نئے اپوزیشن محاذ کے مخفف پر کہیں خوشی کہیں غم: عبدالسلام عاصم

0

عبدالسلام عاصم

بنگلورو میں رواں ہفتے کے شروع میں 2024 کے عام انتخابات کا بہ انداز دیگر اُس وقت اعلان ہو گیا جب بی جے پی کی قیادت والے قومی جمہوری محاذ(این ڈی آے)کا مل کر مقابلہ کرنے کیلئے ملک کی 26 اپوزیشن پارٹیوں نے ہندوستانی قومی ترقیاتی ہمہ جہت محاذ(آئی این ڈی آئی اے)کی تشکیل کا اعلان کر دیا۔ اپوزیشن کے محاذ کا مخفف اپنے آپ میں فل فورم ہے یعنی اس مخفف کو صاف ’انڈیا‘ پڑھا جا سکتا ہے۔ اس مخفف کے حوالے سے حکمراں اور متحدہ اپوزیشن کی حمایت میں جارحانہ طور پر بٹے حلقوں کی طرف سے بالترتیب خوشی اور غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ میڈیا رات دن اس کی ترجمانی میں لگی ہے۔ سوشل میڈیا نے تو جیسے اس سلسلے کو پر لگا دیا ہے۔
نئے محاذ کی بطور’ انڈیا‘ شناخت سے ناراض حلقے ممکنہ نقصان سے بچنے کیلئے عدالت کی طرف چل پڑے ہیں۔ دوسری طرف اِس شناخت سے اضافی فائدہ ملنے کی خوشی سے سر شار حلقے اِس پر اعتراض کو منفی قرار دے رہے ہیں۔ معترض حلقے میں جو لوگ باقاعدہ اخبار نویس ہیں، وہ اس یقین سے سرشارہیں کہ عدالت نہ صرف اس مخفف کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی بلکہ محاذ کا نام بدلنے کا حکم بھی جاری کرے گی۔ کیا ہوگا ! یہ تو وقت بتائے گا لیکن اِس کھینچا تانی نے قوم کی اخلاقی حالت پوری دنیا کے سامنے واضح کر دی ہے۔
اس رُخ پر اپوزیشن کی منصوبہ بندی اور حکمراں حلقے کی جانب سے اس پر فوری رد عمل سے عبارت قومی سیاست کے تازہ موڑ پر کوئی کسی سے پیچھے نہیں۔ فیس بک پر ایک یک سطری پوسٹ کچھ اس طرح ہے کہ ’اب ملک کی بس ایک پہچان ہوگی! اور وہ ہے انڈیا‘۔ پوسٹ پر ایک سے زیادہ کمنٹس (آرا) پڑھ کر ایسا لگا کہ آری کی جگہ آرا چلانے والے بس انتظار میں بیٹھے تھے۔ ایک پوسٹ کچھ ان الفاظ میں نظر سے گزری کہ ’بھارت بمقابلہ انڈیا‘ میں دیکھیں کس کا پلّہ بھاری پڑتا ہے! اس پوسٹ کو قومی سیاست کے افسوسناک جذباتی پہلو کی ترجمان کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ گوگل سے بھی جب مخفف انڈیا کی مکمل شکل بتانے کو کہا گیا تو اس کی مصنوعی ذہانت سیدھا بنگلورو کی طرف دوڑ گئی اور جو بالواسطہ نتائج ابھرے ان میں ’’ہندوستانی قومی ترقیاتی ہمہ جہت محاذ‘‘نمایاں رہا۔
نئے محاذ کی تشکیل سے امکان کے رخ پر خوش اور اندیشے کی طرف سے پریشان حلقوں کے مجلسی رہنماؤں کے ردعمل کا بھی سلسلہ بے روک جاری ہے۔ نئے محاذ کے قائدین جہاں اس اقدام کو جمہوریت اور آئین کے تحفظ کے رُخ پر ناگزیر سیاسی ضرورت بتا رہے ہیں، وہیں این ڈی اے کے ذمہ داران یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بدعنوان موقع پرستوں نے گھپلوں پر کارروائی سے بچنے کیلئے بھان متی کا کنبہ جوڑا ہے۔
خال خال بچے بے لاگ سیاسی تجزیہ کاروں کا جہاں تک تعلق ہے تو اُن کا خیال ہے کہ عوام کی جذباتی امنگوں کی تکمیل تک محدود رہ جانے والی موجودہ سرکار کو اقتدار سے بے دخل کرنے کیلئے جس انقلاب کی ضرورت ہے، وہ ابھی ووٹروں کے ذہن میں برپا نہیں ہوا۔ رہ گئیں سیاسی، سماجی اور معاشی محرومیاں تو وہ عوام کا مقدر گزشتہ دس برسوں میں نہیں بنیں، یہ سلسلہ سابقہ صدی سے جاری ہے۔ ان محرومیوں سے عوام کو نہ غریبی ہٹاؤ کا نعرہ نجات دلا سکا تھا، نہ سب کا ساتھ، سب کا وکاس وغیرہ وغیرہ کا نعرہ اب تک کسی ایسے عمل میں بدل سکا ہے جو باعثِ اطمینان ہو۔ باوجودیکہ کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو علم سے زیادہ عقیدے اور آستھا سے متا ثر ماحول میں لوگوں کی تشفی کا سبب بنتے ہیں۔ یہ سلسلہ بھی سابقہ صدی سے جاری ہے۔ ڈھاکہ میں پاکستانی شرارتوں کا زور توڑ کر اندرا گاندھی نے اپنی تمام تر آمرانہ روش کے باوجود قومی جذبات کو ایکدم سے ووٹوں میں تبدیل کر دیا تھا۔ اُس وقت انڈیا اِز اندرا اور اندرا اِز انڈیا کے بے ہنگم نعرے بھی لگائے گئے تھے۔ اسی طرح شاہ بانو کیس میں مسلمانوں کوخوش کرنے اور اجودھیا میں ہندوؤں کے جذبات کی تسکین سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی فرقہ وارانہ سیاست کی پھیلتی آلودگی کے ساتھ نئی الفی کے موڑ سے گزرتے ہوئے ووٹ بینک کی مذموم سیاست پر سیکولرسٹوں کی اجارہ داری بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے نے ایسی ختم کی ہے کہ وہ بیچارے اب دوبارہ اُسے بھنانے کی سوچنابھی گوارا نہیں کر رہے ہیں۔ بصورت دیگر دیوالیہ اقلیتی ووٹ بینک سے بڑے پیمانے پر مراجعت کی گئی ہوتی تو ہندوستانی قومی ترقیاتی ہمہ جہت محاذ میں صرف 26 پارٹیاں نظر نہیں آتیں۔ نفرت کا جواب محبت سے دینے کے لیے بھارت جوڑو یاترا نے اگرچہ کرناٹک میں محبت کی دکان کھولنے میں کامیابی دلادی لیکن اس دکان سے ملک کے طول و عرض تک سپلائی کا دائرہ وسیع کرنے میںابھی وقت لگے گا۔
بہرحال اتنا تو طے ہے کہ 2024 کے عام انتخابات این ڈی اے اور انڈیا کے بینر تلے ہی لڑے جائیں گے۔ اس میں بظاہر ایک طرف بین فرقہ نظریاتی نفرت سے کسی اعلان کے بغیر استفادہ کرنے کی کوشش جاری رکھی جائے گی اور دوسری جانب اقتدار رخی محبت کے پرچار سے ووٹروں کو اپنی طرف کرنے کے کارواں کو کرناٹک سے دہلی کی طرف بڑھایا جائے گا۔ کانگریسی رہنما راہل گاندھی نے سیاسی پلیٹ فارم سے جہاں باقاعدہ اعلان کر دیا ہے کہ 2024 کے عام انتخابات ’مودی بمقابلہ انڈیا‘ ہوں گے، وہیں دوسری جانب بی جے پی کی 38 پارٹیوں کی میگا میٹنگ میں وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اپنے اُن حلیفوں کی ہمت بڑھائی ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے اکیلے پڑتے جا رہے تھے۔ این ڈی اے میں شامل چھوٹی پارٹیوں کو انہوں نے ا پنی طرف متوجہ کرنے کی بھرپور کوشش کی اور این ڈی اے پر یہ تاثر دیا کہ منفی سیاسی اتحاد کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ انہوں نے 1998 میں تشکیل کردہ قومی جمہوری اتحاد(این ڈی اے) کو مثبت اقدار کا حامل بتایا۔
حکمراں جماعت اور اپوزیشن اتحاد دونوں کی طرف سے منگل کے شبھ دن کے انتخاب کو بھی بہ انداز دیگر اہمیت دی جارہی ہے۔ اسی دن اپوزیشن نے این ڈی اے کے خلاف ایک متحد ہندوستان کا نقشہ کھینچا اور بی جے پی نے اپنی 25 ویں سالگرہ کے موقع پر دارالحکومت میں این ڈی اے کی ایک بڑی میٹنگ کا اہتمام کیا۔ برسوں میں پہلی بار ہونے والی اس میٹنگ میں 38 پارٹیوں کو اکٹھا کیا گیا جن میں سے بہت سے چھوٹے گروپوں کا علاقائی اثر و رسوخ محدود ہے۔
بی جے پی جو زیادہ تر شمالی ریاستوں میں پہلے سے ہی مضبوط ہے، منصوبہ بند طریقے سے نیٹ ورکنگ کر رہی ہے۔ جنوبی اور شمال مشرقی ہندوستان میں بھی بی جے پی اب اجنبی نہیں۔ بہار میں پسماندہ طبقات اور درج فہرست ذاتوں اور قبائل کے درمیان اثر و رسوخ رکھنے والی پارٹیوں میں گٹھ جوڑ کے ذریعہ یہ اپنے قدم جمانے کے رُخ پر مسلسل کوشاں ہے۔ دوسری طرف26پارٹیوں کے ساتھ کانگریس کا اتحاد دیکھا جائے تو پوری طرح مقابلے میں ہے۔ باوجودیکہ بھیڑ پر قابو پانے کی مداریوں والی کوششوں کے درمیاں قطعیت کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آخری لمحوں میں عام ووٹروں کا غالب جھکاؤ کس طرف ہوگا۔ اپوزیشن اتحاد ووٹروں پر یہ تاثر قائم کرنا چاہتا ہے کہ بی جے پی ہندوستان کے جمہوری کردار کو بدلنا چاہتی ہے اور نئے محاذ کا بنیادی مقصد جمہوریت اور آئین کی حفاظت کے لیے ایک ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ دوسری طرف این ڈی اے کی پوری کوشش ہوگی کہ اپوزیشن اتحاد کے مخفف ’انڈیا‘ کی بھارتی سنسکرتی میں کوئی گنجائش نہ نکلے۔
بے لاگ سیاسی تجزیہ کر نے والوں کا خیال ہے کہ بھارت جوڑو یاترا محض راہل گاندھی کا سفر نہیں تھا، اس سفر نے فرقہ وارانہ سیاسی سوچ کی گرفت تھوڑی کمزور بھی کی ہے۔ بصورت دیگر نہ اس کا اثر انتخابی نتائج پر پڑتا اور نہ ہی زائد از ایک معاملات میں کانگریس سے اتفاق نہ کرنے والی پارٹیاں یکجا ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اب اپنی یک جماعتی قومی شناخت پر زور دینے کے بجائے این ڈی اے کو پھر سے زندہ کر رہی ہے۔ ایک مثبت تبدیلی یہ نظر آرہی ہے کہ 2024 کے عام انتخابات کا حصہ بننے والے باشعور ووٹر ووٹ بینک کے دائرے سے اسی طرح باہر نکلنے کی دہلیز پر آگئے جس طرح نئی الفی کے موڑ پر اقلیتی ووٹ بینک سے اوبے ہوئے لوگ اپنی قسمت کی باگ ڈور بی جے پی کو سونپنے کے رخ پر چل پڑے تھے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS