عبیداللّٰہ ناصر
یہ سر پر ہوائے ظلم چلے سو جتن کے ساتھ
اپنی کلاہ کج ہے اسی بانکپن کے ساتھ
راہل گاندھی بھی پتہ نہیں کس مٹی کا بنا شخص ہے،جس دن سے اس نے عملی سیاست میں قدم رکھا ہے آر ایس ایس اپنے تمام وسائل اور بہترین دماغوں کی مدد سے اس کی کردار کشی کرنے، اسے کم عقل، کم فہم، بدھو اور پپو ثابت کرنے میں لگی ہوئی ہے۔2014 میں سرکار بننے کے بعد تو اس مہم میں سرکاری وسائل اور میڈیا بھی لگ گیا ہے۔ راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس دو پارلیمانی الیکشن اور کئی اسمبلیوں کے الیکشن ہار چکی ہے لیکن کئی اسمبلیوں کے الیکشن جیتی بھی ہے مگر ایک سوچی سمجھی سازش اور حکمت عملی کے تحت ہار کا ٹھیکرا تو راہل کے سر پھوڑ دیا جاتا ہے مگر کامیابی کا تذکرہ نہ کے برابر ہوتا ہے۔لیکن راہل گاندھی کی صحت پر ان تمام منفی پروپیگنڈوں کا کوئی اثر نہیں پڑتا، وہ ایک پرانی کہاوت کے ہاتھی کی طرح اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں کسی لیڈر کو ویسے حملے نہیں جھیلنے پڑے ہیں جیسے راہل گاندھی نے جھیلے ہیں اور جھیل رہے ہیں، معمولی اعصاب کا کوئی شخص ہوتا تو اتنے حملوں اور اتنے غیر معیاری، غیر مہذب، غیر شریفانہ حملوں کے بعد بال نوچ کر سیاست سے کنارہ کشی کرلیتا مگر راہل ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں، ان کی کج کلاہی ویسی کی ویسی ہی ہے۔ وہ پوری طاقت اور صلاحیت سے مودی حکومت کی مخالفت کررہے ہیں اور ان کی مخالفت، مخالفت بر مخالفت پر نہیں بلکہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہے۔ مثال کے طور پر ہندوستان میں کورونا پھیلنے سے کافی پہلے ہی راہل گاندھی نے اس کے خطرہ اور حکومت کی لاپروائی پر توجہ دلائی تھی تب ان کا حسب معمول مذاق اڑا یا گیا لیکن کچھ ہی دنوں بعد دنیا نے دیکھ لیا کہ اگر راہل کی آگاہی پر بروقت کارروائی کی گئی ہوتی تو ملک کو کورونا کی وہ تباہی نہ جھیلنی پڑتی جو اس نے جھیلی اور جس میں عالمی صحت تنظیم کی رپورٹ کے مطابق50لاکھ سے زیادہ لوگ لقمہ اجل بنے ہیں۔نوٹ بندی ہو، بنا تیاری کے جی ایس ٹی کا نفاذ ہو، راہل گاندھی کی آگاہیوں کو نظرانداز کرنے کا خمیازہ ملک کو بھگتنا پڑا ہے۔ اسی طرح ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں پر سرکار کے قبضہ کو لے کر راہل کی باتیں نظر انداز نہیں کی جا سکتیں۔ملک کے سماجی تانے بانے کی بربادی اور نفرت کے ماحول پر راہل گاندھی سے زیادہ جرأت سے خود کانگریس میں ہی کوئی لیڈر اتنا کھل کر نہیں بول پاتا۔ راہل گاندھی سیاسی نفع نقصان کی پروا کیے بغیر نفرت کے اس ماحول کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور بقول خود نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھول رہے ہیں۔ حالانکہ راہل گاندھی کو اپنی اس کج کلاہی کی قیمت بھی چکانی پڑی ہے، ایک سازش کے تحت لوک سبھا کی ان کی رکنیت چھین لی گئی، انہیں بے گھر کر دیا گیا، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ اور سی بی آئی ان سے گھنٹوں پوچھ گچھ کر چکی ہے لیکن اس بندے کے آہنی ارادوں پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے، ’’اس کی کلاہ کج ہے اسی بانکپن کے ساتھ‘‘ برقرار ہے۔یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ ادھر راہل کے منہ سے کوئی بات نکلتی ہے، ادھر پورا سرکاری ڈھانچہ ان پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔ وزیراعظم (اور اب تو نائب صدر جمہوریہ بھی شامل ہو گئے ہیں)، کابینی وزرا، پوری میڈیا پارٹی کے بدزبان ترجمان، سب ان کے پیچھے پنجے جھاڑ کر پڑ جاتے ہیں۔سمجھ میں نہیں آتا، ایک جانب وہ کہتے ہیں کہ راہل کی باتوں کو عوام سنجیدگی سے نہیں لیتے، دوسری جانب ان کے ایک بیان پر آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے آخر کیوں ؟
آج کل راہل گاندھی امریکہ کے دورے پر ہیں، وہاں انہوں نے غیر مقیم ہندوستانی یونیورسٹیوں کے طلبا اور امریکی صحافیوں کو جس انداز میں خطاب کیا اور جس طرح ہندوستان کے موجودہ حالت کا تجزیہ کیا، اس کی ساری دنیا میں تعریف ہو رہی ہے لیکن ہندوستان میں سرکار، سرکار پرستوں اور میڈیا کے بعض صحافیوں کے تو جیسے مرچیں لگی ہوئی ہیں، پورا میڈیا، پوری سرکاری مشینری راہل گاندھی کے بیانوں کو اور ان کی باتوں کو ملک دشمن، ملک سے غداری اور بیرون ملک ہندوستان کو بدنام کرنے کا الزام لگا رہی ہے۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت میں حکومت کی مخالفت کرنا سب کا آئینی اور قانونی حق ہے۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ مودی جی کے دور میں ان کی مخالفت کو ملک کی مخالفت بلکہ ملک دشمنی سمجھا جانے لگا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں، یہ ان کی سیاست اور فطرت کا حصہ ہے،جب وہ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تو ان کی مخالفت یا ان کی نکتہ چینی کو گجرات اور گجراتیوں کی اسمیتا(خودداری/ وقار)پر حملہ قرار دیا جاتا تھا اور جب وہ وزیراعظم ہیں تو ان کی مخالفت کو ملک کی مخالفت قرار دیا جاتا ہے۔ان سب سے قطع نظر امریکہ میں راہل نے جس سہج اور آسان انداز میں ہند نژاد امریکیوں، امریکی طلبا اور امریکی میڈیا کو خطاب کیا اور ان کے سامنے اپنے خیالات رکھے، اس نے راہل کی شخصیت کومزید ابھار دیا ہے اور پرانے لوگوں کو جواہر لعل نہرو اور اندرا گاندھی کی یاد آنے لگی۔ یہی نہیں ان دونوں لیڈروں کے پرانے ویڈیو بھی خوب وائرل ہو رہے ہیں جن سے لوگوں کو نہرو کو سمجھنے میں آسانی بھی ہورہی ہے۔نہروپر جتنے رکیک حملے آج کل ہو رہے ہیں، اتنا ہی لوگوں میں نہرو کو پڑھنے اور سمجھنے کی چاہت بھی بڑھ رہی ہے، اس لحاظ سے بھی راہل کے ان دوروں کو کامیاب کہا جا سکتا ہے۔
کوئی اس حقیقت سے چاہ کر بھی انکار نہیں کر سکتا کہ عالمی برادری میں ہندوستان کی شناخت مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہرو کی وجہ سے ہے۔ اندرون ملک مہاتما گاندھی کو گالی دینے والے اور ان کے قاتل کی مہمامنڈن کرنے والے بھی جب دوسرے ملکوں میں ہوتے ہیں تو گاندھی کے مجسمہ کے سامنے سر جھکاتے ہیں کیونکہ حق و صداقت، امن و آشتی کا جو آفاقی پیغام مہاتما گاندھی نے دیا، وہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی تباہی جھیل چکی دنیا کے زخموں پر مرہم جیسا تھا۔ یہی حالت نسلی تفریق کی تھی جس کے خلاف مہاتما گاندھی نے جنوبی افریقہ میں تحریک چلائی اور اپنے ملک میں ذات برادری اور مذہب کے نام پر تفریق کو ختم کرنے کے لیے مہم چلائی، انکی اسی مہم سے فیضان حاصل کر کے نیلسن منڈیلا اور مارٹن لوتھر کنگ نے سیاہ فاموں کے حقوق کی لڑائی لڑ کر کامیابی حاصل کی تھی۔ جواہر لعل نہرو نے دنیا کو تیسری جنگ عظیم سے بچانے اور سرد جنگ کے ماحول کو ختم کرنے میں کارہائے نمایاں انجام دیے، اسی لیے امن کے پیغامبر کہلائے۔ اپنے انتقال کے60برس بعد بھی نہرو دنیا میں آج بھی زندہ ہیں اور ہندوستان کی شناخت ہیں مگر دنیا یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ گاندھی اور نہرو کا ہندوستان اپنے ان عظیم لیڈروں کی تعلیم اور وراثت سے ہٹ رہا ہے، نہرو نے ہندوستان میں جمہوریت کا جو پودہ لگایا تھا وہ چھتنار درخت بننے کے بجائے اپنے وجودکے لیے لڑ رہا ہے، عالمی رینکنگ میں ہندوستان کی جمہوریت کو جزوی جمہوریت کے خانہ میں ڈال دیا گیا ہے، اس کا نمبر108واں ہو گیا ہے۔ اسی طرح جمہوریت کی بقا کا ضامن آزاد پریس ہندوستان میں ’’شہ کا مصاحب‘‘بنا ہوا ہے،عالمی رینکنگ میں وہ180 میں 161 ویں مقام پر پہنچ گیا ہے اور ہندوستان ایک شخص، ایک پارٹی کے آمرانہ نظام کی جانب بڑھ رہا ہے، مذہبی آزادی کا ماحول بھی ہندوستان میں تشویشناک ہے، عالمی برادری کو ان سب پر فطری طور سے تشویش ہے۔راہل گاندھی نے پہلے برطانیہ اور اب امریکہ میں بہت بیباکی سے ان سب معاملات پر اپنی رائے رکھی ہے۔ دوسری جانب امریکہ کے صدر جوبائیڈن کی دعوت پر مودی جی اسی ماہ امریکہ کے سرکاری دورہ پر جا رہے ہیں۔حالانکہ مودی جی ملک اور بیرون ملک کبھی میڈیا سے بات نہیں کرتے نہ ایسا کوئی اجلاس اٹینڈ کرتے ہیں جہاں ان سے سوال جواب ہوں، اب دیکھنا ہے کہ راہل کی تمام باتوں کا وہ امریکہ میں کس انداز میں جواب دیتے ہیں۔یہ ہو سکتا ہے کہ امریکہ میں موجود وشو ہندو پریشد کے زیر اہتمام کسی جلسہ سے خطاب کریں اور وہاں راہل کی باتوں کا جواب دیں کیونکہ یہ ممکن نہیں دکھائی دیتا کہ وہ راہل کی طرح کسی یونیورسٹی میں مدعو ہوں اور وہاں سوال جواب کا سیشن ہو یا امریکی اخبار نویسوں سے بیباک گفتگو کریں کیونکہ مودی جی صرف کہنے کے عادی ہیں، سننے اور جواب دینے کے نہیں۔مودی جی کے امریکہ دورہ پر دنیا کی نظر لگی ہوئی ہے اور دیکھنا ہے کہ راہل جو لکیر کھینچ آئے ہیں، مودی جی اسے کیسے چھوٹی کرتے ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]