تقرری کا نیا ضابطہ اور اساتذہ کا موقف: ڈاکٹر محمد صفوان صفوی

0

ڈاکٹر محمد صفوان صفوی

گزشتہ دنوں بہار میں اساتذہ کی تقرری کے جس نئے ضابطے کو بہار گورنمنٹ نے منظوری دے کر نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے اس اعتبار سے کہ گزشتہ ضابطوں سے سخت اور تہ درتہ ہے اور اس کے ذریعے سے جو تقرریاں عمل میں آئیں گی ان میں زیادہ باصلاحیت امیدواروں کے انتخاب کی امید کی جا سکتی ہے، اس کو موجودہ حکومت کا ایک نہایت مستحسن قدم سمجھا جا سکتا ہے لیکن اس میں دو امور نظرِ ثانی کے محتاج ہیں۔ اول یہ کہ مرکزی یا صوبائی لیاقتی امتحان میں کامیاب امیدوار کو بھی تقرری کے لئے ایک بار پھر بہار سروس کمیشن کے مسابقتی امتحان میں کامیاب ہونا ہوگا۔ دوسرے یہ کہ اس کے نفاذ سے تقریبا بیس سالوں سے کام کر رہے اساتذہ کے حق میں ناانصافی لازم آتی ہے۔ اس مسابقتی امتحان کے لئے عام امیدواروں پر ٹرینڈ ہونے کی شرط عائد کی گئی ہے جس کی وجہ سے مقابلہ کافی سخت ہو گیا ہے۔ بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پرائمری اور مڈل کی سطح پر اساتذہ کی تقرری کی شرائط کو یونی ورسٹی کے اساتذہ کی شرائطِ تقرری سے بھی زیادہ سخت کر دیا گیا ہے۔ یونی ورسٹی میں اساتذہ کی تقرری کے لئے اب پی ایچ ڈی کی شرط جسے ٹریننگ کا بدل کہہ سکتے ہیں اٹھا دی گئی ہے اور اہلیت کے لئے اب صرف اہلیتی امتحان پاس کرنا ضروری ہوتا ہے۔ بیشتر امیدوار مرکزی اہلیتی امتحان کے بعد انٹرویو کے ذریعے منتخب کر لئے جاتے ہیں اور انھیں یوجی سی کے اہلیتی امتحان کے علاوہ دوسرے کسی بھی امتحان میں بیٹھنا نہیں پڑتا جبکہ بہار میں اسکول ٹیچر بننے کے خواہش مند بعض امیدواروں کو اہلیتی امتحان کے علاوہ ایک اور مقابلہ جاتی امتحان بھی دینا ہوگا۔ گویا انھیں دو اہلیتی امتحان پاس کرنے ہوں گے تب کہیں جاکر ان کی تقرری ہو سکے گی یہ کسی قدر انصاف سے بعید معلوم ہوتا ہے۔ اربابِ حکومت اور اہل کاروں کو اس پر نظرِ ثانی کرنی چاہئے اور ان امیدواروں کو جو اہلیتی امتحان پاس کرچکے ہیں سروس کمیشن کے امتحان کی قید سے آزاد رکھنا چاہئے۔
دوسری چیز جو نظرِ ثانی کی محتاج ہے وہ یہ ہے کہ اس ضابطے کی رو سے تقرری پانے والے اساتذہ کو ریاستی ملازم کا درجہ دیا جائے گا جب کہ اسکولوں میں پہلے سے کام کرنے والے اساتذہ کو ان کے مقابلے میں ثانوی حیثیت حاصل ہوگی۔ اگر پرانے اساتذہ مساوی درجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انھیں پھر سے بہار سول سروس کے مقابلہ جاتی امتحان میں بیٹھنا ہوگا جس میں برسوں سے نوکری کر رہے اساتذہ کتنے فیصد کا میاب ہوں گے اس کا اندازہ کوئی بھی لگا سکتا ہے۔ یہ ایسا امتیاز ہے کہ جس سے آئندہ تعلیمی نظام میں بہت سی قباحتیں پیدا ہونے کا امکان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے سے مامور اساتذہ اس نئے ضابطے کے خلاف ہیں اور لگاتار مظاہرے کرتے رہے ہیں۔ وہ حکومتِ وقت کی دھمکیوں سے بھی خوفزدہ نہیں ہوئے۔ بعض سیاسی پارٹیوں نے بھی ان کی باتوں کو غور سے سنا اور اب ان کی لڑائی میں کندھے سے کندھا ملا کر ان کے ساتھ ہیں۔ انھوں نے یقین دلایا ہے کہ انھیں فتحیابی ضرور ملے گی کیوں کہ وہ حق پر ہیں۔ اس سلسلے میں ان لوگوں نے گزشتہ دنوں عدلیہ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا تھا۔ انھیں امید تھی کہ عدالتِ عالیہ اس تقرری پر روک لگا دے گی مگر عدلیہ نے بعض وجوہ سے شنوائی کی تاریخ ماہ اگست کے آخری ہفتے میں رکھی ہے۔ اتفاق سے بہار سول سروس کمیشن نے بھی اہلیتی امتحان کے لئے اسی ہفتے کی دو تین تاریخیں مقرر کی ہیں۔
دراصل ان اساتذہ کو تقرری کے ضابطے پر کوئی اعتراض نہیں ہے وہ اسے حکومتِ بہار کا ایک مستحسن قدم سمجھتے ہیں۔ انھیں اعتراض صرف اس بات پر ہے کہ حکومت انھیں ریاستی ملازم کا درجہ کیوں نہیں دے رہی ہے۔ جبکہ ان کی لیاقت میں کوئی کمی نہیں ہے اور ان کے سابقہ حقوق حکومت پر واجب الادا بھی ہیں۔ انھوں نے برسوں ریاستی خدمات انجام دی ہیں اور ریاستی ملازم کا درجہ پانے کے لئے اپنا استحقاق ثابت کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اساتذہ کے ذریعے اس قسم کے مظاہروں سے سماج میں غلط پیغام جاتا ہے ۔حالاں کہ اپنا حق مانگنا کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔ اگر کسانوں نے متحد ہوکر کسان بل کے خلاف آندولن نہیں کیا ہوتا تو مودی سرکار کسان بل واپس نہیں لیتی۔ اساتذہ نے روزِ اول سے اپنا موقِف صاف طور پر بیان کیا ہے اور اس سلسلے میں وہ کسی خلط مبحث کے شکار نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ تقرری کے نئے ضابطے کے بالکل مخالف نہیں ہیں بلکہ اس کا خیر مقدم کرتے ہیں بشرطیکہ انھیں بھی بلا مشروط ریاستی ملازم کا درجہ دیا جائے۔ میرے خیال میں اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے۔ کیونکہ وہ اس کے اہل ہیں اور یہ ان کا جائز حق ہے۔ اور اگر انھیں حق سے محروم کیا جاتا ہے تو وہ پر امن طریقے سے احتجاج کرکے حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کراسکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ غافل رہے اور وقت پر اپنی لڑائی نہیں لڑی تو ان کی لڑائی کون لڑے گا۔ اپنے حق کے لئے لڑنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ بہار کے اساتذہ تو پہلے ہی سے مساوی حقوق کی لڑائی لڑتے آئے ہیں اور جب تک ان کو دوسرے اساتذہ کے مساوی حقوق نہیں دیئے جائیں گے وہ اپنے حق کی لڑائی لڑتے رہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS