آج 23جون کو پٹنہ میں اپوزیشن پارٹیوں کی ایک بڑااجلاس ہونے جارہاہے جس میں تقریباً 20پارٹیاں شرکت کریں گی اور 2024کے لوک سبھا انتخابات اور اس سے قبل مختلف ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کی تیاریوں اور ایک جامع مربوط حکمت عملی تیار کرنے کا منصوبہ زیر غور آنے کی امید ہے۔ مگر قبل اس کے کہ یہ اپوزیشن اتحاد معرض وجود میں آتا کئی اہم اپوزیشن پارٹیوں نے اس سے اپنے آپ کو علیحدہ کرلیا ہے ۔ ان میں تازہ ترین اپوزیشن پارٹی بی ایس پی ہے جس کی لیڈر مایاوتی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس اتحاد میں شامل نہیں ہوں گی۔ اس سے قبل اڈیشہ کے وزیراعلیٰ عدم موجودگی کو لے کر سیاسی حلقوں میں قیاس آرائیاں لگائی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ اس اجلاس میں شرکت نہ کرنے والے اترپردیش ایک اور لیڈر راشٹریہ لوکدل کے صدر جینت چودھری شامل ہیں۔ اگرچہ جینت چودھری نے اس موقع پر اپنی غیر موجودگی کے لیے اپنی ذاتی مصروفیات اور خاندان میں ایک اہم تقریب کا ہونا بتایا ہے۔ مگر کئی حلقو ںمیں ان کی غیر موجودگی کو لے کر سوالات کھڑے ہورہے ہیں۔ مغربی یوپی کی ایک اہم سیاسی پارٹی اور کسانوں کے درمیان اچھا خاصا اثرورسوخ والی جماعت کا نہ ہونا کئی سوالوں کوجنم دیاہے۔ خیال رہے کہ اپوزیشن پارٹیاں کسانوں کے مسائل کو بہت شدت کے ساتھ اٹھانے کا منصوبہ رکھتے ہیں اور پچھلے دنوں دہلی میں پہلوانوں کی تحریک کولے کر کسانوں نے بھی غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ مغربی یوپی اور بطور مغربی یوپی میں کسانوں کے مسائل کو اہمیت کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ قارئین کو کسانو ںکے قوانین کے تمام امور یاد ہوں گے ۔ کسانو ں کی تحریک اور اس معاملہ پر اپوزیشن کے اتحاد اور مخالفت کی وجہ سے مرکز کی بی جے پی سرکار کو تینوں زراعتی قوانین کو واپس لینا پڑا تھا۔مگر اس کے باوجود مغربی یوپی میں 2019میں بی جے پی کا شاندار طریقہ سے الیکشن جیتنا بڑا معنی خیز ہے۔ اسی لیے جینت چودھری پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہے ہیں۔ لوک سبھا کے 2024کے اس معاملہ کو ایک بار پھر اہمیت مل سکتی ہے کیونکہ کسان جماعتیں اور تنظیمیں کئی اہم فیصلوں پر ایم ایس پی کے معاملہ پر تحریک چلا رہی ہیں۔ بہر کیف آج پٹنہ میں ہونے والی اجلاس میں کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی صدر ، ملکا ارجن کھڑگے، مغربی بنگال کے وزیراعلیٰ ممتا بنرجی، تامل ناڈو کے وزیراعلیٰ اور ڈی ایم کے لیڈر ایم کے اسٹالن ، مہاراشٹر کے چانکیا کہے جانے والے این سی پی کے صدر شرد پوار ، جھارکھنڈ کے وزیراعلیٰ اور جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے صدر ہیمنت سورین ، جموں وکشمیر ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی کی شرکت متوقع ہے۔ پٹنہ میں اپوزیشن پارٹیوں کے بڑے اجلاس سے قبل آج وزیراعلیٰ دہلی اروندکجریوال نے کانگریس کو وارننگ دی ہے کہ اگر اس نے دہلی میں مرکز کے آرڈیننس کے معاملہ پر اس کو حمایت نہیں دی تو وہ اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔ اس پر سابق ایم پی سندیپ دکشت نے چٹکی لیتے ہوئے کہاہے کہ آپ شرکت نہ کرنے کا بہانہ تلاش کررہے ہوں۔ آپ کو کوئی مس نہیں کرے گا۔ ان متوقع شرکاء میں ایک اہم نام عام آدمی پارٹی کے کنوینر اراور دہلی کے وزیراعلیٰ اروندکجریوال اور عام پارٹی کے پنجاب کے وزیراعلیٰ بھگونت سنگھ مان کی شمولیت اہم قرار دی جا رہی ہے۔ خیال رہے کہ دہلی اور پنجاب میں عام آدمی پارٹی اور کانگریس میں زبردست رقابت ہے اور دہلی میں اختیارات کی تقسیم کو لے کر جو آرڈیننس پچھلے دنوں سپریم کورٹ کے آرڈر کے تناظر میں جاری کیاگیا تھا اس پر کانگریس کا موقف دیگر اپوزیشن پارٹیوں سے چنداں مختلف ہے۔ ظاہرہے کہ اس اختلافات کے پس پشت دونوں پارٹیوں کی پرانی چپقلش ہے۔ اگر آج کی میٹنگ میں دونوں ایک اسٹیج پر آنا اپوزیشن اتحاد کے لیے خوش آئند ہوسکتا ہے۔ جہاں تک اڈیشہ کا تعلق ہے۔ وزیراعلیٰ نوین پٹنائک کے رویے کو لے کر کسی بھی قسم کے عمل کو غیر متوقع قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ وہ مرکز میں مقتدر کسی بھی جماعت سے پنگا نہیں لیتے ہیں اور الگ سیاسی نقطۂ نظر حامل نوین پٹنائک جو کئی میقات سے وزیراعلیٰ کے عہدے پر بڑے مستحکم انداز سے فائز ہیں۔ بی جے پی کے ساتھ کوئی اختلاف رائے عوامی سطح کا ظاہر نہیں کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ بجرنگ دل اور اس ہم خیال پارٹیوں کے طور طریقوں پر 2007کے کندھمال قتل عام پر شدید اختلافات رکھتے ہیں مگر وہ پٹنائک کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ غیر بھاجپائی ہیں مگر بی جے پی مخالف نہیں ہیں۔
مغربی بنگال کے لیے کئی لیڈر جن میں خود وزیراعلیٰ ممتا بنرجی اوران کے معتمد ڈیرک اوبرائن ان کو اس اتحاد میں شامل کرنے کی کوشش کرچکے ہیں۔ مگران کو ابھی تک کامیابی نہیں ملی ہے۔ جس پر چڑھ کر ڈیرک اوبرائین نے تبصرہ کیا ہے کہ پٹنائک فاشسٹ لوگوں کے ساتھ ہیں اور وہ ان آفیشیلی بی جے پی کے ساتھ ہیں۔ انہوںنے کہاکہ پٹنائک منی پور جیسے معاملات پر بی جے پی کے خلاف ایک لفظ کہنے کو تیار نہیں ہے۔ جبکہ وہاں پر 250چرچوں کو جلا دیا گیا ہے۔ اس بڑے اجلاس میں یوپی میں بڑی اپوزیشن پارٹیوں سماجوادی پارٹی ، مایاوتی کی بی ایس پی ، آر ایل ڈی اور کانگریس کے نقطۂ نظر میں شدید اختلافات کو دیکھتے ہوئے ہندوستان کی سب سے بڑی اور سیاسی طور پر سب سے زیادہ حساس ریاست اترپردیش جہاں سے 80سیٹیں آتی ہیں۔ اتحاد نہ ہونا تشویش کا باعث ہے۔ مایاوتی آج ٹوئٹ کرکے کہا ہے کہ اپوزیشن ہاتھ ملا رہی ہے مگر ان کے دل نہیں مل رہا ہے۔ بہار میں بھی حال ہی میں ہندوستانی عوامی مورچہ کا نتیش کمار جے ڈی یو اتحاد’مہاگٹھ بندھن‘ سے قطع تعلق کرلینا اور بی جے پی کے ساتھ مل جانا تشویش کا سبب ہوسکتا ہے۔ ہندوستانی عوامی مورچہ کے لیڈر اور سابق وزیراعلیٰ جیتن رام مانجھی نے وزیراعلیٰ داخلہ امت شاہ سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد ہی جیتن رام مانجھی نے یوپی کے حکمراں اتحاد سے کنارہ کرلیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بہار جہاں پر جلد ہی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ وہاں بی جے پی کے خلاف اپوزیشن کا اتحاد کس حد تک متحد رہتا ہے۔ خاص طور پر لوک سبھا کی ان 303سیٹوں پر جہاں 2019بی جے پی جیتی ہے وہاں متحدہ امیدوارکھڑا کیا جاسکے گا یانہیں۔
rvr
اپوزیشن اتحاد- کتنی حقیقت کتنا فسانہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS