دنیا میں جس تیزی کے ساتھ سیاسی، سفارتی اور تجارتی تعلقات بن اور بگڑ رہے ہیں اس کا اندازہ گزشتہ دنوں چین کی غیرمعمولی سرگرمی اور مغربی ایشیا میں اس کے بڑھتے ہوئے رول سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ سعودی عرب بلکہ خلیجی ممالک خاص طورپر سیکورٹی معاہدہ پر جی سی سی کے ممبر ممالک نے چین کی کمپنیوں ، تجارتی اداروںاور صنعتی اکائیوںکے لئے اپنی سرحدیں کھول دی ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دنیا کی دو منفرد خصوصیات کی حامل طاقتیں سعودی عرب جس کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ تیل ایکسپورٹ کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے اور چین جوکہ توانائی کے وسائل کا سب سے زیادہ استعمال کرتا ہے ایک دوسرے کے ساتھ رفاقتیں نبھا رہے ہیں۔ پچھلے دنوں ریاض میں عرب چائنا بزنس کانفرنس میں مملکت سعودی عرب کے وزیر شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے کہا ہے کہ ہم چونکہ تجارت پیشہ لوگ ہیں اور ہم کوئی بھی موقع ہاتھ سے گنوانانہیں چاہتے ہیں اور جہاں بھی موقع ملتا ہے اس کے تعاقب میں لگ جاتے ہیں۔ انہوںنے ایک مغربی ملک کے رویہ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے بالواسطہ انداز میں کہا کہ ہم لوگ وہ نہیں ہیں جویہ کہیں کہ آپ یا تو ہمارے ساتھ یا دوسرے کے ساتھ۔ شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان کا یہ قول اگرچہ سعودی عرب کے پرانے رویہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو چین کے ساتھ طویل مدت سے اقتصادی تعاون کر رہا ہے بلکہ اس جملے کا دہرانا اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ جس بڑی مغربی طاقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کے ساتھ سعودی عرب کے رشتے وہ نہیں ہیں جوپہلے تھے۔ دو بڑی عالمی طاقتوں (سعودی عرب اور چین)کے درمیان اس قسم کی رواداری اور ترسیل دونوں ممالک اور دو قطبین کے آپس میں تال میل اور اشتراکیت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ پچھلے دنوں ریاض میں جو چینی صنعت کاروں اور سرمایہ کاروںکا سیلاب آیا وہ ان معنوں میں دلچسپ تھا کہ یہ کانفرنس اور تاجروں کی آمد امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کے اگلے ہی دن آمد ہوئی۔یہ دنوں کا انتخاب بھی اپنے آپ میں معنی خیز ہے جوکہ رشتوں پر کھسکتی ہوئی ریت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مارچ میں سعودی عرب کی تیل کمپنی آرامکو نے چین میں دوبڑے سمجھوتوںکا اعلان کیا۔ یہ اعلان دونوں ملکوںکے درمیان تجارتی تعلقات میں غیرمعمولی اضافے کی طرف توجہ دلانے والا ہے۔ پچھلے سال دسمبرمیں جب چین کے صدر زی شی پنگ سعودی عرب کا دورہ کیا تھا تو اس وقت دونوںملکوںکے درمیان یہ طے پایا تھا کہ وہ عالمی تجارتی منظرنامے پر امریکہ کے تسلط کوختم کرنے کے لئے چین کی کرنسی میں کاروبار کریںگے۔ یہ معاہدے شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان کے اس قول کو یاد دلاتا ہے جس میں انہوںنے کہا کہ ہم چین سے مقابلہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ ہم چین کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ دونوںملکوںکے درمیان 2004سے تجارتی تعلقات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور ایک امکان یہ بھی پیدا ہورہا ہے کہ جلد ہی سعودی عرب کے ساتھ ساتھ گلف کوآپریٹیو کونسل (جی سی سی) کے ممالک کے ساتھ بھی یہ تعاون بڑھے۔ سعودی عرب کے وزیر برائے سرمایہ کاری خالد الفلاح نے کہا ہے کہ دونوںخطوں کے درمیان تجارتی تعاون روایتی پٹرولیم کی ایکسپورٹ کے علاوہ معیشت کے دوسرے سیکٹرس میں بھی شامل ہوگا۔ اس بات کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ دونوں خطوں میں فری ٹریڈ کے معاہدے ہوجائیں تاکہ دونوں سطح پر تجارتی اور صنعتی سرگرمیوںکا فائدہ پہنچے۔ سعودی عرب کے وزیر برائے سرمایہ کاری نے بتایا کہ جلد ہی اس بابت کوئی بڑی پیش رفت ہوسکتی ہے۔ پچھلے دنوں امریکہ کے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے مغربی ایشیا میں اپنے دیرینہ رفیق سعودی عرب کا دورہ کیا تھا اور دونوں ملکوںکے درمیان پرانے رشتوں کی گرم جوشی مفقود دکھائی دی۔ دراصل اس خطے میں چین نے جس طرح سے ایک ایماندار مصالحت کا ر کا رول ادا کیا ہے اس سے اس کی غیرجانبداری پر علاقے کی عوام اور حکمراں دونوں کا اعتماد بڑھا ہے۔ ظاہر ہے کہ امریکہ جومغربی ایشیا خاص طورپر سعودی عرب کی غلبے والے جی سی سی میں بااثر رہا ہے اس کو اپنی حیثیت اور اثرورسوخ میں کمی کا احساس ہونے لگا ہے اور کئی سطحوںپر اس تعطل کوختم کرنے کی امریکہ کوشش کر رہا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے جدہ میں ہونے والے جی سی سی اجلاس میں شرکت کرکے دونوں پرانے دوستوں کے درمیان خلیج کو پر کرنے کی اپنی بساط بھرکوشش کی تھی مگر آج لگاتار امریکہ کے اعلیٰ افسران ، وزرا کے دوروں کے باوجود برف پگھلتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ پچھلے ماہ 7؍مئی کو امریکہ کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جیک سلیوان نے خطے کا دورہ کیا تھا اورانہوں نے شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی ملاقات کی تھی۔ حالیہ دورے میں محمد بن سلمان نے امریکی وزیر خارجہ سے بہت ہی صاف انداز میں امریکہ سعودی تعلقات، یمن کے امور، سوڈان میں جنگ اور اسرائیل کی ارض فلسطین میں بربریت جیسے حساس ایشوز پر اپنے موقف کورکھا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ نے یمن وغیرہ کے امورپر تو گفتگو کی تھی مگر کہیں بھی اس بات کا تذکرہ نہیں آیا کہ امریکہ کے وزیر خارجہ نے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان مراسم کی بابت کچھ کہا ہو۔ اسرائیل کے وزیراعظم مسلسل ولی عہد سلطنت محمدبن سلمان سے ملاقات کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ محمدبن سلمان عرب لیگ کے سربراہ اجلاس کے موقع پر بھی یہ بات بھی واضح کر چکے ہیں کہ مملکت اور عرب لیگ فلسطینیوںکے تئیں زیادہ حساس ہے اور اسرائیل کا رول جس طرح کا رہا ہے ایسے حالات میں اس کے ساتھ تعلقات کی استواری کا امکان کم ہے۔ اس موقع پر اگرچہ امریکہ نے دو ریاستی فارمولے کے اطلاق کی بات کہی تھی اور اسرائیل کی بابت انہوںنے واضح کردیا تھا کہ مغربی کنارے پر یہودی بستیوںکی تعمیر عرب اسرائیل تنازع کے حل میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اسرائیل جوکہ امریکہ کا سب سے بڑا اور ہر موسم کا رفیق ہے اس نے امریکی وزیر خارجہ کی اس دلیل کو تسلیم کرنے سے انکارکردیا تھا کہ مغربی کنارے پہ یہودی بستیوںکی تعمیر (جوکہ غیرقانونی ہے) کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ اسرائیل کی موجودہ حکومت انتہاپسند اور نسل پرست مذہبی افراد کا وہ ٹولہ ہے جواپنے اشتعال انگیز بیانات، دل کو دکھانے والی حرکات وسکنات کے لئے بدنام ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی سرکار کے سربراہ کی طرف سے اس طرح کا بیان آنا کوئی حیران کن بات نہیں۔ امریکہ کا رول اسرائیل کی سرپرستی کا رہا ہے اور امریکی قیادت لگاتار اس بات پر مصر ہے کہ دو ریاستی فارمولے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مذاکرات کرنا اس وقت مناسب نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا ابھی وقت نہیں آیا۔ جبکہ غزہ کی پٹی ، مغربی کنارے اور یروشلم میں پچھلے تین چار مہینوںمیں جو تکلیف دہ واقعات رونما ہوئے تھے وہ کسی بھی مہذب انسانیت اورجمہوریت نوازطبقے یا ملک کو بے چین کرنے کے لئے کافی تھے۔ امریکہ اورمغربی ممالک کی یہی جانبداری امریکہ کے گھٹتے ہوئے رول کا اہم سبب ہے۔ جس وقت ہم یہ سطریں لکھ رہے تھے اس وقت فلسطین کے صدر محمودعباس چین کے دورہ پر تھے۔ پچھلے دنوںچین نے واضح کیا تھا کہ مغربی ایشیا کے اس حساس اور مذہبی نوعیت کے اہم ترین تنازعات کو حل کرنے کے لئے وہ اپنا تعاون دے سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعی چین خطے میں اس مسئلے کوحل کرنے یا کم از کم مذاکرات شروع کرنے میں کوئی رول ادا کرسکتا یا نہیں۔
٭٭٭
مغربی ایشیا: چین کے بڑھتے رول سے بے چینی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS