عطاء رب سبحاں حضرت فاروق اعظم ہیں

0

تحریر:- محمد تحسین رضا نوری شیرپور کلاں پورن پور پیلی بھیت

جن خوش نصیبوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ایمان کی حالت میں دیکھا اور ایمان ہی پر انکا خاتمہ ہوا ان خوش نصیبوں کو صحابی کہتے ہیں، کوئی غیر صحابی زندگی بھر شب و روز عبادت، ریاضت اور مجاہدہ میں گزارنے کے بعد بھی کسی صحابی کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا، یہ وہی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہیں جن کے تعلق سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے “اصحابی کالنجوم” کا مژدہ سنایا، اور جن کے تعلق سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کی کہاوت (مثال) ایسی ہے جیسے کھانے میں نمک، کھانا بغیر نمک کے کسی قابل نہیں ہوتا۔
انہیں جگمگاتے ستاروں میں ایک روشن ستارے کا نام “خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ” ہے، امام العادلیں، غیظ المنافقین، مراد مصطفیٰ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُس عظیم ہستی کا نام ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چنا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے آپ کو ایمان کی دولت عطا فرمائی۔ اور آپ کے ایمان قبول کر لینے کے بعد خانہ کعبہ میں پہلی مرتبہ کھل کر نماز ادا کی گئی، حضرت عمر کا اسلام لانا مسلمانوں کے لیے عزت کا سبب بن گیا،
شیخین کریمیں (حضرت سیدنا ابوبکر صدیق، اور حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کے افضل الخلق بعد الرسل ہونے پر سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد رسالت ہی سے جملہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اور اُن کے بعد جملہ تابعین و تبع تابعین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا اجماع چلا آ رہا ہے، حضرت امام بخاری اپنی “صحیح” میں اور ابن ماجہ “سنن” میں بطریق عبد اللہ بن سلمہ امیر المومنین سے راوی، وہ فرماتے ہیں: “خیر الناس بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ابو بکر و خیر الناس بعد ابی بکر عمر”
ترجمہ: لوگوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہتر حضرت ابو بکر صدیق ہیں، اور حضرت ابو بکر صدیق کے بعد لوگوں میں سب سے افضل حضرت عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) ہیں (ابن ماجہ)
اور امام دار قطنی “سنن” میں اور ابو عمر بن عبد البر ” حکم بن جل سے روای حضرت مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں: “لااجد احدا فضلنی علی ابی بکر و عمر الا جلدتہ حد المفتری” میں جسے پاؤں گا کہ مجھے حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے افضل کہتا ہے میں اسے مفتری کی حد لگاؤں گا۔ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں “یہ حدیث صحیح ہے” (افضلیت صدیق اکبر و فاروق اعظم)

عظمت فاروق اعظم احادیث کی روشنی میں: حدیث شریف میں ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، (اے عمر) جب بھی شیطان تم کو کسی راستے پر چلتے ہوئے دیکھتا ہے، تو آپکی ہیبت کی وجہ سے بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے (بُخاری شریف)
یہ ایسی ہیبت و جلال رب تعالیٰ نے حضرت عمر کو عطا فرمایا کہ فساق و فجار تو دور خود شیطان ملعون بھی آپ کو دیکھ کر اپنا راستہ بدل لیتا تھا، خود امام اہل سنت اعلیٰ حضرت ایک حدیث کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں: شیطان اس جناب کے سائے سے بھاگتا، اور جب چہرہ اقدس پر نظر پڑتی تازیانہ جلال فاروقی کی تاب نہ لا کر منہ کے بل گر پڑتا (مطلع القمرین)

گلی سے اُن کی شیطاں دم دبا کر بھاگ جاتا ہے
ہے ایسا رعب ایسا دبدبہ فاروق اعظم کا

حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں: کہ جب حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام قبول کیا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: یا محمد ﷺ بیشک آسمان والے فرشتے حضرت عمر کے اسلام لانے پر خوش ہیں (ابن ماجہ)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (ابھی) ایک جنتی مرد تمہارے پاس آئے گا، تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آ گئے۔ پھر آپنے ارشاد فرمایا: “یطلع علیکم رجل من اھل جنہ” ایک جنتی شخص تمہارے پاس آئے گا، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آ گئے (ترمذی)
ایک اور مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “لو کان بعدی نبی لکان عمر بن الخطاب” اگر میں بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔
یعنی آپکی فطرت اتنی کاملہ تھی اگر دروازہ نبوت بند نہ ہوتا تو محض فضل الٰہی سے وہ نبی ہو سکتے تھے کہ اپنی ذات کے اعتبار سے نبوت کا کوئی مستحق نہیں (فتاویٰ رضویہ)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مدینے کے دونوں کناروں کے درمیان عمر سے بہتر کوئی مرد نہیں ہے (فضائل الصحابۃ لامام احمد بن حنبل)

حضرت عمر کا عشق رسول: ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ تھاما ہوا تھا، کہ آپ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض گزار ہوئے، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: اللہ تعالیٰ کی قسم! آپ مجھے میری جان کے علاوہ باقی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اُس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں، تب حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: اللہ پاک کی قسم! اب آپ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ پھر آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے عمر اب تمہارا ایمان مکمل ہوا ،،( مسند احمد)
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی تشریح میں ارشاد فرمایا: اقول: (میں کہتا ہوں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تنبیہ نے امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طبیعت پر ایسا غلبہ کیا، کہ اختیاری محبت کے انتہائی جوش نے طبعی محبت کو دبا لیا بلکہ فنا کر دیا، اور طبعی طور پر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپکی جان سے زیادہ محبوب ہو گئے (حاشیہ اذاقۃ الآثام)

حضرت فاروق اعظم کا علم: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ میں سو رہا تھا تو مجھے دودھ کا پیالہ دیا گیا، تو میں نے اتنا پیا کہ میں نے آسودگی (سیری) کو اپنے ناخنوں سے نکلتے ہوئے دیکھنے لگا، پھر میں نے اپنا بچا ہوا دودھ عمر بن خطاب کو دیا، لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس خواب کی آپنے کیا تعبیر فرمائی ؟ ارشاد فرمایا: علم (بُخاری شریف)
یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عطا کیا ہوا تبرک ہے، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطا فرمایا…

حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت: جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد قباء کی تعمیر فرمائی، تو سب سے پہلا پتھر رکھنے کے بعد ارشاد فرمایا: اب ابو بکر ایک پتھر میرے رکھے ہوئے پتھر کے قریب رکھیں، پھر ارشاد فرمایا کہ اب عمر ایک پتھر ابو بکر کے رکھے ہوئے پتھر کے قریب رکھیں، پھر فرمایا: اب عثمان ایک پتھر عمر کے رکھے ہوئے پتھر کے قریب رکھیں، پھر فرمایا: یہی میرے بعد خلفاء ہوں گے (تاریخ ابن عساکر، جلد ۳۰)
حضرت عمر فاروق اعظم کی خلافت پر جملہ صحابہ کرام کا اجماع ہے، جس کو محدثین نے تفصیلاً ذکر کیا ہے، آپکے دور خلافت میں آپکو بہت سی جنگوں میں بہت سی فتوحات حاصل ہوئیں، چاہیں ایک چھوٹا سا گھر ہو یا بہت بڑی ریاست، اُس کے عدل و انصاف کا قیام اور ظلم و زیادتی کی روک تھام ناگزیر ہے، حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت کے ابتدائی ایام میں ہی اس بات کی وضاحت فرما دی، کہ اگر میری ذات کے اندر آپ حضرات سختی محسوس کرتے ہیں تو قطعا اس کی طرف توجہ کرنے کی حاجت نہیں، کیوں کہ جو شخص شریعت کی پاسداری کریگا میری یہی سختی اُس کے لیے خالص نرمی اور مہربانی میں تبدیل ہو جائے گی، اور عدل و انصاف تو ظالم کے لئے بھی ہے، البتہ جس نے ظلم و زیادتی کی اُسے سخت سزا ملے گی نیز ذلت و رسوائی اُس کا مقدر ہوگی۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ 13 ہجری میں مسندِ خلافت پر جلوہ فرما ہوئے اور دس سال چھ ماہ تک فائز رہے۔
آپ کا وصال: تاریخ عالم کے اس عظیم حکمران کی پوری زندگی عزت و شرافت اور عظمت کے کارناموں کی اعلیٰ مثال تھی، 26 ذی الحجۃ الحرام کی صبح ایک مجوسی غلام ابو لؤلؤ فیروز نے آپ پر فجر کی نماز کے دوران قاتلانہ حملہ کیا اور شدید زخمی کردیا، یکم محرَّم الحرام 24 ہجری روضۂ رسول میں خلیفۂ اوّل حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
اللہ تعالی ہم سب کو حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا حکمران عطا فرمائے اور ہم سب کو اُن کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین ﷺ

✍🏻 محمد تحسین رضا نوری شیرپور کلاں پورن پور پیلی بھیت

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS