خواجہ عبدالمنتقم
دنیا کے کسی بھی حصہ سے جب انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی خبرآتی ہے تو ہم بار بار اپنے اس عہد کی تجدید کرتے ہیںکہ ہم ایک ایسی ملی جلی عالمی ثقافت کو جنم دیں گے جس میں ہر نسل اور ہر مذہب کے لوگ ایک ساتھ پیارومحبت کے ساتھ رہیں لیکن اس کے باوجودکمزور اور مجبور انسان ہردور میں ظلم وستم، ناانصافی، جبروتشدد اور استحصال واستبداد کا نشانہ بنتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ انسانی حقوق کو عملی جامہ پہنانا کوئی مشکل کام نہیں چونکہ ہر شخص بنیادی طور پر شریف ہی ہوتا ہے اور وہ میل ملاپ، پیار ومحبت، آپسی بھائی چارہ اور یگانگت کے ماحول میں پل کر بڑا ہوتا ہے۔ اس قسم کا ماحول ہی آج کے بچوں کو کل کا اچھا شہری اور انسانی حقوق کا علمبردار بنا پائے گا بشرطیکہ ہم اس ضمن میں نیک نیتی سے کام لیں اور شرارت پسند عناصر سے ہوشیار رہیں۔
یہ مانا کہ انسانی حقوق کی حیثیت آفاقی ہے اور اگر کسی ایک جگہ کسی کے کانٹا چبھتا ہے یا چبھویا جاتا ہے تو اس کی چبھن،کوئی کہیں پر بھی ہو،محسوس کرسکتا ہے لیکن پھر بھی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم’اپنی نبیڑ آپ، تجھے غیروں کی کیا پڑی‘ مفروضے پر عمل کریں۔ آج بھی ایسے ممالک تک میں جنہیں انسانی حقوق کا علمبردار کہا جاتا ہے وہاں پر بھی کالے اور گورے میں فرق کیا جاتا ہے۔ ذات پات، مذہب، رنگ، نسل، حسب ونسب، زبان، ملکی وغیر ملکی اکثریت واقلیت اور اسی قسم کی دیگر بنیادوں پر امتیاز برتا جاتا ہے۔
دراصل اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب انسانی حقوق کی اہمیت کو سمجھیں اور انہیں زندگی کے ہر شعبے میں لاگو کرنے کے لیے جو کچھ بھی کرسکتے ہیں کریں۔ مگر اب صورت حال یہ ہے کہ اگر اپنا حلیف ملک انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کی تنقید یا مذمت کے معاملے میں بخل سے کام لیا جاتا ہے لیکن اگر ایسے واقعات دیگر ممالک، خاص کر اپنے حریف ممالک، میں پیش آتے ہیں تو ملک کی پارلیمنٹ یا ایسے ہی مماثل اداروں میں مذمتی تجاویز منظور کی جاتی ہیں جیسا کہ حال ہی میں یوروپین پارلیمنٹ نے منی پور کے واقعات کے حوالہ سے ہماری حکومت اور ہمارے حکمرانوں کے خلاف قرار داد منظور کی ہے جبکہ ہمارے یوروپی ممالک سے تعلقات انتہائی خوشگوار ہیں۔ اس قسم کے واقعات یقینی طور پر قابل مذمت ہیں اور ان پر بروقت قابو نہ پایا جانا ایک انتظامی لغزش ضرور ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جن کے گھر خود شیشے کے ہیں یا جن کی سوچ معروضی ہے وہ بھی ہمیں آئینہ دکھائیں۔ وہاں پر آج بھی کالے اور گورے میں فرق کیا جاتا ہے۔مذہب، رنگ، نسل، حسب ونسب، زبان، ملکی وغیر ملکی اکثریت واقلیت اور اسی قسم کی دیگر بنیادوں پر امتیاز برتا جاتا ہے جب کہ ان کے قوانین اس کی اجازت نہیں دیتے اور قصورواروں کو سزا بھی ملتی ہے۔
ایک عام آدمی کے لیے انسانی حقوق وہ حقوق ہیں جو تمام انسانوں کو جنم سے مرن تک ہر جگہ اور ہر وقت برابر کی بنیاد پر حاصل ہونے چاہئیں۔ بقول سپریم کورٹ کے سابق جج کرشنا ایّر ان حقوق کا تو انسان Womb سے Tomb تک حقدار رہتا ہے۔ فاضل جج کا یہ فرمانا بالکل درست ہے لیکن اب انسانی حقوق کا دائرہ تو اس سے بھی زیادہ وسیع ہوچکا ہے۔ عزت سے جینا اور عزت سے مرنا دونوں ہی انسانی حقوق کے زمرے میں آتے ہیں۔ کسی کو تشدد کا نشانہ بناکر انسانیت سوز حرکات کے ذریعہ اس کی جان لینا بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ مرنے کے بعد بھی کسی کی لاش یا میت یا اس کی قبر کی یا اس جگہ کی جہاں اسے دفن کیا گیا ہے یا نذرآتش کیا گیا ہے یا جہاں کسی قسم کی آخری رسومات ادا کی گئی ہیں، بے حرمتی بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ لہٰذا بہت سے لوگوں کا یہ کہنا کہ انسانی حقوق انسان کی موت کے ساتھ ختم ہوجاتے ہیں بجا نہ ہوگا۔ جس طرح انسانی حقوق کی اہمیت انسانی زندگی کے خاتمہ کے بعد بھی، اگرچہ محدود حد تک، باقی رہتی ہے،بالکل اسی طرح انسانی حقوق تو انسانی زندگی کے اس دنیا میں رونما ہونے سے قبل ہی(یعنی کسی کی پیدائش سے قبل ہی) وجود میں آجاتے ہیں۔ مثلاً ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے اگر اس بچے کی صحت پر منفی اثر پڑتا ہے جس نے ابھی جنم نہیں لیا ہے تو اس کی بابت یہ کہا جائے گا کہ اس کی حفاظت نفس کا بنیادی حق اس کی صحت کو ہونے والے ضرر کی حد تک متاثر ہوا ہے۔ دریں صورت کسی بھی ایسے شخص کو،جس سے اس کا مفاد وابستہ ہے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہے۔ آج بھی دنیا کے مختلف ممالک میں عوام ماحولیاتی آلودگی، گلوبل وارمنگ،فرقہ پرستی و نسلی امتیاز کی مار جھیل رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے چارٹر، انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ و دیگر بین الاقوامی دستاویزات میں، جن میں مختلف اعلامیے اور تجاویز بھی شامل ہیں، انسانی حقوق کے دائرے کو اتنا وسیع کردیا گیا ہے کہ اس میں وہ تمام حقوق شامل ہوگئے ہیں جو کسی بھی مہذب معاشرے میں یا جہاں قانون کی بالادستی کا احترام کیا جاتا ہو وہاں ایک عام انسان کو حاصل ہونے چاہئیں۔ مثلاً زندگی کے ہر شعبہ میں سب کو بغیر کسی امتیاز کے حق مساوات، حق زندگی یا حق حفاظت نفس،اچھی سہولیات، بہتر معیار زندگی، آلودگی سے پاک وصاف ہوا، پانی اور فضا کا حق، حقوق اطفال، حق حرمت، عظمت ووقار، حق تحریر واظہار رائے، آزادیٔ مذہب، اقلیتوں کے مفادات، ثقافت، زبان و تہذیب کے تحفظ کا حق، حق نقل وحرکت، حق انجمن سازی، نجی زندگی کے تحفظ کا حق، حق دادرسی، حق تعلیم، حق رائے دہی، جانوروں اور پرندوں کے تحفظ کا حق اور جغرافیائی حدود کے بغیر تمام عالمی اور بین الاقوامی حقوق کے حصول کا حق۔ ان میں سے زیادہ تر حقوق عیاں بالذات ہیں اور کسی بھی مزید تشریح کے محتاج نہیں۔ ویسے بھی ان میں سے ہر حق کا تفصیلی جائزہ لینا یہاں ممکن بھی نہیں ہے۔ تمام ممالک کو اس بات کی کوشش کر نی چاہیے کہ وہ انسانی حقوق کا پورا پورا احترام کریں کیونکہ نہ صرف اپنے ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے ہی بلکہ بین الاقوامی امن اور سلامتی کو فروغ دینے، قوموں کے درمیان منصفانہ اور باعزت تعلقات قائم رکھنے او ربین الاقوامی تنازعات کو حل کرنے کے لیے اور یہاں تک کہ تجارتی مفادات کے تحفظ کے لیے بھی انسانی حقوق کا احترام ضروری ہے۔
بین الاقوامی برادری نے اب اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ گلوبلائزیشن کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اور کسی ملک کی سا لمیت اور سماج کا تحفظ اس بات پر منحصر ہے کہ انسانی حقوق کا مکمل احترام کیا جائے۔ صرف یہی نہیں بلکہ کسی جنگ یا مسلح مڈبھیڑ وتصادم کو روکنے کے لیے بھی محض دفاعی طاقت، دفاعی اشتراک اور اسلحہ پر کنٹرول ہی کافی نہیں ہے بلکہ انسانی حقوق اور اقتدار قانون کا احترام بھی ضروری ہے۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکر یٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]