ڈاکٹرریحان اختر
موجودہ قانونی اصطلاح میں پرسنل لاء کامطلب اس قانون سے ہوتاہے جس کاتعلق فرد،گروہ کے نجی ،ذاتی اور خانگی معاملات سے ہو۔یعنی آدمی کے وہ اعمال وتصرفات جن میں اس کے ذاتی اورشخصی عمل وارادہ کادخل ہواور ان کاتعلق جماعت وحکومت سے مطلق یابرائے نام نہ ہو۔وضاحت کے لئے کہاجاسکتا ہے کہ یہ فرد کے ایسے اختیاری کام ہوتے ہیں جس میں اس کی رائے اورعمل بالکل آزاد ہوتے ہیںاور ابتدائی دور سے اسے عملی جامہ پہناتے ہیں۔
حکومت یامعاشرہ کاتعلق ان معالات سے فرد کے ذاتی حرکت وعمل کے بعد ظاہر ہوتاہے اس لئے اسے شخصی کہاجاتاہے ورنہ ظاہر ہے کہ دنیا کے کسی فرد کاکام مطلق شخصی نہیں ہوتا ہے بلکہ کسی نہ کسی درجہ میں اس کاتعلق دوسرے افراد سے بھی ہوجاتاہے۔اس لئے یہ تفریق اکثری ہے کلی نہیں ہے۔کسی بھی مذہب وتہذیب کی روح ان کے پرسنل لاء میں مضمر ہوتی ہے۔ عائلی قوانین ہی میں قوموں کے عزائم وافکار،رسم وشعار ،عقائد وایمان کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے،کسی اورقوم کے یہاں عائلی قوانین کی یہ اہمیت ہویانہ ہومسلمانوں کے یہاں اس کی اہمیت وحیثیت مسلمہ حقیقت ہے۔یہ ان کے ایمان وعقیدہ کاجزو ہے۔انہیں کتاب وسنت پر وعمل کاحکم ہے اوریہ قوانین ان ہی دوماخذوں میں صراحتاً موجود ہیں۔ پرسنل لاء کااگر ایک طرف عقیدہ وایمان پردارومدار کا ہے تودوسری جانب امت مسلمہ کے معاشرتی وجود وبقاء کاانحصار بھی ان پرہی ہے۔گویایہ دودھاری تلوار ہے جسے اگرکسی قوم کے خلاف استعمال کیاجائے تو اس کے معنوی وجود کے ساتھ اس کے ظاہری اورسماجی وجود کوختم کرکے رکھ دے گا۔ سماجی نظام کی مستحکم بنیاد یہی پرسنل لاء اورفیملی لاز ہوتے ہیں۔فرد کی تعلیم وتربیت ،داشت وپرداخت ،افراد خاندان کے تعلق کی نوعیت گھرکااندرونی نظم وضبط ،خاندان کی تشکیل وتربیت،یعنی ایک چھوٹی سی دنیا کی داغ بیل ان ہی قوانین سے پڑتی ہے۔جوآگے چل کر ایک محلہ،ایک شہر،ایک قوم اورایک ملک بن جاتے ہیں۔
پرسنل لاء کی شرعی حیثیت اوراس کی دینی اہمیت ہندوستانی مسلمانوں کی ڈیڑھ سوسالہ تاریخ میں ہمیشہ مسلّم رہی ہے۔یہ دین وشریعت کالازمی اورلاینفک جزرہاہے جس کے بغیر مسلمانوں نے کبھی دین وقانون کاتصور ہی نہیں کیا۔یہ ایسا متفق علیہ ،مسلمہ حقیقت ہے جس میں شیعہ سنی اور کسی دبستان ِفقہ ،یاکسی ماہرقانون ِ اسلامی نے کوئی اختلاف رائے نہیں ظاہر کی۔اوراس کی یہ مسلمہ حیثیت اس لئے ہے کوینکہ وہ احادیث سے قطع نظر خود قرآن مجید میں تفصیلاً مذکور ہے اورجہاں یہ احکام آئے ہیں وہاں صراحتاً یہ بھی کہاگیا ہے کہ یہ اسلام کے بنیادی احکام ہیں۔یعنی یہ مستحب، مندوب اورمباح کے درجہ میںنہیں بلکہ ان کاشمار فرائض وواجبات میں ہے اوران سے عذاب وثواب کااللہ تعالیٰ کی رضا اور ناراضگی ،اورحدوداللہ میں رہنے نہ رہنے کاتعلق ہے جب پرسنل لاء کی یہ حیثیت متعین ہوجاتی ہے تواس کے معنی یہ ہیں کہ ان مسائل پرمسلمانوں کے مسلمان باقی رہنے کاسوال ہے۔اس لئے کہ ضروریاتِ دین کاانکار کفرہے۔
یہاں یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لینے کی ہے کہ پرنسل لاء کی حیثیت کاتعین یاکسی شرعی مسئلہ کی حیثیت اوراس کی درجہ بندی کااختیار اللہ کے سوااورکسی کونہیں ہے۔ نہ علماء اس کے مختار ہیں، نہ حکومت، نہ عوام،بلکہ قانون خداوندی خوداپنی حیثیت کاتعین کرتاہے۔ہندوستان یاسارے عالم کے مسلمان ان قوانین میں کسی بنیادی تبدیلی اورکسی ترمیم کے مجاز نہیں ہوسکتے۔ پرسنل لاء کی شرعی حیثیت کی صراحت قرآن ہی سے معلوم ہوسکتی ہے۔مسلمانوں کے نظام زندگی اورنصب العین کاتعین کتاب وسنت کے علاوہ کوئی چیز نہیں کرسکتی جودستور حیات مسلم معاشرہ میں نافذ ہے، وہی اپنے احکام کے بارے میں مستند تفصیلات دے سکتاہے۔ نکاح کا مسئلہ صرف معاشرتی اورروایتی مسئلہ ہی نہیں بلکہ دینی مسئلہ بھی ہے اس لئے کہ اس کی بنیاد رسومات پرنہیں بلکہ شرعی احکام پرہے۔نکاح کے بارے میں قرآن میں کہاگیاہے:’’ذلک حکم اللّٰہ علیکم‘‘ یہ اللہ کا تمہارے لئے فیصلہ ہے۔پھرکہاگیا ہے خلع وطلاق کے احکام جہاں دیئے گئے ہیں وہاں یہ یاددہانی اورتنبیہ بھی کردی گئی کہ یہ معمولی قانون نہیں ہیں بلکہ اللہ کے قائم کردہ حدود ہیں جن سے آگے بڑھنا جائز نہیں ’’تلک حدود اللّٰہ فلاتعتدوھا‘‘ عدت کاجہاں بیان ہوا ،وہیں یہ صراحت کردی گئی کہ یہ اللہ کاحکم وراثت کے تفصیلی احکام دیتے ہوئے اس کی حیثیت بھی بتادی گئی کہ یہ خدا کی طے تقسیم ہے:’’نصیباً مفروضا‘‘ اللہ کی وصیت ہے اللہ کامتعین کردہ فرض ہے۔وراثت کے احکام کے بعد یہ تہدیدی انداز بھی اختیار کیاگیاکہ اللہ ورسولؐ کی نافرمانی اوراس کے حدود کی پامالی جہنم کے دائمی اوررسواکن عذاب پرختم ہوگی۔طلاق کے اوامر جہاں آئے ہیں وہیں یہ تصریحات بھی آگئی ہیں کہ خداوآخرت پرایمان کاتقاضا ہے کہ ان احکام کی بجاآوری کی جائے اورایمان کے ساتھ اس کاذکر کرکے بتادیاگیاکہ اس کاتعلق صراحتاً دین ومذہب سے ہے۔اظہار کے قوانین جہاں بیان ہوئے ہیں وہاں بھی اس کاتعلق ایمان اور حدوداللہ سے قرار دے کرعذاب ِ علیم کی وعید سنائی گئی ہے۔ شریعت کے بارے میں مسلمانوں کے گہرے جذبات اورعقیدتمندانہ وابستگی کودیکھ کر اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ مسلمانوں نے شریعت کادامن کبھی نہیں چھوڑا،نہ اس میں خالص سیاسی اورعقلی دبائو سے ترمیم کی اجازت دی،کلامیات وعقائد میں ذات وصفات، جبرواختیار ،حدوث وقدم کی بحثیں ضرورملتی ہیں، لیکن جہاں تک نص کاتعلق ہے مسلمانوں نے نہ خوداس سے انحراف کی جرأت کی نہ دوسروں کواجازت دی۔
جب ہم اسلام کے سرچشموں اللہ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت پرنظر ڈالتے ہیں توہمیں چارحقیقتیں نمایاں طورسے دکھائی دیتی ہیں۔ایک تویہ کہ نجی زندگی کے جن معاملات سے تعلق رکھنے والے مسلم قوانین کومسلم پرسنل لاء کہا جاتاہے۔ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں قرآن وسنت نے کچھ نہ کچھ احکام نہ دے رکھے ہوں۔نکاح،مہر،طلاق،خلع،ایلا،عدت،ظہار،رضاعت،وراثت، وصیت اوروقف وغیرہ سبھی مسائل کے بارے میں صاف اورصریح ہدایات اورقوانین ان کے اندر موجود ہیں۔یہ اتنی واضح بات ہے کہ شاید ہی کوئی پڑھا لکھاآدمی اس سے ناواقف ہو۔اس لئے یہاں متعلقہ آیات واحادیث کے حوالے پیش کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔دوسری بات یہ کہ یہ قوانین،دین کے بنیادی اصول ومقاصد اور اقدار کے حامل ہیں،یعنی ان کے بارے میں حقیقت واقعہ صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ قرآن اور احادیث میں موجود ہیں،بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ اسلام کے بنیادی اصول اورمقاصد اخلاقی اقدار کامظہر ہیں۔تیسری بات یہ ہے کہ کتاب وسنت نے ان احکام وقوانین کے صرف بیان کردینے ہی پراکتفا نہیں کرلیا ہے، بلکہ جگہ جگہ یہ صراحت بھی کررکھی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پرعائد کئے ہوئے فریضے ہیں،ان پر ان کی پابندی لازم ہے،یہ اس کی وصیت یعنی تاکیدی احکام ہیں،یہ اس کی قائم کی ہوئی حدیں ہیں،جن کاپاس ولحاظ قطعی ضروری ہے۔ چوتھی اورآخری حقیقت کتاب وسنت کے نصوص ہیں جن کے احکام کی پیروی ایمان کاتقاضہ اوربندگی کالازمہ ہے،اوران کی خلاف ورزی ظلم ہے۔اسلام کے عائلی قوانین کے بارے میں یہ چاروں حقیقتیں دراصل حقیقتیں ہیں۔
ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی کی اپنے ایک مضمون’’یکساں سول کوڈ – ہمارے کرنے کے کام ‘‘ جو مندرجہ ذیل ہیں: لکھتے ہیں کہ حکومت کے ارادوں کو ناکام بنانے کے لیے ہمیں یہ تأثر ہرگز نہیں دینا چاہیے کہ ہم بہت پریشان ہیں ، یکساں سول کوڈ ہمارے خلاف ہے ، یہ ہمارے بنیادی حقوق کے خلاف ہے ، یا دستور میں ہم کو جوحقوق دیے گئے ہیں ، حکومت ہمیں ان سے محروم کر رہی ہے اور ایسے اقدامات کر رہی ہے جن سے مسلمان پریشان ہوںگے۔ چنانچہ ہمیں ردِعمل کے طور پر عوامی مظاہروں، جلوسوں اور پبلک مقامات پر بڑے بڑے جلسوں سے اجتناب کرنا چاہیے اور لاء کمیشن کو زیادہ سے زیادہ ایک میل کے ذریعے اپنا احتجاج اور مخالفت درج کرانی چاہیے۔ ہم کو ملک کے تمام شہریوں کے سامنے یہ بات کہنے کی ضرورت ہے کہ الٰہی قانون اور انسانی قانون میں فرق ہوتا ہے۔ مسلماں الہی قانون اور انسانی قانون میں فرق کرتے ہیں اور الٰہی قانون ہمارا عقیدہ ہے اور ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ انسانی قانون بدلے جاسکتے ہیں ، ان میں ریفارم کیا جا سکتا ہے ، لیکن الٰہی قانون میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ اسلام کے عائلی قوانین کے بارے میں لوگوں کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کریں۔ ہم یہ واضح کریں کہ اسلام کے جو عائلی قوانین ہیں ۔ وہ معقول ہیں۔ ہم مسلم سماج کی اندرونی اصلاح پر توجہ دیں۔ یکساں سول کوڈ کے خلاف مہم چلانے کے ساتھ ہمیں یہ مہم بھی چلانی چاہیے کہ مسلمانوں کے سماج میں جو کمزوریاں ہیں ، وہ دور ہوں اور ان میں یہ آمادگی پیدا ہو کہ وہ ہر حال میں اسلامی تعلیمات پر عمل کریں گے۔ چاہے جتنے سخت سے سخت قوانین بنا لیے جائیں۔ یکساں سول کوڈ کو اس طرح پیش کیاجارہا ہے جیسے یہ صرف مسلمانوں کے خلاف ہے ، اس کے نافذ ہونے سے صرف مسلمان متاثرہوں گے اور وہ اپنے دین کی تعلیمات پر عمل کرنے سے محروم ہوجائیں گے۔ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ قانون ملک کے دوسرے شہریوں کو بھی متاثر کرے گا۔
یکساں سول کوڈ ایک نظر میں: یورپ کے مختلف ملکوں کے قوانین کے ساتھ ایک نظر کامن سول کوڈ پربھی ڈال لی جائے۔جوہندوستانی آئین کے رہنما اصولوں میں جگہ پاچکا ہے۔بھارت کاآئین حصہ 4مملکت کی حکمت ِ عملی کے ہدایتی اصول کے عنوان کے تحت دفعہ44میں کہاگیا ہے کہ ’’مملکت یہ کوشش کرے گی کہ بھارت کے پورے علاقہ میں شہریوں کے لئے یکساں مجموعہ قانون دیوانی کی ضمانت ہو‘‘۔اس یکساں قانون دیوانی کے بظاہر چارنشانے ہوں گے ا یک نسل ِ انسانی کی بقا(مگراقتصادی خوش حالی کی خاطر کثرت آبادی پرکنٹرول کے ساتھ)دوم ایک متحدقوم اورمتحدہ وطنی قومیت کی تشکیل۔ سوم معاشرتی معاملات میں ہرمرد اورہرعورت کی مکمل اورمساوی آزادی۔ چہارم معاشرتی معاملات سے مذہب کی بے دخلی۔ یہ یکساں قانون اپنے اصول اورمقاصد دونوں میں اسلامی قانون سے بالکل مختلف بلکہ متضاد ہوگا۔ ڈاکٹر کمال اشرف قاسمی اپنی کتاب ’’ مسلم پرسنل لاء افادیت و معنویت اور تاریخی حقائق ‘‘ صفحہ 82-81-80 پر اس تعلق سے لکھتے ہیں۔
مثلاً اسلامی قانون کہتاہے کہ نکاح ان معاملات میں سے ہے جودین وشریعت کے دائرہ بحث میں شامل ہے اوراسی لئے یہ فعل عبادت بھی ہے۔ کامن سول کوڈ کہتا ہے کہ نکاح کامعاملہ خالص دنیوی اورتمدنی معاملہ ہے اس کامذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسلامی قانون کہتاہے کہ نکاح کے جائز ہونے کے لئے دین کی شرط لازم ہے۔کامن سول کوڈکہتاہے کہ جواز نکاح کے لئے ہمارے لیے دین کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان بالاتامل شادی ہوسکتی ہے۔ اسلامی قانون کہتاہے کہ لڑکیوں اورعورتوں کے نکاح کے معاملہ میں ان کے سرپرستوں کو بھی ایک حد تک دخل حاصل ہے۔ کامن سول کوڈ کہتا ہے کہ لڑکیوں اورعورتوں کے نکاح کے معاملہ میں ان کے سرپرستوں کومداخلت کاکوئی حق حاصل نہیں ہے۔وہ بھی مردوں کی طرح اپنے نکاح کے معاملے میں آزاد اورخود مختار ہیں۔ اسلامی قانون :-بعض اہم چیزوں خصوصاً دین وتقویٰ کے معاملے میں مرد کوعورت کاکفو اورہمسر ہوناچاہئے۔ کامن سول کوڈ میں کفوت اورہمسری کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اسلامی قانون:-اگرچہ عام معمول یہی ہونا چاہئے کہ شادیاں بلوغ کے بعد کی جائیں، مگر نابالغی میں بھی نکاح کی اجازت ہے۔ کامن سول کوڈ میںبلوغ ہی نہیں ،قانون بلوغ سے پہلے نکاح خلاف ِ قانون ہے۔ اسلامی قانون:نکاح کے صحیح ہونے کے لئے کم ازکم دومسلمان گواہوں کی موجودگی ضروری ہے۔ کامن سول کوڈ میں نکاح کے صحیح اورقانونی طورپر جائز ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ مرد اورعورت میرج آفیسر کے دفتر میں جاکر شادی کا اندراج کرادیں۔ڈاکٹر کمال اشرف آگے لکھتے ہیںکہ اسلامی قانون اورکامن سول کوڈ کے اصول ومقاصد پرایک سرسری نظرڈال کرہی سمجھا جاسکتاہے کہ اسلامی قانون کس قسم کا معاشرہ تشکیل دیناچاہتاہے اورکامن سول کوڈ کس قسم کامعاشرہ تیار کرے گا۔ اسلامی قانون ایسامعاشرہ بناتاہے جوبنیادی اکائی سے لے کر اوپر کے وسیع خاندان تک ایک زنجیر کی کڑیوں کی طرح آپس میں جڑا ہواہو،ایک ایساپاکیزہ معاشرہ جس کے اندر جنسی بے راہ روی کے امکانات کم سے کم ہوں۔ ایسا آزاد اورمنضبط معاشرہ جس میں اپنے نکاح کے معاملہ میں افراد کی آزادی اورخودمختاری کے احترام کے ساتھ اہم تردینی اخلاقی معاشرتی اورخاندانی مصلحتوں کی پابندی بھی ہے۔ اس معاشرہ کے افراد آپس کے حقوق،اندرونی داعیہ اورمذہبی ذمہ داری کے ساتھ اداکریں نہ صرف قانون کامطالبہ سمجھ کر۔ کیاکامن سول کوڈ ان اہم معاشرتی تقاضوں کوپورا کرسکے گا،بلکہ کیاوہ خود اپنے مقررکردہ نشانے بھی حاصل کرسکے گا؟
[email protected]
مسلم پرسنل لا کا دائرہ کار اور اہمیت:ڈاکٹر ریحان اختر
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS