ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور بقول شخصے جمہوریت اس کے ڈی این اے میں شامل ہے لیکن آج ہندوستان میںجمہوریت اپنے حال پر ماتم کناں ہے۔ بدعنوانی اور سیاست میں خاندان کاتسلط ختم کرنے کے نام پر ملک سے جمہوریت کو ہی ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی شبیہ بھی دھیرے دھیرے ایک ایسے خودمختار سربراہ مملکت کی بن چکی ہے جسے تنقید بالکل ہی گوارانہیں ہے ۔ اختلاف سے تو ان کی نفرت جگ ظاہر ہے ۔ حکومت پرتنقید کرنے والے حزب اختلاف کے رہنما،صحافی، دانشوراور سماجی تنظیموں کے لوگ یا تو قانونی کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں یا پھر انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔جمہوریت کے ستون ایک ایک کر کے کمزور کئے جارہے ہیں۔ ’کانگریس مکت بھارت‘ سے ہوتے ہوئے اب ’ اپوزیشن مکت بھارت‘ کا تصور لوگوں کو دیا جا رہا ہے۔ اس تصور کو مقبول بنانے میں حکمرانوں کو کتنی کامیابی ہوگی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر ابھی جو منظر نامہ ہے اسے ہندوستان کی جمہوریت کیلئے نیک فال نہیں کہاجاسکتا ہے ۔
وزیراعظم حزب اختلاف کے اتحاد کو برداشت کرنے کیلئے قطعی تیار نہیں ہیں اور جب سے حزب اختلاف نے اپنے اتحاد کا نام INDIAرکھا ہے، بھارتیہ جنتاپارٹی کااضطراب ، بے چینی اور بے کلی بڑھ گئی ہے ۔ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ حزب اختلاف وزیراعظم کے اعصاب پر سوارہے اور وہ عالم رویا میں بھی ’انڈیا‘ کو پٹخنیاںدے رہے ہیں۔ ان کی ہر تقریر اور ہر جلسہ میں آتش بیانی کا سارازور انڈیا پرہی صرف ہورہاہے ۔ حزب اختلاف سے نفرت میں اس حد تک آگے چلے گئے ہیں کہ انہیں احساس ہی نہیں ہو رہاہے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم نے انڈیا کا موازنہ ایسٹ انڈیا کمپنی سے کردیاتھا تو آج اپنا سارا زور بیان اس امر صرف کرگئے کہ انڈیاکالیبل لگاکر حزب اختلاف غیرملکیوں کو مداخلت کی راہ دے رہا ہے ۔ راجستھان کے سیکر میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم مودی نے کہاکہ انڈیا کے لیبل سے وہ اپنی پرانی کرتوتوں یعنی یو پی اے کے وقت کے کارناموں کو چھپانا چاہتے ہیں۔اگر وہ واقعی ہندوستان کی پروا کرتے تو کیا وہ غیر ملکیوں کو ہندوستان میں مداخلت کرنے کو کہتے؟ وزیراعظم نے مجموعی طور تمام حزب اختلاف کو تنقید کا نشانہ تو بنایاہی مگر کانگریس پر ان کی ’ نظر عنایت‘ کچھ زیادہ ہی رہی۔ اپنی تقریرمیں انہوں نے نام لے کر کہا کہ کانگریس ایک بے سمت پارٹی بن گئی ہے۔ کانگریس اور اس کے اتحادیوں نے ماضی کی فراڈ کمپنیوں کی طرح اپنا نام بدل لیا ہے۔ خود ہی نام بدلنے کا جواز فراہم کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ انہوں نے نام اس لئے بدلا ہے تاکہ وہ دہشت گردی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا داغ مٹاسکیں۔ان کے طریقے ملک کے دشمنوں جیسے ہیں انڈیاکانام ان کی حب الوطنی ظاہر کرنے کیلئے نہیں ہے بلکہ یہ نام ملک کو لوٹنے کے ارادہ سے رکھاگیا ہے۔ اپنے سیاسی شعور اور بالغ نظری کا مہاتماگاندھی سے موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس طرح مہاتماگاندھی نے ملک کی آزادی کیلئے Quit India movement کا نعرہ دیاتھا اور انگریزوںکو ہندوستان چھوڑنا پڑا، اسی طرح انہوں نے ہندوستان کو خوشحال بنانے کاعزم کیا ہے اور ان کا نعرہ ہے انڈیاکرپشن چھوڑ و، اقربا پروری چھوڑو، تشٹی کرن چھوڑووغیرہ اور انڈیا کو یہ چھوڑنا پڑے گا۔اس سے پہلے بی جے پی کی پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ میں وزیر اعظم کی تقریر بھی ایسی ہی یاوہ گوئی سے مزین تھی ۔ ان کا ہر فقرہ، ہر جملہ ہی نہیں بلکہ ہر لفظ حزب اختلاف سے بھر پور نفرت کی ترجمانی کر رہا تھا۔حزب اختلاف سے نفرت کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اس کا نام ’انڈیا‘ اب جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسے برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں اوراس کا سلسلہ ایسٹ انڈیا کمپنی، انڈین مجاہدین اور پاپولر فرنٹ آف انڈیا سے جوڑرہے ہیں۔
نریندر مودی جی اپنے جوش بیان میں شاید یہ فراموش کرگئے ہیں انہوںنے آئین کے نام پر وزیراعظم کے عہدہ کا حلف لیا ہے جس کے پہلے ہی آرٹیکل میں درج ہے’’India, that is Bharat,…..‘‘ انڈیا یعنی بھارت …‘‘۔وہ اس ملک کے وزیراعظم ہیں جن کے آئینی اداروں کے نا م کا حصہ انڈیا ہے۔ خود ان کی حکومت نے کئی ایسے پروجیکٹ شروع کررکھے ہیں جن کے نام میں انڈیا شامل ہے جیسے میک ان انڈیا، ڈیجیٹل انڈیا، اسکل انڈیا، سوچھ انڈیا وغیرہ وغیرہ ۔پھر انہیں ’انڈیا‘ کے نام سے اتنی نفرت کیوں ہوگئی ہے کہ اس میں انہیں ملک دشمنی کے کیڑے نظرآنے لگے ہیں ۔ یا یہ صرف اس لئے ہے کہ حزب اختلاف نے اپنے اتحاد کا نام ’انڈیا‘ رکھ لیا ہے اوران کی قوم پرستی کی سیاست کو بھاری چیلنج کاسامناہے۔
[email protected]
’انڈیا ‘پر اضطراب کیوں؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS