عبدالماجد نظامی
کرناٹک کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کو ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ہیں جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کو سخت شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ حجاب کے مسئلہ کو اسٹیٹ میں بڑے شدو مد کے ساتھ نہ صرف اٹھایا گیا تھا بلکہ اس پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور ہزاروں مسلم بچیوں کے مستقبل کو تباہ کرنے کا سارا انتظام کر دیا گیا تھا۔ البتہ جب عوام کو رائے دہی کا حق ملا تو انہوں نے واضح طور پر سماجی تقسیم اور نفرت کی سیاست کو مسترد کر دیا اور جس وزیر نے حجاب کے مسئلہ کو ہندو-مسلم منافرت کا موضوع بنایا تھا، اس کو کرناٹک کے عوام نے شکست سے دوچار کرکے سماج کو یہ پیغام دیا کہ وہ ایسی سیاست کو ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ ان نتائج کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ ملک کی دوسری ریاستوں میں بی جے پی اپنے سیاسی ایجنڈوں میں تبدیلی پیدا کرے گی اور عوام میں نفرت کے ماحول کو بڑھاوا دینے والی اقلیت مخالف پالیسیوں سے گریز کرکے ان مسائل کے حل کی طرف اپنی توجہ مبذول کرے گی جو تمام لوگوں کے مشترکہ مسائل سمجھے جاتے ہیں جیسے کہ تعلیم کی شرح میں اضافہ کو یقینی بنانا اور بے روزگاری سے پریشان نوجوانوں کو روزگار کے مواقع مہیا کروانا وغیرہ۔ اس کے برعکس جو چیزیں نظر آ رہی ہیں، وہ یہ ہیں کہ اتراکھنڈ میں ’’لو جہاد‘‘ کے پرانے اور بے بنیاد راگ کو الاپتے ہوئے وہاں کے تشدد پسند رائٹ ونگ گروپ خاص طور سے مبینہ طور پر وی ایچ پی اور بجرنگ دل سے وابستہ افراد مسلمانوں کی دکانوں پر دھمکی آمیز پوسٹر چپکاتے پھر رہے ہیں اور مسلمان تاجروں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنی تجارتوں اور دکانوں کو چھوڑ کر اس علاقہ سے نہیں گئے تو انہیں اس کی قیمت چکانی ہوگی۔ اس دھمکی کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے کئی مسلم تاجروں نے اسی میں عافیت محسوس کی کہ وہاں سے کوچ کیا جائے۔ باوجودیکہ پولیس اور انتظامیہ نے اس کا دعویٰ کیا ہے کہ ایسی کوئی دھمکی نہیں دی جا رہی ہے اور انہوں نے اپنی طرف سے چوکسی بڑھانے کا یقین دلایا ہے لیکن اس سے زمینی حقیقت نہیں بدل رہی ہے۔ نفرت اور بدنظمی کے اس ماحول نے جہاں سماجی انتشار پیدا کر رکھا ہے، وہیں اقلیتی طبقہ کے افراد کو اقتصادی مسائل سے دو چار کر دیا گیا ہے۔ اتراکھنڈ کے اندر اس معاملہ نے 27مئی سے طول پکڑ رکھا ہے جب مبینہ طور پر ایک نابالغ ہندو لڑکی کو ایک مسلم اور ایک ہندو لڑکے کے ساتھ دیکھے جانے کی بات کہی گئی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس معاملہ کو مذہبی منافرت کا ذریعہ بنانے کے بجائے پولیس اور انتظامیہ کے سپرد کر دیا جاتا تاکہ ملک کے قانون کی روشنی میں اس کا حل نکال لیا جاتا اور اس انتشار کی نوبت نہیں آتی۔ لیکن رائٹ ونگ کے عناصر نے اس معاملہ کو ’’لو جہاد‘‘ اور ’’زمین جہاد‘‘ میں تبدیل کر دیا۔ لڑکی اپنے اہل خانہ کے حوالہ کر دی گئی اور مسلم نوجوان کو سخت قوانین کے تحت جوڈیشیل حراست میں بھیج دیا گیا۔ قانون اور جہاد کا اس قدر بیجا استعمال نہ جانے اس ملک کو کہاں لے جائے گا۔ ابھی اتراکھنڈ کا یہ معاملہ چل ہی رہا تھا کہ مدھیہ پردیش سے یہ خبر آئی کہ حجاب کے نام پر رائٹ ونگ گروپوں نے ہنگامہ برپا کر دیا اور بلا تاخیر ریاست کے وزیراعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان اور ان کے وزیر داخلہ دونوں نے اس معاملہ میں رائٹ ونگ عناصر کے موقف کی تائید کرکے اس کو ایک سنگین مسئلہ بناکے رکھ دیا۔ واقعہ صرف اس قدر تھا کہ مدھیہ پردیش کے داموہ میں واقع ’’گنگا جمنا ہائر سیکنڈری اسکول‘‘دسویں میں کامیاب ہونے والی اپنی بچیوں کی تصویریں اسکول کے باہر ایک بورڈ پر لگا کر علاقہ کے لوگوں تک خوشی کا پیغام پہنچا رہا تھا۔ ان بچیوں میں ہندو اور مسلم دونوں شامل تھیں۔ رائٹ ونگ عناصر نے اس بات کو مسئلہ بنادیا کہ ہندو لڑکیوں کو جبراً حجاب پہنایا جاتا ہے اور انہیں ان کے کلچر سے کاٹ کر اسلام کی طرف لانے کا کام کیا جاتا ہے۔ دوسرا الزام یہ لگایا گیا کہ اسکول میں علامہ اقبالؔ کی نظم صبح کی اسمبلی میں پڑھائی جاتی ہے۔ اس معاملہ کو شیو راج سنگھ چوہان نے یہ رخ دے دیا کہ بھلا ایسے شخص کی نظم کیسے پڑھائی جا سکتی ہے جس نے اس ملک کو تقسیم کرنے کی وکالت کی ہو۔ گزشتہ کچھ برسوں میں علامہ اقبالؔ رائٹ ونگ عناصر کے لیے ایک نئے دشمن کے طور پر ابھرے ہیں جن کا استعمال کرکے مسلم اقلیت کے لیے مشکلات پیدا کی جاتی ہیں۔ یہ پہلے اترپردیش میں ہوا اور اب مدھیہ پردیش میں ہو رہا ہے۔ تیسرا الزام اسکول انتظامیہ پر یہ لگایا گیا کہ وہاں صرف اردو پڑھائی جاتی ہے اور ہندو بچیوں کے لیے کوئی دوسرا آپشن نہیں رکھا جاتا ہے۔ ان الزامات کے تحت اسکول کی پرنسپل، ریاضی کے استاد اور گارڈ کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اب تک انہیں ضمانت نہیں ملی ہے۔ اسکول انتظامیہ نے تمام الزامات کو بے بنیاد بتایا ہے۔ حجاب کے معاملہ پر اسکول انتظامیہ نے عدالت کو بتایا کہ یہ یونیفارم کا حصہ ہے اور کسی کو کبھی اس پر اعتراض نہیں رہا۔ لیکن رائٹ ونگ عناصر کا دعویٰ ہے کہ تین اسٹوڈنٹس نے اس سلسلہ میں اپنی شکایت پیش کی تھی اور اسی بنیاد پر پولیس میں معاملہ تیار کیا گیا۔ حالانکہ عدالت میں دفاع کرتے ہوئے اسکول کے وکیل نے بتایا کہ ان شکایتوں کو پڑھ کر ایسا نہیں لگتا کہ یہ اسٹوڈنٹس کی باتیں ہیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ان کو املا کروایا گیا۔ اب اسکول کی حالت یہ ہے کہ اس کا الحاق ختم کر دیا گیا ہے اور میونسپلٹی کا عملہ بلڈوزر لے کر پہنچ گیا ہے تاکہ اسے مسمار کرکے اپنا فرض نبھائے۔ یہ اسکول سماج کے کمزور طبقوں کے بچوں کو بہتر مستقبل عطا کرنے کے مقصد سے انگلش میڈیم میں تعلیم دینے کا کام کرتا تھا اور اس ملک کی مشترکہ تہذیب کی حفاظت میں یقین رکھتا تھا جیسا کہ اس کے نام سے واضح ہے۔ لیکن شیو راج سنگھ چوہان جو اپنی پالیسیوں میں سخت ناکام ہوگئے ہیں، پانچویں بار وزیراعلیٰ بننے کے لالچ میں اپنی ریاست کے بچوں کی زندگی سے کھلواڑ کرتے نظر آتے ہیں۔ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ماضی میں ان کی پالیسیاں قابل ستائش مانی گئی تھیں اور جن میں تعلیمی ترقی سے متعلق پالیسیاں بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ اس کے لیے انہیں ’’ماما‘‘ کا لقب بھی ملا تھا۔ انہیں اسی روش پر قائم رہنا چاہیے اور اسکول کو تباہ ہونے سے بچانا چاہیے تھا۔ آج کے دور میں کامیاب اسکول قائم کرنا کتنا مشکل کام ہے، سب جانتے ہیں۔ صرف الیکشن میں کامیاب ہونے کے لیے سماج کو اندھیروں کے غار میں جھونک دینا عقلمندی نہیں ہوگی۔ اگر ان کا ضمیر انہیں روک نہیں پا رہا ہے تو عوام کی نظریں اندھی نہیں ہوئی ہیں۔ وہ انہیں کرناٹک کی طرح سخت شکست سے دوچار کر سکتے ہیں۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]