ڈاکٹرمحمد اقتدار حسین فاروقی
سدر کا نام قرآن پاک میں چار مرتبہ لیا گیا ہے۔ ایک بار سورۃ سبا میں، دو مرتبہ سورۃ النجم میںاور ایک جگہ سور ۃ الواقعۃ میں ان چاروں حوالوں میں سے صرف ایک حوالہ (سورۃ سبا) کا تعلق اس سر زمین سے ہے دو کا حوالہ آسمانوں کی سرحد سے متعلق ہے، جب کہ ایک کا ذکر جنت کے نباتات کے بیان میں آیا ہے۔ تفصیل یوں ہے:
(1) سورۃ سبا XXXIV آیت نمبر15 تا 16- ترجمہ : سبا کے لئے ان کے اپنے مسکن ہی میںایک نشانی موجود تھی، دو باغ دائیںاور بائیں، کھائو اپنے رب کادیا ہوا رزق اور شکر بجا لائو اس کا،ملک ہے عمدہ وپاکیزہ اور پروردگار ہے بخشش فرمانے والا، مگر وہ منھ موڑ گئے۔ آخر ہم نے ان پر بند توڑ کر سیلاب بھیج دیا اور ان کے پچھلے دو باغوں کی جگہ دو اور باغ انہیں دئے جن میں کڑوے کسیلے پھل (خمط) اور جھائو (اثل) کے درخت تھے اور کچھ تھوڑی سی بیریاں (سدر)۔
(2)- سورۃ النجم LIII آیت نمبر 7تا18-ترجمہ : وہ سامنے کھڑا ہوا جبکہ وہ بالائی افق پر تھا پھر قریب آیا اور اوپر معلق ہوگیا،یہاں تک کہ دوکمانوں کے برابر آیا اس سے کچھ کم فاصلہ رہ گیا، تب اس نے اللہ کے بندہ کووحی پہنچائی جو وحی بھی اسے پہنچانی تھی،نظر نے جوکچھ دیکھا دل نے اس میں جھوٹ نہ ملایا، اب کیاتم اس چیزپر اس سے جھگڑتے ہو جسے وہ آنکھوں سے دیکھتا ہے اور ایک مرتبہ پھر اس نے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس اس کو اترتے دیکھا جہاں پاس ہی جنت الماویٰ ہے اس وقت سدرہ پر چھا رہاتھا جوکچھ کہ چھا رہا تھا، نہ چوندھیائی نہ حد سے متجاوز ہوئی اور اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔
(3) سورۃ الواقعۃ LVI آیت نمبر 27تا 34- ترجمہ : اوردائیں بازو والے، دائیں بازو والوں کی(خوشی نصیبی) کاکیا کہنا وہ بے خار بیریوں (سدر) اور تہ بہ تہ چڑھے ہوئے کیلوں اور دور تک پھیلی ہوئی چھائوں اور ہر دم رواں دواں پانی اور کبھی نہ ختم ہونے والے اور بے روک ٹوک ملنے والے بکثرت پھلوں اور اونچی نشست گاہوں میں ہوں گے۔
اردواور انگریزی کے مفسرین قرآن نے سدر کو زیادہ تر عرب کی بیری کادرخت بتایا ہے۔ابن کثیر تحریر فرماتی ہیں کہ اس در کے سدر (Lote Tree) کا درخت کانٹے دار ہے۔ آخرت میں اس کے برعکس ہے۔ اس میں کانٹے نہیں ہوتے ہیں۔ بخاری اور مسلم میں سدرۃ المنتہا (ساتویں آسمان کا درخت) کے بارے میں یوں بیان کیا گیا ہے: اس کے پتے ہاتھیوں کے کانوں کی طرح اور اس کے پھل حجر کی مٹی کے برتنوں کے مشابہ تھے۔ الخطابی نے کہا کہ “حجر کے گھڑے کی طرح” کا مطلب یہ ہے کہ وہ گھڑے کی طرح بڑے تھے۔ یہ وہ چیز ہے جو پہلے سننے والوں کو معلوم تھی، اسی لیے یہ تشبیہ استعمال کی گئی۔ حجر ایک جگہ کا نام ہے۔ عبدالرحمن بن ناصر السعدی کا دعویٰ ہے کہ سدرۃ المنتہ ساتویں آسمان سے باہر ایک بہت بڑا درخت ہے۔
مولانا شبیر احمد عثمانی نے سورۃ النجم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھاہے : ’’کہ سدرۃ المنتہیٰ کے بیری کے درخت کو دنیا کی بیریوں پر قیاس نہ کیاجائے، اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ کس طرح کی بیری ہوگی‘‘۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ : ’’جو اعمال وغیرہ اِدھر سے چڑھتے ہیں اور جو احکام وغیرہ ادھر سے اترتے ہیں سب کامنتہیٰ وہی ہے، مجموعۂ روایات سے یوں سمجھ میںآتا ہے کہ اس کی جڑ چھٹے آسمان میںاور پھیلائو ساتویں آسمان میں ہوگا۔ واللہ اعلم‘‘۔
مولانا عبدالماجد دریابادی نے تحریر فرمایا ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ اس عالم اور اس عالم کے درمیان ایک نقطۂ اتصال ہے جہاں سے ملائکہ عالمِ بالا کے احکام زمین پر لاتے ہیں اور یہاں کے اعمال مسعود وہاں تک پہنچاتے ہیں۔ مولانا موصوف کے خیال میں آسمانوں کے اوپر درخت اور بیری کے درخت کوتسلیم کرنے میںکوئی دشواری نہ ہونی چاہئے کیونکہ دنیا کے نباتات سمیت نہ جانے کتنی چیزوں کاجنت میں ہونا مسلم ہے البتہ جنت اور آسمان کی ہر نعمت دنیا کی نعمتوں سے مشابہ توہوگی لیکن پھر بھی بہت کچھ مختلف ہوگی، سوۃ الواقعہ کی تفسیر بیان فرماتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں کہ بعض مفسرین کی رائے میں سدر سے مراد بیری نہیں ہے بلکہ ایک اورعمدہ درخت ہے‘‘۔
تفسیرحقانی میں سِدر کی بابت تحریر کیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کو بارِ دیگر سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا اور سدرہ جوجنت الماویٰ میں ہے وہ کوئی دنیا کادرخت نہیں ہے بلکہ صوفیائے کرام کے نزدیک سدر سے عبارت ہے روحِ اعظم سے کہ جس کے اوپر کوئی تعین اور مرتبہ نہیں ہے۔ مولاناحقانی کے نظریہ میں جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے ایک درخت پر تجلّی ہوئی تھی اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت الماویٰ میں اس درخت (سدر) کی صورت میں تجلی ہوئی جو تمام ارواح کی جڑ ہے۔
لغات القرآن میں سدرۃ المنتہیٰ کوانسانی فہم وادراک کی آخری سرحد پرایک درخت کہا گیا ہے ’’جہاں آنحضرتؐ کو فیوض ربانی اور نعمائے صمدانی سے مخصوص فرمایا گیا‘‘۔
جناب غلام احمدنے سدرۃ المنتہیٰ کو وہ مقام بتایا ہے جہاں تحیر اپنی انتہا تک پہنچ جائے اسی لئے اس کی تشریح یوں کی گئی ہے کہ ’’جب سدرہ پر چھارہا تھا جو کچھ چھار ہا تھا‘‘ یعنی نبی کریم ؐکے علاوہ کسی کے لئے ممکن نہیں کہ جان سکے کہ وہ کیا کیفیت تھی، گویا کہ نظر کے لئے تحیر کی فراوانی تھی، جس نے ساری فضا کو ڈھانپ رکھاتھا۔
مولانا مودودی (71) سورۃ النجم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ : ’’سدرۃ المنتہیٰ وہ مقام ہے جہاں حضرت جبریل علیہ السلام کی آنحضرت ؐسے دوسری ملاقات ہوئی، ہمارے لئے یہ جاننا مشکل ہے کہ اس عالمِ مادی کی آخری سرحد پر وہ بیری کادرخت کیسا ہے اور اس کی حقیقی نوعیت وکیفیت کیا ہے، بہر حال وہ کوئی ایسی ہی چیز ہے جس کے لئے انسانی زبان میں سدرہ سے،زیادہ موزوں لفظ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور کوئی نہ تھا‘‘۔علامہ عبداللہ یوسف (1) نے سدرہ کے انگریزی معنیLote – Tree کے دئے ہیں اور لکھا ہے کہ نباتاتی اعتبار سے یہ Ziziphus کی جنس کا پودہ ہے اورعرب میں عام طور سے جنگلی وغیرجنگلی ملتا ہے۔ (نوٹ نمبر 3814، اور5092) جناب پکٹہال نے سدرۃ المنتہیٰ کا ترجمہ یوں کیا ہے :The utmostof Lote-tree boundry
یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ مفسرین کی اکثریت نے سدرہ کوبیری ضرور بیان کیا ہے لیکن عام طور سے سورۃ النجم کاترجمہ کرتے ہوئے سدرۃ المنتہیٰ کو سدرۃ المنتہیٰ ہی لکھا ہے، مثلاً جناب دوائود نے اپنے انگریزی ترجمہ میں سدرۃ المنتہیٰ کو Sidra -treeلکھا ہے اور ’’سدرمخضود‘‘ کے معنی Sidrahs Thornless کے دئے ہیں۔
سدر کاتذکرہ متعدد احادیث میں بھی ملتاہے ۔ ابودائود کے کتاب الادب کے تحت ’’باب فی قطع السدر‘‘ میںایک حدیث بیان کی گئی ہے جس میںتحریر کیاگیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص سدر کادرخت کاٹے گا اللہ اس کے سر کوجہنم میںاوندھا گرادے گا۔ ایک دوسری حدیث میں سدر کو لکڑی کے دروازے اور چوکھٹوں کو بنانا ایک ایسی بدعت کہاگیا ہے جس کولوگ عراق سے لائے تھے اور اس بدعت کے ضمن میں ہشام بن عروہ نے فرمایا کہ : ’’میںنے سنا کہ مکّہ میں کوئی کہتا تھاکہ لعنت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سدر کے درخت کاٹنے والوں پر‘‘۔
قرآنی آیات کی روشنی میں سدر کی حقیقت اور کیفیت سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان ارشادات کے مقاصد اور مفہوم کو ذہن میں رکھا جائے، مثلاً یہ بات بہت واضح ہے کہ چاروں حوالے سدر کے درخت کے ہیں، اِن میں ایک بھی اشارہ سدر کے پھل (نبق) کی جانب نہیں ہے۔مزید برآن کسی بھی آیت میں سدر کا ذکر دوسرے پھل دارپودوں کے ساتھ نہیں ہوا ہے یعنی کھجور، انگور، زیتون۔ انار اورانجیر کاتذکرہ توایک دوسرے کے ساتھ کیاگیا ہے لیکن ان میں سے کسی کا ذکر سدر کی ساتھ نہیں ملتا ہے گویا کہ سدر کے درخت کی اہمیت اور اس کی شان وشوکت کابیان ہوا ہے لیکن اس کے ثمر کی خوبی یا نعمت کی بات نہیں کہی گئی ہے۔مثلاً سورۃ النجم اور سورۃ الواقعہ میں سدرہ کا ذکر کرکے حسین، دلکش اور تحیر میں ڈالنے والے مناظر کا احساس دلایا گیا ہے جب کہ سورۃسبا میں سدر کو ان تین اقسام کے مضبوط درختوں (اثل، خمط، سدر) میں سے ایک بتایاگیا ہے جو سیلاب کی زد میں آکر بھی اپنی جڑوں پر کھڑے رہے حالانکہ باقی سارے دورویہ باغات تہس نہس ہوگئے۔عرب میں بیری کی تین ذاتیں Species عام طور سے پائی جاتی ہیں۔ ایک تووہ بیری جو ہندوستان میں بھی پایا جاتا ہے اور جس کو نباتاتی اعتبار سے نام دیاگیا ہے، اس کے پھل کوانگریزی میں jujubeبھی کہتے ہیں۔ دوسرا وہ بیری جو عرب کے ریگستانی علاقہ میںنسبتاً خوبصورت پودہ سمجھا جاتا ہے گویا کہ یہ ایک چھوٹا درخت ہی ہوتا ہے۔بیری کی یہ تینوں ذاتین خاردار ہوتی ہیںاورکھانے والے پھل کا ذریعہ ہیںگو کہ ان پھلوں کامقابلہ، خصوصیات اور مزہ کے اعتبار سے،ان پھلوں سے نہیں کیاجاسکتا جن کا ذکر قرآن کریم میں اللہ کی جانب سے دی گئی نعمتوں کے طور پر ہوا ہے یعنی کھجور، انار، انگور، زیتون اور انجیر۔عرب میں پائے جانے والی بیری یعنی Ziziphus کی تینوں (Species) خار دار جھاڑیاں ہوتی ہیں جن کو چھوٹے درخت بھی کہاجاتا ہے۔(50) Paxtonنے لکھا ہے کہ بیری کی جنس (Genus) کے نام Ziziphus کا منبع عربی زبان کا لفظ الزیزوفون ہے جس کے معنی جھاڑی دار درخت کے ہیں۔بیری کے درخت کی لکڑی ایندھن کے کام توآتی ہے لیکن عمارت یا فرنیچر بنانے کے لئے موزوں نہیں سمجھی جاتی ہے۔ تینوں اقسام کی بیری کے پھل خوش ذائقہ توہوتے ہیں لیکن ان کاشمار بہترین پھلوں میں نہیں کیا جاتا ہے لہٰذا تجارتی طور پر بیری کے باغات خال خال ہی ملتے ہیں۔ ان درختوں کو کانٹوں کی بنا پر باڑھ کے طور پر تو لگایا جاسکتا ہے لیکن کسی علاقہ کوخوش منظر بنانے کے لئے اس کا لگایاجانامناسب نہیںسمجھا جاتا ہے۔ یہ درخت اپنے تنوں یا جڑوں کی بنا پر بہت مضبوط درخت بھی نہیں سمجھے جاسکتے ہیں۔ ان کی شاخیں اور پتیاں سایہ دار بھی نہیں کہلائی جاسکتیں۔(جاری)
[email protected]
قرآنی سدرۃ- ایک سائنسی جائزہ: ڈاکٹرمحمد اقتدار حسین فاروقی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS