خواجہ عبدالمنتقم
مردآہن سردار پٹیل نے آزاد ہندوستان کے مجوزہ قانون پر بحث کے دوران چودھری خلیق الزماں کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ اب ہندوستان ایک آزاد اور خود مختار مملکت ہے۔ یہاں ہم ملک کے مستقبل کو اپنی مرضی کے مطابق ایک نئی شکل دے رہے ہیں۔ماضی کو بھول جائیے، اسے بھولنے کی کوشش کیجیے۔ اگر ایسا کرنا آپ کے لیے ممکن نہیں تو پھر آپ ایسی جگہ چلے جائیے جو آپ کو پسند ہو اور وہ پاکستان چلے بھی گئے۔سردار نے یہ بھی کہا کہ میں یہ نہیں چاہتا کہ غریب مسلم عوام مزید دکھ جھیلیں۔ وہ پہلے ہی بہت مصائب جھیل چکے ہیں۔ انھوں نے اقلیتوں کے حوالے سے یہ با ت بھی کہی کہ خواہ کوئی بھی اقلیت ہو، اس کا مستقبل اس بات میں مضمر ہے کہ وہ اکثریتی طبقے پر بھروسہ کرے۔ اگر اکثریتی طبقہ ان کے ساتھ بدسلوکی کرے گا تو اس کو اس کے نتائج بھگتنے ہوں گے۔ اگر اکثریتی طبقہ اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھتا تو یہ ملک کے لیے بڑی بدقسمتی کی بات ہوگی۔
اکثریتی اور اقلیتی دونوں فرقوں کے تقریباً99 فیصد لوگ اس بات کو صحیح تسلیم کرے ہیں اور سماج میں کسی بھی طرح کے انتشار کے حق میں نہیں مگر ایک فیصد شرارتی لوگ تو ہر وقت ایسے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں جبکہ اس صورت حال سے ان کے مفادات پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔
گاندھی جی کی تصنیفIndia of My Dreams کے اقلیتوں کے مسائل سے متعلق باب میں درج گاندھی جی کا یہ قول بالکل واضح الفاظ میں درج ہے کہ اگر ہندو صاحبان مختلف نسلوں کے ساتھ مل کر رہنا چاہتے ہیں تو انھیں اقلیتوں پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ اگر وہ یہ راستہ نہیں اپناتے تو اس سے انھیں بد مزگی اور منھ کا ذائقہ خراب کرنے کے سوا کچھ ملنے والا نہیں۔ اگر ایک جانب ہم اکثریت سے معقول رویہ اختیار کرنے کی توقع کرتے ہیں تو اقلیتوںکو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اکثریتی فرقے کو bulldoze کریں۔
گاندھی، نہرو،سردارپٹیل مولاناآزاد، مولاناحفظ الرحمن اور دیگر مجاہدین آزادی نے بھی بار بار یہی یقین دلایا کہ آ زاد ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل بالکل محفوظ رہے گا اور بھارت کے آئین کے نفاذ کے بعد اس یقین دہانی کو آئینی ضمانت بھی مل گئی اور مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد نے ہجرت کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ہندوستان میں اقلیتوں کو وہ تمام حقوق اور آزادیاں حاصل ہیں جو دیگر طبقات کو حاصل ہیں۔ اب رہی بات ان کے مسائل کی تو ہر ملک کی اقلیتوں کو کچھ نہ کچھ دشواریاں تو پیش آتی ہی ہیں۔یہ عالمی پیمانے پر مسلمہ قانونی مفروضہ ہے کہ جہاں اکثریت ہوگی وہاں اقلیت بھی ہوگی۔ بھارت ایک ایسا وسیع اور عریض ملک ہے جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے اور الگ الگ زبانیں بولنے والے صدیوں سے مل جل کر رہتے آئے ہیں۔ بانگ اذان اور صدائے ناقوس دونوں ہی سے اس کی رونق میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ فدائے حرم اور شیدائے صنم پہلو بہ پہلو نظر آتے ہیں۔ انسان دوستی، رواداری اور آپسی بھائی چارہ اس کی وراثت ہے۔
یہ بات بار بار کہی جاتی ہے کہ ہندو-مسلم اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے اور ہندوستان کے تمام شہری ایک قوم ہیں تو پھر کچھ شرارتی عوامل ان دونوں کو بانٹنے کی بات کیوں کرتے ہیں اور ان پر لگام کیوں نہیں لگائی جاتی۔ جہاں تک ان ایک فیصد شرارتی لوگوں کی بات ہے تو ہمیں مجلس قانون ساز میں آئین کے مسودے پر بحث کے دوران مغربی بنگال کی نمائندگی کرنے والے نذیر احمد کی کہی ہوئی یہ بات یاد آگئی ’وہ چڑیا جو بہت عرصے تک پنجرے میں قید رہی ہو مسلسل پنجرے میں رہنے کے سبب اس کی نفسیات کچھ اس طرح کی ہوجاتی ہے کہ جیسے ہی اسے آزاد کیا جاتا ہے وہ پھر اسی پنجرے میں واپس آجاتی ہے۔ اسی طرح جو مجرم جیل میں رہنے کا عادی ہو جائے وہ جیل سے چھوٹنے کے بعد بھی پھر جرائم میں ملوث ہو جاتا ہے اور پھر جیل میں چلا جاتا ہے۔‘ اس مثال سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جن ایک فیصد لوگوں کی بات ہم نے اوپر کی ہے ان کی ذہنیت کو بدلنا آسان کام نہیں لیکن کوشش یہی ہونی چاہیے کہ ان کا دل جیتنے کی کوشش کی جائے۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے سے اس مسئلہ کا حل نہیں نکل سکتا۔
اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ آج انسانی حقوق سے متعلق سب سے اہم مدعا ہے۔ یہ بات بار بار دیکھنے میں آتی ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک میں آئینی وقانونی تحفظ کے باوجود اقلیتوں کے ساتھ بہت سی ایسی زیادتیاں کی جاتی ہیں جن سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ بہت سے معمولی تنازعات فرقہ ورانہ رنگ اختیار کرلیتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اقلیتیں خود کو اقلیت نہ سمجھیں۔ یہ تو تبھی ممکن ہے جب اکثریت اور اقلیت کے درمیان اس قدر محبت پیدا ہوجائے اور ان کے مابین اتنی قربت ہوجائے اور وہ اس طرح شیروشکر ہوجائیں (نہ لنچنگ ہو، نہ لباس پر اعتراض ہو، نہ لو جہاد جیسی باتیں ہوں، جب دہشت گردی کو کسی مذہب سے نہ جوڑا جائے وغیرہ)کہ دونوں میں امتیاز کرنا بھی مشکل ہوجائے۔ایسی صورت میں بھی یہ فکری تصور قانونی تصور کو مغلوب نہیں کرسکتا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی 1940میں رام گڑھ میں منعقد کانگریس کے اجلاس میں اقلیتوں کے بارے میں کہا تھا کہ اس سے زیادہ غلط فہمی کا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کو اقلیتی فرقہ مانا جائے۔ انہوں نے یہ کہتے وقت یہ بات بھی کہی تھی کہ مسلمانوں کو اس قسم کا شبہ یا گمان تک بھی نہیں ہونا چاہیے کہ انہیں غیر منقسم ہندوستان (ایک خواب جو شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا) میںپورے پورے حقوق حاصل نہیں ہوں گے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک ایسا ماحول پیدا کیا جائے جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں اس حدتک بھائی چارے اور عملی دوستی ورواداری کا جذبہ پیدا ہوجائے اور وہ اس طرح شیروشکر ہوجائیں کہ کسی کو یہ احساس ہی نہ ہو کہ کس کا تعلق کس فرقہ سے ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی مکمل شناخت بھی قائم رہے۔ ہماری سپریم کورٹ کا بھی ٹی ایم اے پائی والے معا ملے میں یہ کہنا ہے کہ بھارت میں سیکولرازم کی روح کو رنگ برنگے mosaicمیں تراشے ہوئے پتھر کے ٹکڑوں سے بنائے گئے نقشے کے ذریعہ بھی دکھایا جاسکتا ہے جس میں بھارت کے عوام سنگ مرمر کے ایسے ٹکڑے ہوں گے جن سے وہ نقشہ تیار کیا جائے گا۔ لیکن اگر سنگ مرمر کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کو بھی اس میں سے نکال دیا جائے تو بھارت کے نقشے کی شکل ہی بگڑ جائے گی۔ ہر ٹکڑا اپنے رنگ کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ بھارت کے ہر شہری کی حیثیت بھی کچھ اسی طرح ہے۔ آئین بھارت کے عوام کے الگ الگ رنگ اور روپ کو تسلیم کرتا ہے۔ لیکن وہ ان کی جداگانہ حیثیت کے باوجوانھیں مساوی اہمیت دیتا ہے کیونکہ اس طرح ہی ایک متحدہ سیکولر قوم وجود میں آتی ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]