پروفیسر عتیق احمدفاروقی
اقوام متحدہ کے آبادی شعبہ کے تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق یکم جولائی 2023تک ہندوستان چین کو پچھاڑ کر دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک بن جائے گا۔ اس وقت تک ہندوستان کی آبادی 142کروڑ 86لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہوگی ۔یہ حصولیابی ہے یا چیلنج ؟ چین ایک غیرجمہوری کمیونسٹ ملک ہے، جو شہریوں کی آزادی اورحقوق کو کچل کر اتنی بڑی آبادی پر حکمرانی کرتاہے لیکن ہمیں تو جمہوری حکومت کے ذریعے اتنی بڑی آبادی کی تعمیر وترقی اورفلاح وبہبود کرنی ہے۔ علاوزہ ازیں ہمارے ملک میں ثقافتی ،مذہبی، ذات پات ،لسانیاتی اور جغرافیائی تنوع ہے جو وفاقی نظام میں انتخابات کے دوران علاحدگی پسند رجحانوں کو قوت بخشتی ہیں۔اس کے سبب مختلف سیاسی جماعتوں کے ذریعے الگ الگ ریاستوں میں ترقی اورفلاحی کاموں کے مدعوں اختلاف رائے ہوتا ہے۔ پھر حکومتوں کے فیصلے پر عدلیہ پہرا دیتی ہے، جس سے آبادی کنٹرول ، تعمیر وترقی اورعوامی فلاح پر مرکز اورریاستی حکومتیں فیصلہ لینے کیلئے چین کی طرح مکمل طور پر اورتاناشاہ نہیں ہیں۔
بڑی آبادی کسی ملک کا اثاثہ ہوتی ہیں اورحساس مسئلہ بھی ۔ سبھی پارٹیوں کی حکومتوں کو اس سے روبروہونا پڑے گا۔ انتخابی مسابقت کے وقت مختلف جماعتیں سرکاری اسکیموں کو سیاسی فائدہ -نقصان کے لحاظ سے دیکھتے ہیں۔جب بھی آبادی کنٹرول کی بات ہوتی ہے تو زیادہ تر پارٹیاں اسے مسلم مخالف کہہ دیتی ہیں کیونکہ انہیں وہ اپنے ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ چین نے آبادی کنٹرول کا قابل ستائش کام ضرور کیا جو 1980ء میں صرف ایک بچہ پیدا کرنے کا قانون بنانے کے سبب ممکن ہوا۔ یہ قانون 2016ء تک نافذ رہا۔ کیااس طرح کا کوئی قانون ہندوستان میں بنانا ممکن ہے ؟ اگرآبادی کنٹرول نہ ہوسکی تو اس کی سب سے پہلی شکار ہندوستانی جمہوریت ہوگی۔ جمہوریت میں نمبر کو اہم مقام حاصل ہے۔ اگرآبادی میں ذات ،مذہب یا علاقوں کی بنیاد پر عدم تناسب اسی طرح بڑھتی رہی تو اس کا انتخاب کے نتائج پر گہر ااثر دیکھنے کو ملے گا۔ آزادی اورحقوق کی بڑی گٹھری لیکر چلنے والے جمہوری سماج میں آبادی وغیرمعمولی اضافے سے انتشار پیدا ہوسکتاہے ۔ساتھ ہی غذا ، تحفظ ، پینے کا پانی ،صحت، تعلیم اورروزگار وغیرہ کیلئے جدوجہد تیز ہوسکتی ہے ۔ یہاں تک کہ حکمرانی میں فوجی مداخلت کے امکان بھی بڑھ سکتے ہیں۔ آج بھی متعدد موقعوں پر حکومت کو نظم وضبط بنائے رکھنے کیلئے نیم فوجی دستوں اورکچھ حالات میں فوجی دستوں کا استعمال کرنا ہی پڑتاہے۔ اس رجحان پر روک لگانی ہوگی۔ اگرہمیں جمہوریت کو بچانا ہے تو آبادی پر کنٹرول تو کرناہی پڑے گا۔
بڑھتی آبادی اہم انسانی وسائل بھی ہے ۔اس میں 68فیصد نوجوانوں اور48.5فیصد خواتین کی شراکت داری اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اگران کا بیجا استعمال نہ کیاجائے تو اپنا ملک ترقی کی بلندیوںکو چھوسکتاہے ۔اس کیلئے تعلیم وصحت میں سرمایہ کاری بڑھانی ہوگی۔ نئی تعلیمی پالیسی کا مقصدتواچھا ہے مگر جس طرح سے اسے نافذ کیاگیا اس نے درس وتدریس کو متاثر کیاہے۔ اب تعلیمی نظام کا مرکز محض امتحان رہ گیاہے۔ لاتعداد خود کفیل اعلیٰ تعلیمی اداروں کی زبردست بدعنوانیوں کے سبب غیرمعیاری اداروں سے نکلے طلبہ معیاری تعلیمی اداروں کے طلبہ سے زیادہ نمبرات حاصل کر کے آگے نکل رہے ہیں۔ کیا یہ سب چیزیں حکومت کے علم میں نہیں ہیں؟ تعلیمی نظام ملک کو ایسی فصل دے رہی ہے جس کا منفی نتیجہ مستقبل کی نسلوں کی بھگتنا پڑے گا۔ یہی بات صحت کے شعبہ میں نافذ ہوتی ہے ۔اگرچہ حکومت نے’ آیوشمان بھارت‘اسکیم میں دس کروڑ خاندانوں کوپانچ لاکھ کا سالانہ صحت بیمہ دستیاب کرایاہے لیکن یہ اسکیم اتنی ہی کامیابی سے نافذ نہیں کی جاسکی۔ دوسری طرف زراعت میں کیمیائی اجزاء کے ضرورت سے زیادہ استعمال سے ہرگھر میں بیماریوں نے پیر پسار دئیے ہیں۔ تعلیم اورصحت میں امیراورغریب کے نظام پنپ گئے ہیں جو سماج کو طبقاتی جنگ میں ڈھکیل کر جمہوریت کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ بے تحاشا بڑھتی آبادی روزگار کیلئے بھی چیلنج ہے۔ کسی پارٹی کے پاس سب کو روزگار دینے کی کوئی جادوئی چھڑی نہیں ہے۔ ذاتی کاروبار ہی اس کاکارگر متبادل ہے۔ جس پر حکومت، کہاجاتاہے ،سنجیدگی سے کام کررہی ہے۔ اس کے باوجود مسئلہ بہت ٹیڑھا ہے۔ اس سبب بیروزگار نوجوان سماجی امن وسلامتی کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں ۔ جمہوریت میں اقتدار بدلتارہتاہے۔ باہمی انتظام تراشی کے بجائے سبھی سیاسی جماعتوں کو متحدہ طور پر اس مسئلہ کا حل تلاش کرناچاہیے۔ اگرنوجوانوں کو صحیح سمت نہیں ملی تو وہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے اپنی توانائی کو سماج مخالف کاموں میںصرف کرسکتے ہیں ۔ نوجوانوں کو بھی اس مسئلے کا حل تلاش کرناچاہیے۔ یہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ چین نے اس کا علاج ذاتی روزگارمیں ہی تلاش کیا لیکن ہمیں توذاتی کاروبار کے موجودہ تجربوں کے علاوہ دیگر متبادل جیسے’ ایک خاندان ایک روزگار‘،’تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بیروزگاری وظیفہ ‘، وغیرہ پر بھی غور کرنا پڑے گا۔ مرکزی حکومت کی قریب سات سو اضلاع میں ’ ایک ضلع ایک پیداوار‘کی غیرمتوقع کامیابی (جیسا کی ذرائع ابلاغ بتاتے ہیں)کے بعد ہریانہ اترپردیش کی’ ایک بلاک ایک پیداوار‘جیسی اسکیموں کو پورے ملک میں نافذ کرکے ذاتی روزگار کے نئے نئے راستے تلاش کرتے ہوں گے۔
بڑھتی آبادی کے منفی اثرات سب سے زیادہ دیہی علاقوں ، چھوٹے شہروں اوربڑے میٹرو پولیٹکل سٹی میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں رہائشی اورصنعتی علاقوں میں غیرقانونی تجاوز پیدل چلنے والوں کے ساتھ ساتھ سواریوں کے نقل وحمل کو بھی بری طرح متاثرکررہے ہیں۔ وہاں رہائش ،بجلی، سڑک،ہواورپانی وغیرہ سے متعلق مسائل پیدا ہوں گے اورتنازعات بڑھیں گے۔ ان کے نمٹارے کیلئے مقامی حکومت کو فعال ،خبردار اورطاقتور بناناہوگا تاکہ نظم وضبط درست رہے اورآبادی میں غیرمعمولی اضافہ جمہوری نظام کے توٹنے کا سبب نہ بن سکے۔
بڑھتی آبادی ملک کی خوشحالی و ترقی کے لیے ایک چیلنج : پروفیسر عتیق احمدفاروقی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS