پروفیسرصبیحہ زبیر
جب حج بیت اللہ کا ارادہ کیا تو ہر وقت، ہرلمحہ یہی خیال رہا کہ وہ خانہ کعبہ جسے اب تک تصویروں اور ٹی وی پر دیکھا کرتی تھی، اب اپنی گنہگار نظروں سے براہ راست دیکھ سکوں گی۔ اللہ رب العزت کا ہر نماز میں شکر ادا کرتی کہ یا اللہ میں اتنی خوش نصیب ہوں کہ تیرے گھر کے دیدار کو آ رہی ہوں۔ بچوں سے ایک ماہ کی جدائی تکلیف دہ تھی۔ لیکن زیارت بیت اللہ کی خوشی اس تکلیف پر حاوی تھی۔ ذہن میں صرف ایک ہی لفظ کی گونج تھی ، دعا ، دعا۔ اٹھتے، بیٹھتے سوتے جاگتے بس یہی ایک خیال رہتا کہ خانہ کعبہ جا کر دعا مانگنا ہے۔ کعبتہ اللہ پرپہلی نظر میں جو دعا مانگی جاتی ہے وہ فورا قبول ہوتی ہے۔ کتنی ہی آوازیں کانوں میں گونج رہی تھیں۔ انتظار کی گھڑیاں ختم ہو ئیں۔
سفر خاصہ لمبا تھا، لیکن انتہائے شوق نے طوالت کا احساس ہونے نہیں دیا۔ دل سوائے بندگی کے ہر قسم کے جذبے سے عاری تھا۔ مدتوں کی خواہش ، رگ و پے میں سمائی ہوئی تھی۔ وہ مبارک سرزمین جس کے نام پر دھڑکنیں تیز ہو جاتی تھیں۔ مجھے تو صرف اس مقام تک پہنچنا تھا۔ بس اللہ سے دعا مانگی تھی خانہ کعبہ کا دیدار کرا دے، اللہ تو رحیم و کریم ہے۔ مکہ معظمہ کی مقدس سر زمین پر قدم رکھتے ہی وقت کا آہستہ گزرنا، ناگوار نہیں لگا۔ شہر مکہ جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آباد کیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد یہیں پھلی پھولی۔ سرکار دو عالم اسی شہر میں پیدا ہوئے۔
خانہ کعبہ کی خوبصورتی نے لبوں پر قفل لگا دیا تھا۔ خانہ کعبہ، سیاہ غلاف سے ڈھکا ہوا، اپنی پوری عظمت اور جاہ وجلال کے ساتھ، پر شکوہ اور پر وقار حسین، انوکھا، پیارا۔ یا اللہ یہ تیرا گھر ہے، ساری دنیا سے اعلیٰ ، ارفع اور وسیع ، یہاں تیرے نیک بندے، گنہگار بندے، سیاہ دل بندے، سنگدل بندے، رحم دل بندے، رونے کے لیے چلے آتے ہیں۔ میرے دل نے کہا ، مانگ، آنکھوں نے کہا مانگ، ہاتھوں نے کہا، مانگ، جسم سراپا سائل بن گیا، دل سے آوازیں آنے لگیں، آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے ، ہاتھ دست دعا بن کر بارگاہ الٰہی میں اٹھ گئے، پھر ہوش نہ رہا کہ کیا دعا مانگی۔ دل اس کی چوکھٹ پر نثار تھا۔ دماغ سے صدائیں بلند ہورہی تھیں کہ مکان ہے۔ لیکن مکین کہاں ہے؟ جب ہم کسی انسانی گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو فورا اندر سے آواز آتی ہے، کون ہے؟ دل نے جواب دیا، کم عقل، یہ کسی انسان کا گھر نہیں، یہ تو اللہ کا گھر ہے، اس گھر کا دروازہ ایک بار نہیں ، بار بار، ہزار بار کھٹکھٹانے کی ضرورت ہے۔ تو پکارے جابس پکارے جا، وہ سن رہا ہے، وہ دیکھ رہا ہے، تو ایک ہی سوالی نہیں، اس کے در کے بے شمار سوالی ہیں، ہر رنگ، ہر نسل کے، ہر قوم، ہر ملت کے، مرد و زن، بچے بوڑھے، نوجوان، مریض معذور، بے بس، لا چار سب اسے پکار رہے ہیں، رور ہے ہیں ، سب کی محبت آواز بن گئی ہے۔ زبانیں الگ ہیں ، پکار ایک ہے، چہرے جدا ہیں، آواز ایک ہے، سب دوڑ رہے ہیں۔ بھاگ رہے ہیں، تڑپ رہے ہیں، لپک رہے ہیں، یہاں عبادت کا کوئی دستور نہیں، یہاں عشق رسموں سے ماورا ہے۔ محبت سلیقے سے مبرا، یہاں عبادت بے خودی چاہتی ہے، بے ہوشی چاہتی ہے۔
بے خودی میں جس نے چاہا جس طرف سر رکھ دیا
بے خودی میں سب بجا ہے جس طرف سجدہ کریں
عالم بے خودی سے باہر آ کر جب خانہ کعبہ کے چاروں طرف نظریں دوڑائیں تو روشنی ہی روشنی نظر آئی۔ رات میں دن کا سماں محسوس ہونے لگا، کہیں نمازی نوافل میں مشغول ہیں، کہیں عشاق احرام باندھے عمرہ کے لیے آرہے ہیں۔ طواف کرنے والوں کا ہجوم ہے۔ آب زمزم پر عقیدت مند ٹوٹے پڑے ہیں۔ دالانوں میں لوگ بیٹھے تلاوت کر رہے ہیں۔ کیسا روح پرور منظر ہے۔ میناروں کی روشنی اور افق کی رنگ آمیزی، ہر چیز دل کھینچ لیتی ہے۔ خانہ کعبہ کا درواز و عظیم، میزاب رحمت ، باب السلام، مقام ابراہیم اب صاف نظر آ رہے تھے۔
مقام ابراہیم وہ مقدس جگہ ہے جہاں طواف کے بعد نماز ادا کی جاتی ہے۔ یہ ایک پتھر ہے، جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی دیواریں اٹھائی تھیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس پتھر پر کھڑے ہو کر لوگوں کو حج کا پیغام دیا تھا۔ اس کا رنگ سرخی مائل سفید ہے، جس پر سیاہ رنگ کی دھاریاں ہیں۔ سطح پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاؤں کے گہرے نشان ہیں۔ اب اس مقام کو چاروں طرف سے سنہری جالیوں سے محفوظ کر دیا گیا ہے۔ خانہ کعبہ کے درواز ے حطیم کے بائیں طرف حجر اسود ہے۔ یہ سیاہ پتھر چاندی کے فریم میں کسا ہوا ہے۔ یہ جنت کا ایک معتبر پتھر ہے۔ اس پتھر کو بوسہ دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی بہت اونچی بارگاہ کی چوکھٹ کو بوسہ دینا ہے۔ حطیم اور حجر اسود کے درمیان دیوار کا جو حصہ ہے اسے ملتزم کہتے ہیں یہ بھی دعاؤں کی قبولیت کا ایک مقام ہے۔
یہاں چمٹ کر اور رو روکر دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ مسجد حرام میں لوگوں کا جم غفیر تھا۔ لیکن عقیدت اور محبت نے کسی کی پروانہ کی۔ حجر اسود کی جانب نگاہ کر کے، ہاتھوں کے اشارے سے بوسہ دیتے ہوئے ، سبحان اللہ اللہ اکبر کہہ کر عمرہ کا طواف شروع کیا۔(اے ہمارے رب ہمیںدنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی اور آگ کے عذاب سے بچا) کتنی پر اثر اور صحیح دعا ہے۔ آہستہ آہستہ پہلا چکر ، دوسرا، تیسرا، چوتھا ، پانچواں، چھٹا اور ساتواں چکر پورا کیا۔ ہر چکر میں جتنی دعائیں یاد تھیں مانگیں۔ طواف ہو چکا۔ لیکن اضطراب اور بے چینی ختم نہیں ہوئی۔ سیاہ غلاف کے پیچھے آخر کیا ہے؟ اے پردہ نشیں ذرا باہر آجا، اپنے عقیدت مندوں کا حال دیکھ ، ہمارے آنسو پونچھ ، ہماری دلداری کر ، ہم امید و نا امید کے دوراہے پر کھڑے ہیں۔ یاس اور مایوسی نے ہمیں گھیر رکھا ہے۔ ہمیں اعتماد اور یقین کی بھیک عطا کر دے۔ آمین صد ہزار آمین! مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز کی ادائیگی کسی آزمائش سے کم نہ تھی۔ لوگوں کے ہجوم کے درمیان نماز ادا کی۔ زمزم کی چاشنی سے سیراب ہو کر سعی کے لیے صفا کی جانب چل پڑے۔ یہ صفا اور مروہ خانہ کعبہ کے مشرقی جنوبی جانب دو چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں ہیں ۔ ان دونوں پہاڑوں کے درمیان سات چکر لگانا ارکان حج میں سے ہے۔ عمرہ بھی بنا سعی کے مکمل نہیں ہوتا۔ سعی کا راستہ تو لمبا ہے لیکن تھکاوٹ بالکل نہیں ہوتی ۔ یہاں بھی انسانوں کا ہجوم ہے۔ ہر طرف سر ہی سر نظر آتے ہیں۔ یہ ہجوم دن اور رات کے کسی بھی لمحے نہیں گھٹتا۔ بلکہ بڑھتا ہی جاتا ہے۔ یہاں محبت کی ایک اور رسم ادا ہوئی ۔ حضرت بی بی ہاجرہ رضی اللہ عنہا اپنے لخت جگر کی محبت میں ان پہاڑیوں کے درمیان دیوانہ وار بھاگی تھیں ۔ اللہ تعالی نے ماں کی محبت کے عوض چشمہ محبت تا قیامت جاری کروا دیا۔ مولا تیری شان ارفع ۔ تیری قدرت اعلیٰ ۔ اب عمرہ ہو چکا وقت کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ اچانک اللہ اکبر، اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوئیں۔ فجر کا وقت ، حرم شریف میں پہلی اذان ، مؤذن کی سحر انگیز آواز ، صبح کا سہانا وقت سپیدہ سحر کے آثار کا آغاز ، حرم کے درو دیوار تجلیوں میں جھلملائے ہوئے اور بیت اللہ کی عظمت نشان دیواروں پر سیاہ غلاف کے سکوت کا پر و قار منظر ، جنت نگاہ ، فردوس گوش کا سچ سچ سماں ۔
اللہ اکبر کی صدانے اتحاد و مساوات کی صفیں بچھا دیں اور کل عالم کو بتا دیا۔
اللہ ایک ہے، مسلمان ایک ہیں، ان کا ایمان بھی ایک ہے، قرآن بھی ایک اور رسول محمدؐ بھی ایک، حرم بھی ایک کشادہ اور وسیع وعریض۔ لیکن بندے اتنے زیادہ ہیں کہ جگہ پھر بھی تنگ، یہ تنگی بھی کتنی پر لطف ہے۔ ہر بندے کی خواہش ہے کہ اللہ کا قرب مل جائے۔ اللہ کے قرب کی خواہش نے جگہ تنگ کر دی۔ لیکن سب مؤدب اور مہذب ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ سب پر امید ہیں۔ جگہ نہ ملنے پر چہرے پر بے اطمینانی کے آثار ضرور ہیں لیکن اس بے اطمینانی میں سکون نظر آتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہاں اطمینان کا تبرک تقسیم ہوتا ہے۔ عبادت کا کتنادل پذیر انداز ہے۔ رکوع میں اللہ سجدے میں اللہ ، قیام میں اللہ ،طواف میں اللہ، ہر طرف، ہر جگہ اللہ ہی اللہ، مکہ معظمہ میں چار دن قیام کے بعد مدینہ منورہ کو روانگی تھی۔ معلم کتاب حکمت، حضرت محمدؐ کے روضہ مبارک کی زیارت مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ، سفر لمبا نہیں، لیکن شوق دیدار نے بے چین کر رکھا ہے۔
بس جیسے ہی مدینہ منورہ کی حدود میں داخل ہوئی دل نے گواہی دی یہ وہ سرزمین ہے جہاں کفار مکہ کے ظلم سے تنگ آکر محبوب خدا نے ہجرت کی تھی۔ یہ اللہ کے محبوب کی مسند ہے، یہ مقام مسلمانان عالم کے دل کی ہر منزل سے اونچا ہے، بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔ یقینا اللہ کا ذکر اگر عبادت ہے تو اللہ کے حبیب کا ذکر بھی عبادت ہے۔ تمام ضروریات سے فارغ ہوتے ہی مسجد نبوی جا پہنچے۔ عالیشان اور پر شکوہ مسجد نبوی کے شاندار گنبد ایسے نظر آرہے تھے جیسے محبوب خدا کے محافظ سر جھکائے کھڑے ہیں۔ روضہ مبارک پر حاضری دینی ہے۔ خدمت اقدس میں سلام عرض کرنا اور بہتوں کے سلام پہنچانا ہے۔ لیکن کب ؟ جب بلاوا آئیگا۔ یہاں عورتوں اور مردوں کے لیے زیارت کے الگ الگ اوقات ہیں۔ گنبد خضری کی زیارت جہاں عالم کے نجات دہندہ آرام فرما ہیں۔ مسجد نبوی کے احاطے میں جنت البقیع ہے۔ یہ مدینہ منورہ کا وہ وسیع وعریض قبرستان ہے جہاں حضرت فاطمۃ الزہرا ، حضرت عثمان غنی کے ساتھ ہزار ہا صحابہ کرام و تابعین مدفون ہیں ۔ روضہ اطہر کے قریب ریاض الجنۃ ہے۔ یہ حجرہ عائشہ اور منبر رسول کا درمیانی حصہ ہے۔ جسے جنت کا خاص حصہ کہا جاتا ہے۔ یہاں نماز پڑھنا باعث فضیلت ہے۔ روضہ اقدس کی زیارت کے لیے دن رات ہزار ہاعاشقین کا مجمع لگا رہتا ہے۔روضہ مبارک بھی چاروں طرف سے جدید طریقے سے چھپا دیا گیا ہے۔ صرف آپ باہر سے سبز گنبد دیکھ سکتے ہیں۔ عشق رسول میں یہی ایک جھلک کافی تھی۔ میں نے بھی اسے غنیمت جانا۔ بارگاہ محمدی میں نہایت ہی عقیدت و احترام کے ساتھ اپنا سلام اور اپنے عزیز و اقارب کا سلام پہنچایا، نذرانہ درود پیش کیا۔ ریاض الجنۃ میں بہت مشکل سے دوگانہ نماز ادا کی۔
روضہ اقدس کے علاوہ مسجد نبوی کی اہمیت یہاں کی اذان اور نمازوں میں ہے۔ یہاں کی اذان سن کر ایسا لگتا ہے جیسے موذن نے مردہ جسموں میں زندگی کی نئی روح پھونک دی ہو۔ کبھی کسی نے شب کی تاریکی کو چیر کر آمد سحر کی نوید دینے والا یہ الو ہی نغمہ سنا ہے، اگر نہیں تو وہ مسجد نبوی کے گنبدوں سے ابھرنے والی فجر کی اذان سنے، یہ اذان نہیں نور کا چشمہ ہے جو گنبد خضری سے براہ راست آسمان کی وسعتوں کو چیرتا ہوا انسانی سماعتوں سے ٹکراتا ہے اور سوئے ہوئے نفس کو بیدار کرتا ہے۔ اٹھو، جاگو، بیدار ہو جا کہ نماز نیند سے بہتر ہے۔ مجھے بار بار وہ قول یاد آیا نماز پڑھو اس سے پہلے کہ تمہاری نماز پڑھی جائے اتنی پر سوز اذاں جو کاہلی کے پیرہن کو بھی چاک کر دے۔
خانہ کعبہ سے واپسی کے بعد بھی انوار بیت اللہ ہر وقت ، ہر لمحہ نظروں کے سامنے ہے۔ سچ ہے اللہ تعالی نے ہر فضیلت اس زمین کو عطا کی ہے۔ اللہ کے گھر کے گرد اس کے عاشقوں کا یہ حلقہ، ہر وقت مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جائے گا۔ انسان صدیوں سے دیکھتا آیا ہے اور قیامت تک دیکھتا رہے گا۔ بنی نوع انسان کی یہ ز نجیر بھی کسی پل نہیں ٹوٹے گی۔