پلیس آف ورشپ قانو ن:نچلی عدالتوں کو مساجداور عید گاہوں کے خلاف داخل مقدمات پر سماعت کرنے سے سپریم کورٹ روکے: جمعیۃ علماء ہند

0

نئی دہلی، (یو این آئی)پلیس آف ورشپ ایکٹ یعنی عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کو ختم کرنے والی عرضی پرآج سپریم کورٹ میں سماعت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ ورندہ گروور نے عدالت سے گذارش کہ وہ ملک کی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات پر اسٹے لگائے کیونکہ پلیس آف ورشپ قانون پر اسٹے نہ ہونے کی وجہ سے اس قانون کو نظر انداز کرتے ہوئے نچلی عدالتیں ہندو فریقین کی جانب سے مساجداور عید گاہوں کے خلاف داخل عرضی پر سماعتیں کررہی ہیں جو سراسر غیر آئینی ہے۔
جمعیۃ کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق چیف جسٹس نے ایڈوکیٹ ورندہ گروور سےکہا کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ پر کسی بھی طرح کا اسٹے نہیں ہے لہذا نچلی عدالتوں کو اس تعلق سے مطلع کرنا چاہئے اور ان سے اسٹے کی گذارش کرنا چاہئے جس پر ایڈوکیٹ ورندہ گروور نے کہا کہ نچلی عدالتیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس خصوصی قانون پر اسٹے نہیں ہے مقدمہ کی سماعت کررہی ہیں لہذا سپریم کورٹ کو عبوری حکم نامہ جاری کرنا چاہئے تاکہ نچلی عدالتیں ایسے مقدمات کی سماعت کرنے سے گریز کریں جو پلیس آف ورشپ ایکٹ کے تحت ممنوع ہے۔ ورند گروور نے چیف جسٹس سے گذارش کی کہ وہ کم از کم آج کے عدالتی کارروائی میں یہ تبصرہ ہی کردیں کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ پر اسٹے نہیں ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں یہ نہیں پتہ نچلی عدالتوں میں کس نوعیت کے مقدمات زیر سماعت ہیں لہذا عدالت ان مقدمات کی نوعیت جانے بغیر اسٹے کا حکم یا اسٹے کے متعلق تبصرہ نہیں کر سکتی۔
ایڈوکیٹ ورندہ گروور نے عدالت کو مزید بتایا کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ کے حقیقی نفاذ کے لیئے جمعیۃ علماء ہند نے ایک خصوصی پٹیشن بھی داخل کی اس کے باوجود نچلی عدالتوں میں مقدمات سماعت کے لیئے قبول کیئے جارہے جس سے مسلمانو ں میں بے چینی پائی جارہی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن کو عدالت نے سماعت کے لیئے قبول کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا۔
آج اس اہم معاملے کی سماعت چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس پی نرسہما اور جسٹس منوج مشراء پر مبنی تین رکنی بینچ کے روبرو ہوئی ہوئی۔مرکزی حکومت نے آج بھی عدالت میں حلف نامہ داخل نہیں کیا، سالیسٹر جنرل آف انڈیاتشار مہتا نے عدالت سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ کئی سماعتوں سے مرکزی حکومت نے حلف نامہ داخل نہیں کیا ہے لیکن حلف نامہ کو تیار کیا جارہا ہے جس کے لیئے انہیں مزید وقت درکار ہے۔تشار مہتا نے بینچ کو یقین دلایا کہ مرکزی حکومت جمعیۃ علماء ہند سمیت تمام عرضی پر حلف نامہ داخل کریگی۔ چیف جسٹس نے تشار مہتا کو حکم دیا کہ وہ مقدمہ کی اگلی سماعت 31/ اکتوبر سے قبل عدالت میں حلف نامہ داخل کریں تاکہ حتمی سماعت کا آغاز کیا جاسکے۔
اسی درمیان ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے عدالت سے گذارش کی کہ وہ اس مقدمہ کی حتمی سماعت کے لیئے تاریخ متعین کرے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ مرکزی حکومت اس معاملے میں اگلی سماعت پر بھی حلف نامہ داخل نہیں کریگی کیونکہ ہر تاریخ پر وہ سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کرتی ہے۔چیف جسٹس نے ڈاکٹر سبرامنیم سوامی سے کہا کہ اس مرتبہ مرکزی حکومت کو حلف نامہ داخل کرنے کے لیئے عدالت نے مناسب وقت دیا ہے لہذا مرکزی حکومت کے حلف نامہ آنے کے بعد عدالت حتمی سماعت کے لیئے شیڈول طئے کریگی۔
اس معاملے میں جمعیۃ علماء ہند نے ایک جانب جہاں پلیس آف ورشپ قانو ن کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی عرضداشت کی مخالفت کرنے کے لیئے مداخلت کار کی درخواست داخل کی ہے وہیں سول پٹیشن داخل کرکے عدالت سے پلیس آف ورشپ قانو ن کے تحفظ اور اس کے حقیقی نفاذ کی عدالت سے درخواست کی ہے ۔
سپریم کورٹ میں ہونے والی آج کی سماعت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ایڈوکیٹ ورندا گروور، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ سیف ضیاء، ایڈوکیٹ مجاہد احمد و دیگر موجود تھے۔ صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر داخل سول رٹ پٹیشن کا ڈائری نمبر 28081/2022 ہے جسے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے داخل کیا ہے۔جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل کردہ رٹ پٹیشن اور مداخلت کار کی دونوں درخواستوں میں جمعیۃ علماء ہند قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار احمد اعظمی مدعی ہیں۔
ڈاکٹر سبرامنیم سوامی، اشونی کمار اپادھیائے اور دیگر لوگوں نے پلیس آف ورشپ ایکٹ کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیاہے اور عدالت سے ان کا مطالبہ ہیکہ اس قانون کی وجہ سے وہ کاشی متھرا، گیان واپی اور دیگر دوہزار ایسی مسلم عبادت گاہوں کو ہندو عباد ت گاہوں میں تبدیل نہیں کرا پارہے ہیں کیونکہ یہ قانونی عبادت گاہوں کی تبدیلی کی اجازت نہیں دیتا ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل سول رٹ پٹیشن میں یہ تحریر ہیکہ پلیس آف ورشپ قانون 1991 نافذکرنے کا دو مقصد تھا، پہلا مقصد یہ تھا کہ کسی بھی مذہبی مقام کی تبدیلی کو روکنا اور دوسرا مقصد یہ تھا 1947 کے وقت عبادت گاہیں جس حال میں تھی اسی حال میں اسے رہنے دینا اور ان دونوں مقاصد کو بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ کے فیصلہ میں عدالت نے مانا ہے۔ پلیس آف ورشپ قانون آئین ہند کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرتا ہے اس بات کا ذکر بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں کیا گیا ہے(پیرگراف 99، صفحہ 250)نیز اس قانون کی حفاظت کرنا سیکولرملک کی ذمہ داری ہے اور سیکولر ملک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرے۔
عرض داشت میں مزید تحریر ہے کہ پلیس آف ورشپ قانون کا موثر نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے مسلم عبادت گاہوں بشمول گیان واپی مسجد، قطب مینار، متھرا کی عیدگاہ کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے نیزملک کی مختلف عدالتوں میں مقدمات قائم کرکے مسلمانوں کوپریشان کیا جارہا ہے جبکہ عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون اس کی قطعی اجازت نہیں دیتا لہذا پلیس آف ورشپ قانون کو چیلنج کرنے والی تمام عرضداشتوں کو خارج کیا جائے اور اس خصوصی قانون کے حقیقی نفاذ کو یقینی بنایا جائے تاکہ مسلم عبادت گاہوں کے خلاف قائم مقدمات پر روک لگ سکے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS