندو حکمران پرمیشور نے اسلام قبول کر لیا اور مگت اسکندر شاہ کا مسلم نام اپنایا۔ بعد میں اس نے اپنے بیشتر رعایا کے ذریعہ اسلام کو اپنانے میں تعاون کیا۔ اس طرح پورے خطے میں اسلام کی ایک تیز رفتار تبدیلی کے دور کا آغاز ہوا، کیونکہ مذہب نے حکمران کی ’’دولت‘‘ اور تجارتی طبقات کے درمیان متحد قوت فراہم کر دی۔ ملائی زبان کے لفظ ’’دولت‘‘ سے مراد خدا کی طاقت کے ذریعے حکمران کی قانونی حیثیت ہے، اور یہ حکمرانی قانونی حیثیت اور اسلام کے پھیلاؤ کے درمیان مضبوط تعلق کی نشاندہی کرتا ہے۔
سن 1446 سے 1459تک ملاکا کے سلطان مظفر شاہ کے دور میں اسلام ریاست کا سرکاری مذہب بن گیا۔ ان کے جانشین کی مذہبی علمیت اور قیادت نے بھی اسلام کی توسیع میں اہم کردار ادا کیا۔ چودھویں صدی کے وسط میں جاوا (انڈونیشیا) کے شمالی ساحل پر واقع بندرگاہی شہروں کے بہت سے سرداروں نے(جن میں دیما، جیپارہ، گریسک اور توبان شامل ہیں) اسلام قبول کر لیا۔ ان لوگوں نے جاوا میں مقیم ہندو-بدھ بحری سلطنت ماجپاہت سے(جو کہ زوال کا شکار تھی) آزاد تجارت بھی شروع کی۔ اسلام قبول کرنے والوں میں ایک رادن پاتہ بھی تھا۔ اس نے 1475 میں دیما بادشاہت کی بنیاد رکھی جو جاوا میں پہلی اسلامی مملکت تھی۔ رادن پاتہ دیما سلطنت کا پہلا سلطان تھا۔ وہ 1478 تک ماجپاہت سلطنت کا جاگیر دار رہا۔سن 1500 میں عرب تاجروں اور صوفیاء نے ملاکا سے فلپائن کا سفر کرکے برونائی، جزیرہ نمائے سولو اور منڈاناؤ میں اسلام کی تبلیغ کی۔ ان علاقوں کی اسلامی برادریوں کو ہسپانویوں کے حملے کے ساتھ ظلم و ستم اور قتل عام کا سامنا کرنا پڑا۔ فلپائن میں ہسپانویوں نے عیسائیت کو قبول کرنے سے انکار کرنے والوں کو تکلیفیں پہنچائیں جو ان علاقوں کی مسلم آبادی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئیں۔ سن 1500 سے 1518 تک اپنے دور حکومت میں رادن پاتہ نے ماجپاہت کو فتح کیا۔ اپنی فتح کے بعد اس نے جاوا اور سماٹرا میں ایک سلطنت قائم کی جو اس علاقے کے زیادہ تر حصوں پر پھیل گئی۔ رادن پاتہ نے مفتوحہ علاقوں کو اسلامی ریاستوں میں تبدیل کردیا اور تجارت و اسلام کو فروغ دیا۔ اسلام ماجپاہت سے پہلے بھی متعارف کرایا گیا تھا ،لیکن زوال، قحط اور خانہ جنگی کے دور کے بعد اس کے اثرات نے اسلام کی موجودگی کو مضبوط کر دیا۔
پرتگالیوں کی پسپائی
اسلام اس خطے میں پرتگالیوں کی آمد تک مضبوط رہا۔ پرتگالیوں نے اسلام کو عیسائیت سے بدلنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ بالآخر 1511 میں پرتگالیوں نے ملاکا کو فتح کرلیا، جس سے وہاں اسلامی سیاسی طاقت کا خاتمہ ہوگیا، لیکن چونکہ جاوا کا زیادہ تر حصہ پہلے ہی سے اسلام کے زیر اثر تھا، اس لئے وہاں اسلام کی توسیع ملاکا کے زوال کے بعد بھی جاری رہی۔ مسلمان تاجروں کو شمالی سماٹرا کے دیگر علاقوں اور بنتیں اور برونائی جیسی دیگر مسلم بندرگاہوں کی طرف جانے پر مجبور کیا گیا۔ ملاکا کے ساتھ تجارت بشمول ماجپاہت بہت سے علاقوں کے ساتھ پھول رہی تھی۔ تاہم اس تعلق سے حاصل ہونے والا فائدہ اور طاقت پرتگالیوں کی فتح کے بعد ختم ہو گیا۔
1524 میں علی مغیز چاہ نے پرتگالیوں سے پسائی سمدیرا دارالسلام کو حاصل کر لیا۔ پسائی سمدیرا دارالسلام تیرھویں سے سولھویں صدی تک سماٹرا کے شمالی ساحل پر ایک مسلم سلطنت تھی۔ خیال کیا جاتا تھا کہ اس سلطنت کی بنیاد میرہ سلو نے رکھی تھی، جس نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا اور سن 1267 عیسوی میں ملک الصالح کا نام اختیار کیا تھا۔ اس کے بعد علی مغیز چاہ نے آچے کے سیاسی عروج کے لیے تیاری کی اور اس کی بنیاد رکھی۔ آچے نے کئی ملائی ریاستوں کو کنٹرول کیا اور اس کی تجارت مظبوط ہوتی گئی اور بڑھتی رہی۔ آچے کی سب سے کامیاب قیادت 1507 سے 1528 تک سلطان ابراہیم نے اور 1607 سے 1636 تک سلطان اسکندر مودا نے کی۔ سن 1583 سے 1636 تک اسکندر مودا آچے دارالسلام کا بارہواں سلطان تھا جس کے ماتحت سلطنت نے مغربی انڈونیشیائی جزیرہ نما اور آبنائے ملاکا میں سب سے مضبوط اور امیر ترین ریاست کے طور پر اپنی سب سے بڑی علاقائی حد تک قبضہ کیا۔
سانحہ فلپائن
1570 میں اسپین نے فلپائن کو فتح کیا، جس کے بعد ہسپانوی بادشاہ نے اس خطے میں عیسائیت قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس عمل نے اسلام کو جنوب مشرقی ایشیا میں مزید پھیلنے سے روک دیا۔ اس علاقے میں عیسائیت کو غالب مذہب بننے میں زیادہ عرصہ نہیں لگا۔ نتیجتاً ہسپانویوں کے ہاتھوں اپنے آبائی علاقوں کے فتح ہو جانے کے بعد دسیوں لاکھ مقامی مسلمان جنوبی فلپائن( جسے منڈاناؤ کہتے ہیں) کی طرف بھاگنے اور وہاں مکین ہونے پر مجبور ہو گئے۔ اس تاریخی واقعے سے آج تک اس خطے کے مسلمان ناراض ہیں۔
آج اسلام انڈونیشیا، ملیشیا، برونائی کے علاوہ فلپائن اور تھائی لینڈ کے جنوبی حصوں میں غالب مذہب ہے۔ ان کے علاوہ اس خطے کے بقیہ ممالک میں غالب مذہب ابھی بھی بدھ مت اور عیسائیت ہیں۔ اس خطے کے سب ملکوں میں زیادہ تر مسلمان سنی ہیں اور شافعی مسلک کے ماننے والے ہیں۔ حنفی مسلک کے ماننے والے زیادہ تر جنوبی ہند کے تامل مسلمان ہیں، جو یہاں تقریباً ڈیڑھ سو سال سے آباد ہیں اور پچھلے دو تین دہائیوں میں ملازمت کے سلسلے میں آنے والے برصغیر ہند و پاک کے مسلمان ہیں۔ اہل تشیع کی تعداد بہت کم ہے۔ ملیشیا اور برونائی میں اسلام سرکاری مذہب ہے، جبکہ یہ انڈونیشیا کے چھ سرکاری عقائد میں سے ایک ہے۔ انڈونیشیا، ملیشیا، برونائی میں ملائی مقامی زبان ہے اور کہیں کہیں عربی رسم الخط وال جاوی زبان بھی رائج ہے۔ ان ممالک میں اسلامی ورثہ ،مقامی رسوم و رواج اور اسلامی طریقوں کے امتزاج سے نمایاں ہے، جس کے نتیجے میں ایک منفرد اور متنوع علاقائی اسلامی ثقافت ہر طرف نظر آتی ہے۔
[email protected]
جنوب مشرقی ایشیا میں اسلام کی آمد اور ترویج: سید خالد حسین (سنگاپور)
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS