وزیراعظم کی ’ رہبری‘ کا سوال

0

اس مطلق سچائی سے کوئی بھی فرد و بشر انکار نہیں کرسکتا کہ ہوائوں کے رخ اور موسموں کے تیور بدلنے میں دیرنہیں لگتی ہے۔کوئی بھی ہمہ مقتدرشخصیت کبھی بھی زوال آشنا ہوکر گمنامی کے اندھیروں میں غرق ہوسکتی ہے اور کوئی بھی گمنام،قبول عام کی سندحاصل کرسکتا ہے۔ ہر کمال کو زوال ہے اورہر نشیب کانصیبہ فراز سے ہم آغوش ہونا ہے۔ اس مطلق سچائی کا تازہ مشاہدہ ملک کو راہل گاندھی کے معاملہ میں ہوا ہے۔ جس راہل گاندھی کو سیاست بدر کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور انہیں ایوان سے باہر پھینک کر حکمراں بغلیں بجارہے تھے، آج اسی ایوان میں اسی حکمراں ٹولہ کی زبان پر راہل گاندھی کا نام تھا اوروہ راہل گاندھی کی تقریر سننے کیلئے بے تاب نظرآرہا تھا۔ پرہلاد جوشی سے لے کر نشی کانت دوبے تک سبھی یک زبان ہوکر مطالبہ کررہے تھے کہ تحریک عدم اعتماد پر بحث کا آغاز راہل گاندھی کریں۔
لیکن ان کی آرزو پوری نہیں ہوئی۔لوک سبھا میں گوروگوگوئی نے تحریک عدم اعتماد پیش کی اوربحث کا آغاز کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی سے تین سوالات پوچھے۔ پہلا یہ کہ وزیر اعظم مودی نے ابھی تک منی پور کا دورہ کیوں نہیں کیا؟ دوسرا سوال یہ کیا کہ منی پور فساد کے معاملے میں وزیراعظم کو بولنے میں تقریباً 80 دن کیوں لگے اور انہوں نے بولا تو وہ بھی صرف 30 سیکنڈ کیلئے؟ وزیراعظم نریندر مودی سے تیسرا سوال گورو گوگوئی نے یہ پوچھا کہ سیکڑوں افراد کی موت اور اربوں کی املاک خاکستر ہوجانے کے باوجود مودی جی نے منی پور کے وزیراعلیٰ کو کیوں نہیں ہٹایا؟
یہ وہ تین سوالات ہیں جن کے جواب کا پورے ملک خاص کر منی پور کے عوام کو شدت سے انتظار ہے۔3مئی 2023 سے شروع ہونے والے فسادات کی سنگینی کا تقاضا تھا کہ وزیراعظم اپنی ہر مصروفیت کو بالائے طاق رکھ کر امپھال پہنچتے اور حالات کا جائزہ لے کر صورتحا ل کو معمول پر لانے کی کوشش کرتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس موقع پر ملک نے یہ بھی دیکھا کہ بدترین فساد اور آگزنی جھیل رہی شمال مشرق کی اس پہاڑی ریاست میں متاثرین کی اشک سوئی اور دادرسی کیلئے آتش و آہن کی برسات کی پروا کیے بغیر راہل گاندھی پہنچ گئے۔ لیکن وزیراعظم نے وہاں جانا گواراکیوں نہیں کیا۔
وزیراعظم کی خاموشی کو بعض حلقے منی پور کے احوال پر پردہ ڈالنے کی کوشش بھی قرار دے رہے ہیں۔ایوان میں منی پور پر اٹھنے والے ہر سوال کا تشنہ جواب رہ جانا بھی اسی پردہ داری کا حصہ بتایا جا رہا ہے۔ منی پور کے وزیراعلیٰ کو برخاست نہ کیے جانے کامعاملہ بھی بہت سی بدگمانیاں پیدا کررہاہے کیوں کہ 9برسوں کی بی جے پی کی حکومت میں ریاستوںمیں کئی بار بی جے پی کے وزرا بدلے جاچکے ہیں۔ اتراکھنڈ،گجرات اور تریپورہ اس کی حالیہ مثالیں ہیں۔جب سیاسی مساوات کو بہتر کرنے کی ضرورت پیش آئی تھی تو بلاتاخیر ریاستوں میں وزرائے اعلیٰ بدل دیے گئے مگر منی پور میںاپنی بدانتظامی اور ناقص کارکردگی کی وجہ سے 150سے زائد زندہ انسانوں کو لاشوں میں تبدیل کرنے کا سبب بن جانے والے این بیرین سنگھ کو مسند حکمرانی سے اتارنے کے کوئی آثار نظر نہیںآرہے ہیں۔
گورو گوگوئی نے دوران بحث معروف جرمن فلاسفر، دانشور مارٹن لوتھر کنگ کا حوالہ دیتے ہوئے بجاکہا کہ اگر کہیں بھی ناانصافی ہوتی ہے تو وہ ہر جگہ انصاف کیلئے خطرہ بن سکتی ہے۔ اگر منی پور جل رہا ہے توسمجھئے ہندوستان جل رہا ہے۔ اگر منی پور تقسیم ہوتا ہے تو ہندوستان تقسیم ہوتا ہے۔ وہ صرف منی پور کی بات نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی بات کر رہے ہیں ۔کیوں کہ یہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے آج ہندوستان میں صرف منی پور نہیں جل رہاہے۔ہر طرف ناانصافی، ظلم اور بربریت کا دور دورہ ہے۔سفر تک میں لوگ محفوظ نہیںرہ گئے ہیں۔ منی پورکی طرح ہریانہ کے میوات اور نوح میں بھی شر پسندعناصر ننگا ناچ کررہے ہیں، اقلیتوں کے جان و مال سنگین خطرات سے دوچار ہیں۔ انتظامیہ بھی اقلیت دشمنی میں اندھی ہوچکی ہے۔ فساد متاثرین کے گھروں کو ہی مسمار کیا جا رہا ہے۔حکومت خاموش رہ کر فسادیوں کی حوصلہ افزائی کررہی ہے۔
کٹتی گردن اور لٹتی حرمت پر وزیر اعظم کی خاموشی انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف یہ تحریک عدم اعتماد ایوان میں نمبر دکھانے اور دیکھنے کیلئے نہیںبلکہ انصاف کیلئے ہے۔ وزیراعظم کی خاموشی نے حزب اختلاف کو مجبور کردیا تھاکہ وہ ایوان میں انہیں بلانے کیلئے تحریک عدم اعتماد کا سہارا لے۔بحث کے دوران گوگوئی نے جو سوالات اٹھائے ہیں، ان کا جواب دینا وزیراعظم کی آئینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔یہ وزیراعظم کی رہبری کابھی سوال ہے جس کا جواب بعنوان شائستہ ہونا چاہیے ۔ اسے ادھر اُدھر کی بات میں، لیت و لعل، نکتہ آفرینی،سیاسی پینترے بازی اوراُس کی ٹوپی اس کے سر رکھ کر ٹالا نہیں جاسکتا ہے اور نہ ہی بی جے پی کے نامہ اعمال کی اس سیاہی کو ’نہرو‘ کے نام کیاجاسکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS