منی پور میں ایک ماہ قبل شروع ہوئے فسادات کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ریاست میں گزشتہ 3 مئی سے شروع ہوئے تشدد میں اب تک 98 افراد ہلاک اور 310 افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ 37 ہزار سے زائد لوگوں کو ریلیف کیمپوں میں منتقل کیا گیا۔ تشدد کی وجہ سے 11 سے زیادہ اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔ ملک کے شمال مشرق میں واقع منی پور کی پڑوسی ریاستوں میں شمال میں ناگالینڈ اور جنوب میں میزورم، مغرب میں آسام اور مشرق میں اس کی سرحد برما سے ملتی ہے۔ اس کا رقبہ22,327مربع کلومیٹر (8,621مربع میل) ہے۔ یہاں کی بڑی آبادی میتئی قبائل کے لوگوں کی ہے۔ یہاں کے پہاڑی علاقوں میں ناگا اور کوکی قبائل کے لوگ رہتے ہیں۔
میتئی کمیونٹی کے لوگوں کا کہنا ہے کہ 1949 میں انڈین یونین کے ساتھ انضمام سے پہلے انہیں ریاست میں ایک قبیلہ کا درجہ حاصل تھا۔ گزشتہ 70 سالوں میں میتئی کی آبادی 62 فیصد سے کم ہو کر تقریباً 50 فیصد رہ گئی ہے۔ میتئی کمیونٹی اپنی ثقافتی شناخت کے لیے ریزرویشن کا مطالبہ کر رہی ہے۔ منی پور کے ناگا اور کوکی قبائل میتئی کمیونٹی کو ریزرویشن دینے کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ریاست کی 60 اسمبلی سیٹوں میں سے 40 سیٹیں پہلے سے ہی میتئی کی اکثریت والی امپھال وادی میں ہیں۔ سیاسی طور پر منی پور میں میتئی برادری پہلے ہی غالب ہے۔ موجودہ قانون کے مطابق میتئی کمیونٹی کو ریاست کے پہاڑی علاقوں میں آباد ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ منی پور ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کو میتئی کمیونٹی کو درج فہرست قبائل (ایس ٹی) میں شامل کرنے پر غور کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ منی پور میں تشدد کی وجہ بھی میتئی ریزرویشن معاملہ کو بتایا جارہا ہے۔ ناگا اور کوکی قبائل کو خدشہ ہے کہ اگر میتئی طبقہ کو ایس ٹی زمرہ میں ریزرویشن ملتا ہے تو ان کے حقوق تقسیم ہوجائیں گے۔
منی پور میں تشدد شروع ہونے کے تقریباً ایک ماہ کے بعد 29 مئی کو مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے ریاست کا چار روزہ دورہ کیا۔ دورہ کے آخری دن وزیر داخلہ نے صحافیوں سے بھی گفتگو کی۔ امت شاہ نے تشدد سے متاثر منی پور کے تمام طبقات سے امن برقرار رکھنے، بات چیت کرنے اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کی اپیل کی۔ انہوں نے منی پور کے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ افواہوں پر کان نہ دھریں اور امن برقرار رکھیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ منی پور تشدد کی تحقیقات کے لیے ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس کی صدارت میں ایک عدالتی کمیشن قائم کیا جائے گا۔
تشویش کی بات یہ ہے کہ وزیر داخلہ کے دورہ کے تین ہی دن بعد ایک مرتبہ پھر ریاست میں تشدد پھوٹ پڑا۔ ضلع کاکچنگ کے سیرؤ گاؤں میں کچھ لوگوں نے 100 گھروں کو آگ لگادی۔ اس میں کانگریس ایم ایل اے رنجیت سنگھ کا گھر بھی شامل ہے۔ حکام کے مطابق اتوار کی شام کچھ لوگ سیرؤ گاؤں آئے اور رکن اسمبلی رنجیت کے گھر میں توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ ایم ایل اے اور ان کا کنبہ بال بال بچ گیا۔ پرتشدد ہجوم نے کئی گھروں کو آگ لگا دی۔ ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ آگ لگنے کے بعد لوگوں کو گھروں سے بحفاظت نکال لیا گیا۔ انہیں ریلیف کیمپ لے جایا گیا۔ فائر بریگیڈ نے بعد میں آگ پر قابو پالیا۔ ہجوم نے ضلع کے دیہی علاقوں میں تعینات بی ایس ایف کی ایک ٹیم پر بھی فائرنگ کی۔ چوکی پر مارٹر گولوں سے حملہ کیا گیا۔ پولیس کو شبہ ہے کہ ملزمان نے بی ایس ایف چوکی پر حملہ کرنے کے لیے چوری شدہ ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ اس دوران سیکورٹی فورسز اور پرتشدد ہجوم کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کی بھی اطلاعات ہیں۔
ریاست میں امن و امان کو برقرار رکھنا اور تمام طبقات کے حقوق کا خیال رکھنا ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن اگر ریاستی حکومت امن و امان قائم کرنے میں ناکام ثابت ہونے لگے تو مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہوجاتی ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ منی پور حکومت فسادات کو روکنے میں ناکام ثابت ہوئی لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے بروقت ریاست میں حالات پر کنٹرول کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیںکی گئی۔ منی پور اگر آج بھی جل رہا ہے تو یقینا یہ ریاستی و مرکزی حکومتوں کی ہی ناکامی مانی جائے گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مؤثر حکمت عملی اپنائی جائے اور ریاست میں برسرپیکار تینوں قبائل کے رہنماؤں سے مخلصانہ بات چیت کی جائے۔ کسی بھی حکومت کی پہلی ترجیح امن و امان اور انسانی جانوں کا تحفظ ہونا چاہیے لیکن دیکھا یہ گیا کہ ایک طرف ایک ریاست میں آگ لگی ہوئی ہے، دوسری طرف اربابِ حکومت ایک دوسری ریاست کے الیکشن میں اپنی پارٹی کو جیت دلانے کے لیے دورے اور روڈ شو میں مصروف ہیں۔ اہل سیاست کا یہ عمل اپنے آپ میں لمحۂ فکریہ ہے۔ ساحر لدھیانوی نے شاید ایسی ہی سیاست کے لیے کہا تھا کہ:
بہت دنوں سے ہے یہ مشغلہ سیاست کا
کہ جب جوان ہوں بچے تو قتل ہو جائیں
[email protected]
منی پور تشدد: مؤثر حکمت عملی ضروری
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS