سال میں کئی بار آتے ہیں بپرجوائے جیسے طوفان

0

سمندری طوفانوں کے جن علاقوں میں آنے کا ندیشہ رہتا ہے، وہاں دہشت اور افرا تفری کا ماحول رہتا ہے۔ لوگوں کو ان علاقوں سے دوسری جگہ منتقل کیا جا تا ہے۔ بستیاں ویران ہو جاتی ہیں۔ اس کے باوجود یہ خدشہ رہتا ہے کہ پتہ نہیں طوفان سے کیا تبا ہی آئے گی، عمار توں کو کتنا نقصان پہنچے گا، ایئر پورٹ، ریلوے اسٹیشن،بس اڈوں کو اگر طوفان نے تباہ کر دیا تواس کے اثرات لوگوں کی آمد و رفت اور تجارت پر پڑیں گے مگر گزرتے وقت کے ساتھ طوفان کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، دنیا بھر میں اوسطاً 86 طوفان ہر سال آتے ہیں۔ ان میں سے 47 طوفان اتنے شدید ہوتے ہیں کہ وہ ہری کین یا ٹا ئفون کہلاتے ہیں۔ ان میں بھی 20 گردابی طوفان نہایت شدید ہوتے ہیں اور سیفر- سمپسن ہری کین اسکیل پر ان کی پیمائش تیسرے زمرے میں کی جاتی ہے۔ یہ سوال بار بار اٹھتا ہے کہ کیا ان طوفانوں کے آنے میں گلوبل وارمنگ کا بھی کچھ رول ہے۔ اس سلسلے میں ’ناسا‘ نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی۔ اسے پڑھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ طوفانوں کی آمد میں گلوبل وارمنگ کے رول سے انکار کی گنجاش نہیں ہے۔ناسا کی رپورٹ کے مطابق، 1975سے 1989کے درمیان مشرقی بحرالکاہل کے بیسن میں 4 یا 5 زمرے کے 36 ہری کین آئے تھے لیکن 1990 سے 2004 کے درمیان اس طرح کے 49 طوفان آئے۔ مغربی بحرا لکاہل کے بیسن میں 1975 سے 1989 کے درمیان 85 تو 1990 سے 2004 کے درمیان 116 ہری کین آئے۔ شمالی اوقیانوس کے بیسن میں 1975 سے 1998 کے درمیان 16 تو 1990 سے 2004 کے درمیان 25 ہری کین آئے۔ جنوب مغربی بحر الکاہل میں 1975 سے 1989 کے درمیان 10 تو 1990 سے2004کے درمیان 22 ہری کین آئے۔ اسی طرح شمالی بحر ہند میں 1975 سے 1989 کے درمیان ایک ہری کین آیا تھا تو 1990 سے 2004 کے درمیان 7 ہری کین آئے جبکہ جنوبی بحر ہند میں 1975 سے 1989 کے درمیان 23 ہری کین آئے تھے تو 1990 سے 2004 کے درمیان 50 ہری کین آئے۔ متذکرہ ہری کین 4 یا 5 زمرے کے ہری کین تھے یعنی بے حد تباہ کن تھے۔ ان اعداد و شمارسے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ گزرتے دنوں کے ساتھ طوفانوں کی تعداد میں اضافہ ہواہے۔ یہ اضافہ شمالی بحر ہند میں بہت زیادہ ہوا ہے۔ جنوبی بحر ہند ہیں بھی دگنا سے زیادہ اضافہ ہواہے۔ جنوب مغربی بحرالکاہل میں بھی طوفانوں کی آمد میں دگنا ہی اضافہ ہوا ہے لیکن مشرقی بحر الکاہل، مغربی بحر الکاہل اور بحر اوقیانوس کے بیسن کی حالت بھی کچھ اچھی نہیں ہے۔ کم از کم ان اعداد و شمار کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ آنے والا وقت سمندری طوفان کے لحاظ سے اور زیادہ خطرناک ہوگا۔ انسانوں کو یا تو سمندری طوفانوں کو جھیلنے کی عادت ڈال لینی چا ہیے یعنی ان کی آمد کی خبر سن کر محفوظ مقامات تک جانے کی جدوجہد کرتے رہنا چا ہیے یا مستقل حل کے لیے گلوبل وارمنگ کو کم کرنے یا اس حد تک لانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ سمندری طوفان کے بننے کا خطرہ کم سے کم ہو جائے، کیونکہ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ خط استوا کے سمندروں کے پانی کا درجۂ حرارت اگر 26 ڈگری سیلسیئس سے زیا دہ ہوتا ہے تو پھر وہاں گردابی طوفانوں کے پیدا ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے اور اگر درجۂ حرارت 28 ڈگری سیلسیئس سے زیادہ ہو جائے تو پھر آنے والا طوفان بڑا شدید ہوتا ہے لیکن یہ سوال جواب طلب ہے کہ ترقی کے پیچھے بھاگ رہی دنیا کیا کبھی گلوبل وارمنگ کو کنٹرول کرنے کے لیے سنجیدہ ہو پائے گی، گلوبل وارمنگ کوکنٹرول کرنے کے لیے اپنی ترقی کی رفتار کو کم کرنے کے لیے تیار ہو پائے گی؟فی الوقت اس سلسلے میں کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے۔ یوکرین جنگ نے یہ اندیشہ پیدا کر دیا ہے کہ آنے والے وقت میں دنیا کے حالات اور بھی خراب ہوں گے، اور بھی جنگیں ہوں گی اور اگر یہ اندیشہ صحیح ثابت ہوا تو پھر گلوبل وارمنگ کم نہیں ہوگی بلکہ بڑھتی ہی جائے گی۔ اس وقت سمندر کیا تیور دکھائیں گے، اپنی طاقت کا احساس انسانوں کو کس طرح کرائیں گے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS