مولانامحمدطارق نعمان گڑنگی
یتیم بچے بھی معاشرہ کا ایسے ہی حصہ ہیں جیسے عام بچے ،انہیں بھی دنیا میں جینے ،تعلیم حاصل کرنے اور معاشرہ میں نمایاں مقام حاصل کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ دیگر بچوں کا حق ہے۔ لیکن نہ ان کے قریبی رشتہ دار اس جانب توجہ کرتے ہیں نہ حقوق انسانی کی پاسداری کا دم بھرنے والے نام نہاد اور سماجی کارکن ۔ اگر چہ یہ لوگ وقتی طور پر ان سے ہمدردی جتاتے ہیں اور ان کے لئے تسلی کے کلمات دہراتے ہیں مگر کوئی ان کی مکمل دیکھ ریکھ ،کفالت اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری لینا نہیں چاہتا ۔ لوگ اس کو اپنے اوپر بوجھ سمجھ کر اس سے کتراتے ہیں۔
اگرہم اسلامی تعلیمات کو دیکھیں جس کی بنیاد ایثار ، قربانی، شفقت و محبت اور حقوق کی پاس داری پرہے تو معلوم ہوگا کہ اسلام انسانوں کو حرص و ہوس، بخل اور مال کا لالچ جیسی بیماریوں سے نکال کر ان میں انفاق کا جذبہ پیداکرتا ہے اور یتیم و نادار اور لاوارث بچوں کی کفالت پر ابھارتا ہے۔ اس نے اس ذمہ داری کی انجام دہی اور اس معاشرتی حق کی ادائیگی کے لئے کئی راستے نکالے ہیںاور ناحق طریقہ سے یتیموں کا مال ہڑپ کر لینے والوں کو سخت تنبیہ کی ہے،تاکہ ان بے سہارا بچوں کو سہارا مل سکے اور ان کا مال ضائع نہ ہو۔ یتیموں کی کفالت اور ان کے ساتھ ہمدردی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ قرآن کریم میں کئی مقامات پر یتیموں کا تذکرہ کیا گیا ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیاگیا ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔
پوچھتے ہیں : یتیموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ کہو ۔! جس طرزِ عمل میں ان کے لئے بھلائی ہو ، وہی اختیار کرنا بہتر ہے۔ اگر تم اپنا اور ان کا خرچ اور رہنا سہنا مشترک رکھو ،تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ آخر وہ تمہارے بھائی بند ہی تو ہیں۔ برائی کرنے والے اور بھلائی کرنے والے ، دونوں کا حال اللہ پر روشن ہے۔ اللہ چاہتا تو اس معاملے میں تم پر سختی کرتا ، مگر وہ صاحبِ اختیار ہونے کے ساتھ صاحبِ حکمت بھی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرمودات کے ذریعہ بھی اور اپنے عمل سے بھی واضح کردیا ہے کہ یتیم معاشرے میں اپنا ایک مقام و مرتبہ رکھتے ہیں ان کا خیال رکھنا معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے ۔دل کی قساوت اگر کسی چیز سے دور ہوتی ہے تو یتیموں کے سر پہ دست شفقت رکھنے سے ہوتی ہے ۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دل کی سختی وقساوت کی شکایت کی تو رسول اللہ نے اسے حکم دیا کہ یتیم کے سر پر شفت ومحبت کا ہاتھ پھیرے، غریبوں وناداروں کو کھانا کھلائے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ہرگز نہیںبلکہ تم لوگ نہ تو یتیم کے ساتھ عزت کا سلوک کرتے ہو،اور نہ ہی مسکین کو کھانا کھلانے کے ترغیب دیتے ہو۔(سورۃ الفجر)
بہترین اوربدترین گھر: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے عمدہ وبہتر اور نہایت بابرکت گھر اسے قرار دیا ہے جس گھر کے اندر کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ نہایت اچھا برتائو کیا جاتا ہو۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں میں سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ نیک سلوک کیا جاتا ہو اور سب سے بدترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو(۔ابن ماجہ،سنن ابی دائود)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ نہایت بدتر وبدبخت انسان وہ ہے جو یتیموں کے ساتھ براسلوک کرے اور اس کے ساتھ نامناسب اور دل توڑنے والا برتائو کرے۔ اللہ کے نبی کی یہ اور اس طرح کی تعلیمات اسی لئے ہیں کہ یتیموں کے اولیاء ان کی کفالت کرنے والے اور مصیبت زدہ یتیموں پر مشتمل خاندان والے بد دل وشکستہ خاطر نہ ہوں اور ان کے وجود سے الجھن وپریشانی محسوس نہ کریں بلکہ لوگ اسے آپس میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کا ذریعہ بنائیں اور بڑھ چڑھ کر ان کی مدد کریں ،سہارا بننے اور خبر گیری کرنے میں لوگ آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔
یتیم کی کفالت،جنت کی ضمانت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیموں سے متعلق تعلیمات سے ہمیں بہرہ ور کرکے یہ بتایا ہے کہ یتیم سماج میں خیرو برکت اور سعادت وخوش بختی کا ذریعہ ہیں، وہ بوجھ نہیں۔ یہی نہیں بلکہ اللہ کے نبی نے یتیموں کی کفالت کرنے والوں کو یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ وہ جنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور بالکل قریب ہوںگے۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا شخص جنت میں اِس طرح ہوں گے۔ اور(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے)اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں کے درمیان کچھ فاصلہ رکھا۔(بخاری شریف)حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا مقصد صرف اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنا تھا تو اس کے لئے ہر اس بال کے بدلے نیکیاں ہیں، جس بال کو اس کا ہاتھ لگا تھا۔ جس نے اپنی زیر کفالت کسی یتیم بچی یابچے کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو وہ اور میں جنت میں اِس طرح ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی میں تھوڑا سا فاصلہ رکھا۔(مسند احمدبن حنبل)
تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یتیموں کے ساتھ بے پناہ ہمدردی کرتے تھے، شفقت ومحبت کا برتائو کرتے تھے، ان کی خبر گیری کرتے تھے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید وتلقین کرتے رہتے تھے۔ سماج کے پچھڑے ہوئے طبقے اور کمزور لوگ بطور خاص نبی کریم کے پاس یتیموں کو لے کر آتے تھے تاکہ انہیں دیکھ کر رسول اللہ ان کے لئے بھی دعا کریں اور ان کے ساتھ ہمدردی کا سلوک کریں۔لوگ جانتے تھے کہ رسول اللہ یتیموں کو کتنا چاہتے ہیں اور ان سے کس قدر ہمدردی رکھتے ہیں تو گویا لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمدردی حاصل کرنے اور انس ومحبت پانے کے لئے یتیموں کا سہارا لیتے تھے۔
یتیم کون ہے ؟یتیم وہی ہوتا ہے جو اپنی طفولت وبچپن میں اپنے والدین میں سے کسی ایک کو کھو چکا ہو۔اس کا بچپن اسے کھیل کود، الفت ومحبت اور پیار ولگائو کے لئے مجبور کرتا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ اس کا کوئی ہمدرد ہو جو اسکے ساتھ پیار بھرا سلوک کرے، اس کی دلجوئی کرے ، ماں باپ اس کی اس خواہش اور فطری داعیے کو پورا کرتے ہیں ،مگر باپ جو اس کا سہارا تھا، اس کی کفالت کرتا اس کی دلجوئی کرتا اور اس کے لاڈ پیار کو سہتا اور اس کی خواہش پوری کرنے میں اپنی بساط کے مطابق کوشش کرتا۔
جو یتیموں کی کفالت کرتے ہیں،اللہ رب العزت نے ایسے لوگوں کیلئے بھر پور اجر وثواب کا وعدہ کیا ہے اور ان کے ساتھ بہتر سلوک کرنے پر جنت کا وعدہ کیا ہے۔
اب جبکہ اس کے سر سے اس کا سایہ اٹھ چکا ہے ، وہ اس پیارو محبت اورشفقت ورحمت کے لئے ترستا رہتا ہے اور جب کوئی شخص اسے باپ سا پیار دیتا ہے ، باپ کی طرح لطف وکرم کا معاملہ کرتاہے ، محبت بھری نگاہ اس پر ڈالتاہے اور بڑے پیار وشفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتا ہے تو بچہ اس سے مانوس ہوجاتا ہے اور باپ کے کھونے کا غم ہلکا ہو جاتا ہے۔وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے باپ کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی اسے پوچھنے والا کوئی ہے جو اس کے ساتھ ہمدردی و دلجوئی کرسکتاہے ، اس کے غم کو ہلکا کرسکتاہے ، اس کے درد کو محسوس کرسکتاہے اور اس کے خواہشات وجذبات کو سمجھ سکتا ہے۔باپ کے ساتھ وہ کھیلتا کودتا ، گھومتا ، پھرتا، تفریح کرتا اور لاڈ وپیار کرتا تھا، من چاہی چیزیں طلب کرتا اور نہ ملنے پر ضد کرتا تھااور باپ اسکے سارے لاڈ وپیار کو شوق وجذبے کیساتھ سہتا تھا، مگر اچانک باپ کے وفات پا جانے کے بعد اس کی زندگی تبدیل ہوجاتی ہے، وہ آسمان کی بلندیوں پر پرواز کررہا تھا، اور اچانک زمین پر گر جاتا ہے ، وہ اپنے سامنے دنیا کو تاریک پاتا ہے، وہ دوسرے بچوں کو جب اپنے ماں باپ کے ساتھ اٹکھیلیاں کرتے دیکھتا ہے تو اس کا دل تڑپ اٹھتا ہے، اسے اپنا ماضی یاد آنے لگتاہے اور پرانی باتیں اسے ستانے لگتی ہیں، مگر اس حال میں جب کوئی اسے غمگسار مل جاتا ہے جو باپ جیسی محبت تو نہیں دے سکتا مگر اس کا متبادل بن سکتا ہے تو اسی کو وہ بچہ اپنے لئے بڑا سہارا سمجھتا ہے ، اسی لئے اسلام نے یتیموں کی خبر گیری وہمدردی پر بڑی توجہ دلائی ہے اور اس کے لئے مختلف انداز وپیرہن میں ابھارا ہے۔جو یتیموں کی کفالت کرتے ہیں، ان کے لئے بھر پور اجر وثواب کا وعدہ کیا ہے اور ان کے ساتھ بہتر سلوک کرنے پر جنت کا وعدہ کیا ہے۔
یتیموں کے آنسوئوںکو پونچھیں: اسلامی معاشرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مسلمان کو یتیم کیلئے مشفق باپ قرار دیا ہے۔ا سلام نے ان ہدایات کے ذریعہ خیر کے دائرے کو وسیع کردیا ہے تاکہ ہر امیرو غریب اس میدان میں داخل ہو کر زیادہ سے زیادہ بھلائی کے عمل سے مستفید ہوسکے۔اسلام نے ہر مفید و نافع عمل کو صدقہ قرار دیا ہے اس پر اجر وثواب رکھے ہیں۔ اس طرح مالدار انفاق کے ذریعہ اجر حاصل کرتاہے اور جو مالدار نہیں وہ بھلی باتوں ، میٹھی گفتگو اور ہمدردی کے جذبات کا اظہار کرکے اجر حاصل کرتا ہے۔ اللہ کے نبی نے ہر بھلی بات اورنیک کام کو صدقہ قرار دیا ہے۔ا س طرح اسلام نے سماج کی تعمیر اس کی خدمات اور اس کو بہتر بنانے میں ہر ایک کو شریک ہونے کا موقع فراہم کیا ہے ۔ اس وقت جبکہ مسلمان رمضان کی خیر وبرکت سے مستفید ہونے والے ہیں انہیں چاہیے کہ اس کی برکات سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی کوشش کریں، عمل خیر میں حصہ لیں، اور تعاون ودستگیری میں بڑھ چڑھ کر ہاتھ بٹائیں، یتیموں کے آنسوئوں کوپونچھیں، ان کے سر پر دست شفقت رکھ کر ان کے غم کو ہلکا کریں۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سخاوت والا ہاتھ جو اللہ کے دیئے ہوئے مال ہی میں سے اللہ کے راستہ میں خرچ کرتا ہے، ان کا یہ عمل اس میٹھے پانی کی طرح ہے جو مردار زمین کو سیراب کرنے کے بعد اسے نئی زندگی عطا کرتا ہے ، پھر وہ زمین لہلہا اٹھتی ہے اور بیل بوٹے اور پودے ودرخت اگا کر انسانوں اور جانوروں کو اپنے ثمرات سے مستفید کرتی ہے۔
قارئین کرام ۔۔!ضرورت اس بات کی ہے کہہم سب کھلے دل سے یتیم وبے سہارا افراد کیلئے اپنا دست تعاون دراز کریں ، ہمدردی کے جذبات سے سرشار ہو کر یتیموں، بیکسوں کا سہارا بنیں اور سال میں صرف ایک دن نہیں بلکہ ہر روز اور ہر لمحہ انہیں یاد رکھیں اور ان کی تعلیمی ، معاشی اورہر میدان میں بہتری کی فکر کریں تاکہ ان یتیموں کو اپنے شفیق باپ کی عدم موجودگی کا احساس نہ ستائے، اور وہ اپنے مسلم معاشرے میں خود کو تنہا وبے سہارا محسوس نہ کریں۔موجودہ دور میں مادہ پرستی کے غلبے نے یتیموں کی پرورش کو نہ صرف مشکل بنا دیا ہے بلکہ اب اس کے بارے میں لوگ سوچنا بھی نہیں چاہتے۔ اس طرح یتیم اور نادار بچوں کی زندگیاں بے سرپرست تباہ ہوجاتی ہیں، پھر وہی بچے معاشرے کے لئے ناسور بن جاتے ہیں۔مذکورہ بالا ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملحوظ خاطررکھتے ہوئے اگر کوئی شخص یتیم کی کفالت کرے اور اس کی بہترین پرورش کرے تو وہ یقینا جنت کا مستحق ہوگا جہاں اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت نصیب ہوگی اور یہ بچے اچھی پرورش کے نتیجے میںمعاشرہ میں نمایاں مقام حاصل کریں گے، جس سے معاشرہ پرامن اور خوشحال ہوگا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں یتیموں کی کفالت کے لیے قبو ل فرمائے اور ان کادست وبازو بنائے (آمین یارب العالمین بحرمۃ سیدالانبیاء والمرسلین)