انسانی حقوق و جمہوریت کا مسئلہ اور مودی کا دورۂ فرانس: عبدالماجد نظامی

0

عبدالماجد نظامی

وزیراعظم ان دنوں فرانس کے دو روزہ دورہ پر تشریف لے گئے ہیں جہاں کئی اہم معاملوں پر سنجیدہ مذاکرات فرانس کے صدر ایمینوئل میکروں سے ہوں گے اور دونوں ملکوں کے مفادات کے لیے مستقبل میں مزید معاون ثابت ہونے والے معاہدوں پر دستخط بھی کیے جائیں گے۔ ہندوستان کے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کو ’یوم باسٹیل ‘ (Bastille Day)میں شرکت کے لیے دعوت دی گئی ہے۔ ہندوستانی قارئین اس مناسبت کی اہمیت کو اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ فرانس کا ’باسٹیل ڈے‘ ہمارے ملک کے جشن یومِ جمہوریہ سے مماثلت رکھتا ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ ہندوستان میں یہ جشن تقریباً بلا ناغہ ہر سال منایا جاتا ہے جبکہ فرانس اپنا ’باسٹیل ڈے‘ کبھی کبھار مناتا ہے۔ البتہ فرانس میں اس کی بڑی اہمیت ہے اور اسی لیے ایسے موقع پر فرانس اپنے نہایت اہم دوست ممالک کو ہی دعوت دیتا ہے۔ نریندر مودی سے قبل یہ اعزاز ہندوستان کے سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کو2009میں عطا کیا جا چکا ہے۔ اگر یہ اتفاق اس سے پہلے نہ ہوچکا ہوتا تو شاید بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ پریوار کے عناصر اس معاملہ کو اس قدر پھیلاتے اور بیان کرتے پھرتے گویا ہندوستان نے یوروپ کو فتح کر لیا ہے۔ بہر کیف اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ایک ایسا اعزاز ہے جس سے ہر ہندوستانی کو خوشی ملتی ہے کیونکہ اس سے ملک کا وقار دنیا میں بلند ہوتا ہے۔ لیکن نریندر مودی کے دورۂ فرانس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جس سے شاید بھارتیہ جنتا پارٹی کو زیادہ خوشی نہیں ہوگی بلکہ یک گونہ رسوائی کا عنصر اس میں پایا جاتا ہے۔ دراصل جس دن وزیر اعظم فرانس کے لیے روانہ ہوئے، اسی موقع پر یوروپی یونین کی پارلیمنٹ میں جمہوری قدروں، انسانی حقوق، میڈیا کی آزادی پر لگی بندشیں اور بطور خاص منی پور میں جاری تشدد اور اس میں بی جے پی کے لیڈران کے کردار پر سوال اٹھایا گیا ہے۔ بدھ کے روز یوروپی پارلیمنٹ میں منی پور تشدد پر ایک موشن اختیار کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اعلیٰ لیڈران کے ذریعہ جو قومیت پر مبنی بیانات دیے جاتے ہیں، یہ پارلیمنٹ سخت الفاظ میں ان کی مذمت کرتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فرانس کے شہر اسٹراس برگ میں ہی یہ پارلیمنٹ واقع ہے جہاں اس بات پر بحث کی جارہی ہے کہ ہندوستان میں انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے، جمہوری قدروں اور قانون کی بالادستی کا نظام خطرہ میں ہے، میڈیا کی آزادی کے لیے مسائل پیدا کیے جا رہے ہیں اورانسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم رہنے والی شخصیات اور تنظیموں کو سخت آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔ یوروپی پارلیمنٹ نے اپنے ممبر ممالک کو یہ مشورہ بھی دیا کہ ہندوستان کے ساتھ جب بات چیت کی جائے تو جمہوری قدروں اور انسانی حقوق جیسے مسائل کو پیش نظر ضرور رکھا جائے۔ اس کے جواب میں مودی سرکار نے گرچہ یہ کہہ کر پلّہ جھاڑنے کی کوشش کی ہے کہ یہ ہندوستان کا اندرونی مسئلہ ہے لیکن اتنا کہہ دینا کافی نہیں ہے۔ خاص طور سے وہ سیاسی پارٹی جو ہر وقت ہندوستان کو بلندی پر پہنچانے اور عالمی سطح پر ملک کو اس کا جائز حق دلانے کی بات کرتی رہتی ہے، کم از کم اس کے لیے اتنا کہہ دینا ہرگز کافی نہیں ہوگا۔ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ہیں کہ وزیراعظم اپنے دورۂ امریکہ سے تشریف لائے ہیں۔ وہاں بھی انہیں غیر معمولی اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ لیکن جب ’وال اسٹریٹ جرنل‘ کی ایک صحافی نے وہائٹ ہاؤس میں ان سے ہندوستان میں جمہوری قدروں اور اقلیتوں کو درپیش مسائل کے بارے میں سوال کیا تو مودی کے حامیوں نے ایسا غیر مہذب ردعمل پیش کیا کہ خود وہائٹ ہاؤس کو صحافی کی حمایت میں بیان جاری کرنا پڑا۔ یہ معاملہ صرف بی جے پی کی ٹرول آرمی تک محدود نہیں تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اعلیٰ لیڈران اور وزراء تک اس میں کود پڑے اور سابق امریکی صدر براک اوباما کے اس بیان پر آسمان سر پر اٹھا لیا جس میں انہوں نے ہندوستان میں اقلیتوں کو درپیش چیلنجز کو دھیان میں رکھ کر اپنی بات کہی تھی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران اور مودی سرکار کے وزراء کو یہ بات ذہن نشیں رکھنی چاہیے کہ یہ دنیا بہت چھوٹی ہے اور یہاں ہر نقل و حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے۔ وزیراعظم کا امریکہ میں یہ دعویٰ بالکل ناکافی تھا کہ ہندوستان جمہوریت کی ماں کا درجہ رکھتا ہے اور یہاں اقلیتوں کے ساتھ کوئی بھیدبھاؤ نہیں ہوتا ہے۔ یہ دعویٰ اس لیے بے سود ہے کیونکہ دنیا حقیقت سے واقف ہے۔ ابھی دورۂ فرانس کے موقع پر یوروپی پارلیمنٹ نے جو موشن اختیار کیا ہے، وہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ ہم اپنے مداحوں کو جھوٹ سے بہلا سکتے ہیں لیکن عالمی منظرنامہ پر اپنی امیج کو تب تک نہیں بچا سکتے جب تک جمہوری قدروں کو مضبوط نہ کیا جائے، انسانی حقوق کی پاسداری نہ کی جائے اور میڈیا اور انسانی حقوق کی شخصیات اور تنظیموں کو آزادی کے ساتھ اپنا کام نہ کرنے دیا جائے۔ ابھی یکساں سول کوڈ کا ہنگامہ بی جے پی نے کھڑا کر رکھا ہے اور یہ پارٹی دعویٰ کر رہی ہے کہ اس سے اقلیتی طبقوں کی عورتوں کے حقوق محفوظ ہوں گے اور ان کے ساتھ روا رکھا جانے والا بھیدبھاؤ اور نابرابری کا برتاؤ ختم ہوگا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یوروپی پارلیمنٹ نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ ہندوستان میں اقلیتی اور قبائلی طبقے کی عورتوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں اوران کے ساتھ تشدد برتا جاتا ہے۔ اس سے بھی بی جے پی کے کھوکھلے دعوے کی پول کھلتی ہے۔ یوروپی پارلیمنٹ کے ریولیوشن نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ 2020میں یو این ہائی کمشنر فار ہیومن رائٹس نے ہندوستان سے اپیل کی تھی کہ وہ انسانی حقوق کے محافظوں کو تحفظ فراہم کرے۔ ہائی کمشنر نے سول سوسائٹی کے لیے بڑھتے چیلنجز پر اپنی فکرمندی ظاہر کی تھی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے حوالہ سے بتایا تھا کہ کیسے بی جے پی کے لیڈران سماج کو تقسیم کرنے والی پالیسیاں اپناکر لوگوں کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ امید ہے کہ نریندر مودی فرانس سے واپسی کے بعد ان مسائل پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور دستور ہند کی روشنی میں ان کا بہتر حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہم بار بار یہ بات دہراتے ہیں کہ کوئی بھی ملک اس وقت تک عالمی قیادت کے پیمانوں پر کھرا نہیں اتر سکتا جب تک اس ملک میں مساوات، انصاف کی بالادستی اورتمام طبقات کے ساتھ یکساں سلوک کو لازمی نہیں بنایا جاتا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS