یکساں سول کوڈ کا شوشہ کیوں چھوڑا جا رہا ہے

0

علیزے نجف
سیاست کی بساط پہ زیادہ دیر تک ایسی خاموشی نہیں رہتی جس میں راوی چین ہی چین لکھے ، خاموشی اکثر و بیشتر طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے، ایک بڑا طوفان اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کے دلوں میں پل رہا ہے۔صحافتی سطح پہ ایک ہنگامہ بپا ہوا ہے بہتوں کو اپنے تحفظ اور انفرادی حقوق کے تئیں خدشات پیدا ہو گئے ہیں ملک میں یہ غیر یقینی فضا کسی بڑے حادثے کو جنم دے سکتی ہے، موضوع ہے یکساں سول کوڈ جو دستور ہند میں دفعہ 44 کے تحت درج ہے،
واضح رہے کہ یکساں سول کوڈ کے ذریعے حکومت پورے ملک میں ایسا یکساں قانون نافذ کرنا چاہتی ہے جس کے تحت ہر شہری یکساں قانون کا پابند ہوگا اس قانون کا تعلق کسی خاص مذہب سے نہیں ہوگا۔ مختلف مذاہب کے پرسنل لاز یک قلم ختم کر دیے جائیں گے۔ شادی، طلاق اور جائیداد گود لینے، کے معاملے میں ہندو مسلم سکھ عیسائی و دیگر مذاہب کے لوگوں پہ صرف ایک قانون لاگو ہوگا۔ اس میں سبھی کے لیے یکساں سماجی و عائلی قانون ہوگا، بیشک انسانوں کے درمیان پایا جانے والا تنوع ہمیشہ سے رہا ہے مذہب کے اختلاف کے ساتھ ان کی عائلی زندگی سے متعلق قوانین میں بھی فرق پایا جاتا رہا ہے اس کو یکسر ختم کرکے یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنا قطعا آسان نہیں کیوں کہ اس کے تحت ایسے بھی فیصلے ممکن ہیں جو کہ کسی کے مذہبی تعلیمات اور روایات کے خلاف ہوں۔ مذہب جو ایک حساس معاملہ ہے اس کے تحت بننے والے قوانین پہ عمل کرنا ہر قوم کی بنیادی ترجیح ہوتی ہے ایسے میں ان میں مداخلت کرنا لوگوں میں ہم آہنگی کے بجائے انتشار پیدا کرنے کی وجہ بنے گا، ہندوستان جو کثیر مذہبی و ثقافتی ملک ہے اس میں ایک ہی مذہب کے ماننے والے مختلف رسم و رواج کے پابند ہیں، ایسے میں ان پہ ایک قانون لاگو کرنے کی بات کرنا سراسر ڈکٹیٹر شپ ہے، مغلوں نے ہندوستان پہ 800 سال تک حکومت کی لیکن انھوں نے ہندوؤں کے پرسنل لا کو کبھی نہیں چھیڑا جب کہ اس وقت ہندوؤں میں ایسی رسمیں تھیں جو انسانی حقوق کے خلاف تھیں انھیں یہ حق دیا کہ وہ اپنے ذاتی معاملات کو اپنے طور پہ سر انجام دیں ہمیں اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہمارا کام بس حکومت کرنا ہے، انگریزوں نے بھی ان قوانین میں ردوبدل کرنے کی جرأت نہیں کی جس کا تعلق مذہب اور روایات سے تھا۔ انگریزوں کے زمانے میں محمڈن لا کی تشکیل ہوئی جو آج مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نام سے جانا جاتا 1931 میں مہاتما گاندھی نے گول میز کانفرنس لندن میں بہت صراحت کے ساتھ کہا تھا کہ ” مسلم پرسنل لاء کو کسی بھی قانون کے ذریعے چھیڑا نہیں جائے گا” 1936 میں کانگریس نے ہری پور میں اعلان کیا کہ “اکثریت کی طرف سے مسلم پرسنل لا میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں کی جائے گی، پھر 1937 میں شریعت اپلیکیشن ایکٹ پاس ہوا اس نے زیادہ صراحت کے ساتھ مسلم پرسنل لاء کو آئین کا حصہ بنایا۔ چنندہ واقعات کو بنیاد بنا کر یکساں سول کوڈ کی حمایت کرنا ملک کی سالمیت کو خطرے میں ڈال دے گا، جب دستور میں دفعہ 44 کو شامل کیا گیا تھا اس وقت ہی مختلف مسلم ممبران پارلیمنٹ جناب محمد اسماعیل، جناب بی۔ پوکر صاحب جناب نظیر الدین احمد صاحب، جناب محبوب علی بیگ صاحب نے تنقید کی اور اس سے مسلم پرسنل لاء کو مستثنیٰ رکھنے کا مطالبہ کیا، جناب نظیر الدین صاحب نے کہا کہ انگریز 175 برس میں جو نہ کر سکے یا جس کے کرنے سے گھبراتے رہے، اسی طرح مسلمانوں نے صدیوں حکومت کی لیکن ایسی ہم آہنگی پیدا کرنے کی غلطی نہیں کی ہمیں ریاستوں کو اتنا اختیار نہیں دینا چاہیے کہ وہ بیک وقت سب کچھ کر گزریں۔ مگر ڈاکٹر امبیڈکر نے ایک نہ سنی البتہ مسلمانوں کو تسلی دینے کے لیے کہا کہ ” کوئی حکومت اپنے اختیارات کو اس طرح استعمال کر کے مسلمانوں کو بغاوت پہ آمادہ نہیں کر سکتی، میرے خیال میں اگر کسی نے ایسا کیا تو وہ حکومت پاگل ہی ہوگی”۔ اس وقت کی اگر یہ کرنے کی جرآت کر رہی ہے اس کے پیچھے کیا نفسیات ہے اس سے ہر کوئی اچھی طرح واقف ہے۔
آزادی کے بعد مسلم پرسنل لاء کی اہمیت مستحکم رہی ہے اس کے ذریعے حکومت کے ایسے فیصلوں کو روکنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے جو شریعت کے متصادم ہو رہے تھے نئے پیدا ہونے والے مسائل پہ بھی مسلم پرسنل لاء گہری نظر رکھتا ہے وہ اس کا تجزیہ کر کے شریعت کی روشنی میں مناسب حل تجویز کرتا ہے۔
اس سے پہلے تین ایسے معاملات میں مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اپنے سخت مؤقف کے ذریعے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کر چکا ہے مسلم پرسنل لا بورڈ اپنی شریعت کے حوالے سے بہت حساس ہے حکومت کو اس میں مداخلت کر کے امن و امان کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے، اسے تمام مذاہب اور قبائل کے دانشوران سے بات چیت کر کے حساس معاملات کو اس سے مستثنی کر دینا چاہیے، اس وقت جب کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وجود کو شدید خطرہ لاحق ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر سے مسلمان سڑکوں پہ اتر آئیں اور ملک کا امن و امان درہم برہم ہو جائے، یکساں سول کوڈ کا مطلب مذہبی تشخص اور جمہوریت کے تحت ملنے والی آزادی سے محروم ہونا ہے۔
اگر ایک طرف دستور ہند میں اس کے نفاذ کے لیے دفعہ شامل کی گئی وہیں دفعہ 25 میں اس کے برخلاف بات کہی گئی مطلب یہ کہ ہر شہری کو ضمیر اور مذہبی عملی اور مذہبی تبلیغ کی آزادی دی گئی ہے، اس دفعہ کے ہوتے ہوئے یکساں سول کوڈ کی بات کرنے نے ہر مذہب و مسلک کے لوگوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، ہر کوئی اس پہ اپنی راے کا اظہار کر رہا ہے، دانشور طبقہ بھی اس سے جڑے خدشات سے نمٹنے کی تیاری میں اپنی اپنی کوشش کر رہا ہے، خسرو فاؤنڈیشن دہلی کے چیئرمین پروفیسر اخترالواسع صاحب نے یونیفارم سول کوڈ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “یونیفارم سول کوڈ مسلمانوں کی چڑ بنا دی گئی ہے ایسے میں وہ اس بات پہ زور دینا چاہتے ہیں کہ مسلمان اس بات پہ چڑنا چھوڑ دے کیوں کہ یونیفارم سول کوڈ ہندوستان کے کسی ایک مذہب کا مسئلہ نہیں بلکہ اس کا تعلق تمام مذاہب سے ہے” بیشک یہ بات سچ ہے کہ جب جب یونیفارم سول کوڈ کا موضوع چھڑا ہے مسلمانوں نے اس کی سختی سے مخالفت کی ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ اس سے صرف مسلمان طبقہ ہی متاثر نہیں ہوگا بلکہ دیگر مذاہب اور قبائل کے لوگ بھی متاثر ہوں گے ، ابھی یہ بحث جاری ہی تھی کہ ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ کے بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا کہ “قبائلیوں اور عیسائیوں کو یو سی سی مستثنیٰ رکھنے پہ غور کیا جا رہا ہے” واضح رہے کہ یہ بات انھوں نے ناگالینڈ کے وزیر اعلی نیفیوریو کی قیادت میں 12 رکنی وفد سے ملاقات میں کہی تھی۔ انھوں نے قبائلیوں کی طرف سے یکساں سول کوڈ پہ سخت ردعمل آنے کا خدشہ ظاہر کیا۔ ہمارے ملک میں قبائلیوں کی تعداد کروڑوں میں ہے جو کہ اپنی روایات پہ سختی سے قائم ہیں ملک کے برسر اقتدار طبقہ نے یہ محسوس کر لیا کہ ان کی مخالفت اس قانون کے نفاذ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوگی اور اس سے مسلمانوں کو شہ ملے گی جو ان کی ذلت کا سبب بن سکتی ہے، ہم جو اپنے کہے کے پجاری ہیں اتنی آسانی سے اس منصوبہ کو ضائع نہیں ہونے دیں گے اور ہندوؤں پہ یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ ہم ہندو راشٹر بنانے کے لیے کسی حد تک جا سکتے ہیں۔ کیوں کہ یہ بات ہر ایک جانتا ہے کہ عوام کے مفاد کے تحت نہیں کیا جا رہا بلکہ یہ سب پولرائزیشن کی سیاست ہے لوگوں کو اصل مسائل سے بھٹکا کر اپنے جذباتی ہتھکنڈوں سے اپنی مٹھی میں رکھنا ہے، اگر ان کی نیت اتنی صاف ہے تو کیوں نہیں لوک سبھا الیکشن کے بعد اس مدعے کو موضوع بحث بناتے، بہرحال یہ ذاتی مفادات کی جنگ ہے جو کہ مفاد عامہ کی آڑ میں لڑی جا رہی ہے یہ اقتدار کا نشہ اچھے اچھوں کا ذہنی توازن بگاڑ دیتا ہے وہ اس کو قائم رکھنے کے لیے کسی حد تک جا سکتے ہیں۔
اس وقت ذہن میں کہیں نہ کہیں یہ سوچ پیدا ہو رہی ہے کہ ملک میں پیدا مسائل حل کا سد باب کیا واقعی یکساں سول کوڈ کے نفاذ میں ہے کیا اس سے واقعی ہندو طبقے کے عوام کا ذہنی سکون قابل رشک ہو جائے گا، اس حوالے سے سب سے بڑی بات یہ کہی جا سکتی ہے بگڑتے ہوئے سماج کو قانون سے زیادہ شعور کی ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ ہر قانون میں چور راستے موجود ہوتے ہیں اور چہار دیواری میں ہونے والے زیادہ تر ظلم کی چیخیں وہیں دفن ہو کے رہ جاتی ہیں چنندہ چیخیں ہی عدالتوں تک پہنچ پاتی ہیں اور اگر پہنچ بھی جائیں تو وہ فائلوں کے ڈھیر میں دب کر برسوں سسکیاں لیتی رہتی ہیں اس سے محض عدالتوں پہ بوجھ بڑھتا ہے اور انصاف میں تاخیر کبھی عدل کے تقاضوں کو پورا نہیں کر پاتا اگر وہ واقعی عوام کے خیرخواہ ہیں تو انھیں قانون سے زیادہ پختہ شعور کی فراہمی پہ توجہ دینی چاہیے۔ خیر یہ ایسی باتیں ہیں جو سیاسی ایوانوں میں رائی برابر بھی اہمیت نہین رکھتیں لیکن عوام کو اس پہلو سے سوچنے کی اشد ضرورت ہے جب تک وہ اپنی ترجیحات نہیں تبدیل کریں گے اس وقت تک مقتدر طبقہ بے بنیاد چیزوں کے ذریعے جذباتی طور پہ ان کا استحصال کرتا رہے گا۔
اس وقت سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یونیفارم سول کوڈ پہ مسلمانوں کو کس طرح کا ردعمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے، مسلمانوں کے دانشور طبقے کو ہر اس طبقے کے ساتھ بات کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو یکساں سول کوڈ سے متاثر ہوں گے ان کے ساتھ لائحہء عمل بناتے ہوئے ایک ایسا وفد ترتیب دیا جائے جو حکومت کے سامنے اپنی باتیں رکھ سکے اگر یونیفارم سول کوڈ میں قبائلیوں اور عیسائیوں کے لیے مستثنیات ہو سکتے ہیں تو پھر مسلمانوں کے لیے کیوں نہیں، ضدی لہجہ اپنانے کے بجائے دانشور مکالمے کے ذریعے ان سے بات کی جائے اس کے لیے مسلم تنظیموں کو آپسی اتحاد کے ساتھ متفقہ طور پہ خود اپنے نظریات کو واضح رکھنا ہوگا کیوں کہ مسائل اس وقت مزید الجھنا شروع ہو جاتے ہیں جب ان کے اپنے ہی لوگ انھیں لعن طعن کرتے ہیں یہ اعصابی اور ذہنی تناؤ اکثر نظریات کے استحکام میں رکاوٹ کی وجہ بنتا ہے، جس طرح حکومتی طبقہ پورے ہوم ورک کے ساتھ اپنا کام کررہا ہے اس کے لیے وہ ان لوگوں سے بھی استفادہ کرتے ہیں جو ان کے نظریات کو دلیل فراہم کرتے ہیں اسی طرح مسلمانوں کو بھی ہندووں کے دانشور طبقہ کے ساتھ مل کر اپنا ہوم ورک تیار کرنے پہ غور کرنا چاہیے وہ ہمارے شریعہ میں موجود لاء پہ اگر سوال اٹھائیں تو ہمیں بھی علم ہونا چاہیے کہ ان کے مذہب کے کن قوانین سے خود ان کے مذہب کے لوگوں کا استحصال ہو رہا ہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، ہمیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ بعض اوقات موجود لاء پہ سوال اٹھانے اور اس کے بالمقابل ایک نیا قانون بنانے سے مسائل نہیں حل ہوتے بلکہ اس کے لیے لوگوں میں موجود شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو عدالتوں سے نہیں بلکہ تعلیمی اداروں اور اقتصادی استحکام سے پیدا ہوتے ہیں۔
ایک طرف حکومت دفعہ 44 کے تحت یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے لیے بیچین ہے تاکہ وہ یہ تاریخ ساز نفاذ کا سہرا اپنے سر باندھ کر اپنا قد مزید اونچا کر سکے جب کہ وہیں دستور ہند کے دفعہ 45 میں یہ کہا گیا ہے کہ ریاست یہ کوشش بھی ضرور کرے گی کہ دستور کے نفاذ کے بعد دس سال کی مدت میں وہ تمام بچوں کے لیے مفت اور لازمی تعلیم فراہم کردے یہاں تک کہ وہ چودہ سال کی عمر تک پہنچ جائیں، کیا حکومت ہند اس دفعہ کی تکمیل کے حوالے سے سنجیدہ اقدام کر رہی ہے یا کرنے کی تیاری میں ہے اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ وہ اس حوالے سے اب تک آسانیاں پیدا کرنا تو دور کی بات اس نے ایسے فیصلے لیے ہیں جس کی وجہ سے ایک متوسط خاندان کے لیے اپنے بچوں کو تعلیم دلانا جان جوکھم کا کام بن گیا ہے، اگر حکومت واقعی قوم کی تعمیر اور ان کو آسانی فراہم کرنے کے لیے سنجیدہ ہے تو اسے پہلے دفعہ 45 پہ عمل کرنے کی ضرورت ہے بقول مولانا وحیدالدین خاں کے ” تعلیم کی اہمیت قوم کی تعمیر کے لیے اتنی زیادہ ہے کہ اس کے مقابلے میں کامن سول کوڈ کا معاملہ صرف ایک نان ایشو کی حیثیت رکھتا ہے، ایسی حالت میں ہمارا واحد نکاتی نشانہ صرف یہ ہونا چاہیے کہ ہم ملک کی آبادی کو صد فیصد تعلیم یافتہ بنائیں اس کے سوا جس چیز کو بھی نشانہ بنایا جائے گا وہ اصل قابل لحاظ چیز سے توجہ ہٹانے کے ہم معنی ہوگا اس طرح توجہ کو اہم سے ہٹا کر غیر اہم میں الجھا دینا ایک قومی جرم ہے نا کہ قومی خدمت۔
سماج میں یک جہتی اور اتحاد کی فضا بنانے کے لیے اصل ضرورت یہ نہیں کہ لوگوں کا شادی بیاہ کا طریقہ ایک ہو۔ بلکہ اصل ضرورت یہ ہے کہ لوگ صحیح طرز فکر کے حامل ہوں” یہ بی جے پی کی فخریہ نفسیات ہی ہے جو وہ یکساں سول کوڈ جیسا متنازع معاملہ کھول بیٹھی ہے جس کو کہ بیشتر حکومتوں نے غیر ضروری سمجھا، کیوں کہ وہ ہمیشہ وہ کام کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے جو ان کو عوام میں نمایاں کر سکے وہ شہرت منفی سطح پہ ملتی ہے یا مثبت اس سے انھیں کوئی غرض نہیں، ان کے اب تک کے لیے گئے فیصلوں سے یہ بات پوری طرح ثابت ہوتی ہے۔ اگلے لوک سبھا انتخابات کے لیے وہ فضا ہموار کرنے میں مصروف ہو چکی ہے یہ ان کا مفاد ہے اس وقت عوام کو اپنے مفاد کے تحفظ کو یقینی بنانے والے عوامل کو حکمت عملی کے ساتھ اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔vvv

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS