پروفیسر عتیق احمدفاروقی
مساوات اورآزادی جیسے بنیادی جمہوری قدروں کا تحفظ تبھی ممکن ہے جب ہرشخص تک صحیح وقت پر انصاف دستیاب ہو۔ہندوستانی عدالتی نظام میں انصاف کا مطلب غیرجانبداری ہے توا س سبب اس کی دستیابی میں تاخیر بالآخر فطری انصاف اورجمہوریت دونوں کے خلاف ہوجاتی ہے۔ آئین میں انصاف کو جمہوریت کی اعلیٰ ترین قدر مان کر ہی اس کے سماجی،اقتصادی اورسیاسی کردار کا ذکراس کی تمہید (Preamble)میں بھی کیاگیاہے۔ ایسے میں یہ ریاست کی پہلی ذمہ داری ہے کہ وہ ہرشخص تک بناتاخیر انصاف کی تقسیم کو یقینی بنائے۔ ملک میں زیرسماعت مقدموں کے بوجھ سے یہ چیلنج بہت مشکل ہوجاتاہے۔ دسمبر 2022تک کل پانچ کروڑ زیر غور معاملوں میں سے ۴ء ۳کروڑ سے زیادہ معاملے ضلع اورتحتی عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ وہیں اگر 2022 تک عدالت عظمیٰ میں زیرغور معاملوں کی کل تعداد 71ہزار چارسوگیارہ تھی۔ایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ ہم اپنے عدالتی نظام میں لگاتار بڑھتے ہوئے بیک لاگ سے کیسے نمٹیںگے کہ عام آدمی کو وقت سے انصاف ملے۔
عدالت عظمیٰ نے 1979ء میں حسین آرا خاتون بنام بہار ریاست معاملے میں فوری سماعت کے اختیار کو تسلیم کرتے ہوئے اسے دفعہ 21 کے تحت زندگی کے حقوق میں شامل کیاتھا۔ عدالت نے کہاتھاکہ فوری سماعت فوجداری عدالتی نظام کا بنیادی عنصر ہے اورسماعت میں تاخیر اپنے آپ میں کسی شخص کو انصاف سے محروم رکھناہے ۔ برطانیہ میں 1215میں آئے میگناکاٹا کی دفع 40میں یہ لکھاہے کہ ’ہم کسی کو انصاف کے حق سے محروم یا انصاف دلانے میں تاخیر نہیں کریں گے۔‘چونکہ میگناکاٹا کو انسانی حقوق کااول عالمی چاٹرکہاجاتاہے اوراس حساب سے دیکھیں تو انصاف ملنے میں تاخیرایک طرح انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ امریکی آئین کے ششم ترمیم میں بھی فوری سماعت کو ترجیح دینے کی بات کہی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ فوری انصاف یاسماعت کا سیدھاتعلق جمہوری قدروں اورانسانی حقوق کے وقار سے ہے۔ ملک میں ہر دس لاکھ لوگوں پر اکیس جج ہیں جبکہ قانون کمیشن کے حساب سے یہ تعداد کم سے کم پچاس ہونی چاہیے۔ فطری بات ہے کہ اس سے ججوں پر بوجھ میں اضافہ ہوتاہے اورکام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ اس درمیان ہائی کورٹ میں ججوں کی طے شدہ تعداد 2014ء میں 906کے مقابلے 2020 میں بڑھ کر 1079ہوگئی ہے توتحتی عدالتوں میں بھی ججوں کی تعداد 2014میں 19518سے بڑھ کر 2020ء میں 24225ہوگئی ہے۔ پھر بھی یہ اضافہ ناکافی ہے۔ زیرغور معاملوں کے انبار پر اگر نظر ڈالیںتو حکومت ہی سب سے بڑی مدعی یا مقدمہ باز ہے۔ اس کا ایک سبب حکومتی شعبوں کاوہ کام کاکلچربھی ہے جہاں شکایت کی تلافی کا نظام مستحکم نہیں ہوتا۔ اس سے تمام معاملے غیرضروری طور پر عدالت کی دہلیز پر پہنچ جاتے ہیں۔ اس بڑھتے بوجھ کااثر دیگر معاملوں پرپڑتاہے۔ ہماری موجودہ حکومت ڈیجٹلائزیشن پر خصوصی توجہ دے رہی ہے ۔ عدالتی شعبہ میں بھی یہ کار گرثابت ہوسکتاہے۔ ہماری حکومت میں اس شعبہ میں اس کا فائدہ اٹھانے کیلئے بجٹ میں ای -کوٹ کیلئے ۷ہزار کروڑ روپئے مختص کئے گئے ہیں لیکن مسئلہ ہے کہ نچلی عدالتوں میں ضروری بنیادی ڈھانچے کے فقدان میں یہ اسکیم فوری طور پر نتیجہ فراہم کرنے میں شاید ہی کامیاب ہو۔ وقت کے ساتھ آرہی تبدیلیوں اور ترمیم شدہ قوانین کے سبب بھی نئی نوعیت کے تنازعے سامنے آنے لگے ہیں۔ اس سے بھی زیرغور معاملوں کی تعداد میںاضافہ کا مسئلہ شدیدہواہے۔ اس کے مدنظر 2008ء میں جسٹس این-جگن ناتھ راؤ کی صدارت میں ایک کمیٹی تشکیل کی گئی جس میں عدالتی اثرات کے تجزیہ کی سفارش کی گئی ۔ اس سے نئے معاملوں کے اندراج ہونے سے عدلیہ پر پڑنے والے مالی بوجھ کا بھی تجزیہ کیاجاسکے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عدلیہ ٹیکنالوجی کی مدد سے بنیادی ڈھانچے میں اصلاح کی راہ پر ہے لیکن ثالثی اوراس کے مراکز میں اصلاح کیلئے جوبجٹ مختص کیاگیاہے وہ اب بھی کم ہے۔ مدراس اور دہلی جیسے اہم ہائی کورٹ کے اپنے ثالثی مراکز ہیں لیکن ایسے اورمراکز بنانے کیلئے کافی وسائل کی ضرورت ہوگی۔دراصل ثالثی عدالت رسمی طور پر معاملہ شروع کئے بنا فریقوں کے بیچ تنازعوں کو حل کرنے کا ایک نظام ہے۔ اس میں تنازعوں کے حل کیلئے ایک غیرجانبدار شخص (ثالث)کی تقرری کی جاتی ہے اوراس کافیصلہ قانونی طور پر نافذ کرنے کے لائق ہوتاہے۔ یہ رسمی عدالتی معاملوں کے مقابلے کفایتی ہے تواس کیلئے وسیع بنیادی ڈھانچے تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
سیکڑوں سال پرانے قوانین بھی عدالتی طریقے عمل میں تاخیر کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ اس وجہ سے عدالت کا وقت اوروسائل ، دائرۂ اختیار ،کارروائی کے اسباب ، نوٹس کی زیادتی ، مقدمہ کی ترمیم اوردیگر طریقہ عمل کے معاملوں پر دلیلوں میں برباد ہوتے ہیں۔ قانون کمیشن نے بھی قوانین میں اصلاحات کیلئے 14ویں، 27ویں،41ویں، 48ویں،54ویں، 71ویں،74ویں، 77ویں، 79ویں اور 144 ویں رپورٹ کے ذریعے اس مسئلے کی جانب باربار نشاندہی کی ہے۔ اس سمت میں مودی حکومت نے کچھ پہل کی ہے،لیکن اس کی رفتارمزید تیز کرنی ہوگی۔ قانون کی پیچیدہ زبان بھی وقت سے انصاف کے حصول میں بڑی رکاوٹ ہے جس سے تمام پہلوؤں کا تجزیہ کرنا اورسمجھنامشکل ہوجاتاہے۔ اس لئے قوانین کو آسان بنانابھی اتناہی ضروری ہے۔ عدالتی نظام میں ایک اہم جزو ہونے کے سبب وکلاء کا کردار بھی اہم ہے۔ اس لئے انہیں بھی اپنی ذمہ داریوں کو نبھاناہوگا۔ وہ بھی آئے دن ہونے والے ہڑتال جیسے قدم اٹھانے سے بچیں۔ ہریش اپّل بنام ہندوستان یونین ، 1988ء معاملے میں عدالت عظمیٰ نے کہا کہ وکیلوں کو ہڑتال پر جانے یا بائکاٹ کی کال کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ یہاں تک کہ علامتی ہڑتال بھی نہیں ۔ مگر اس کے باوجود وقتاً فوقتاً ہڑتالیں عام بات ہیں۔ اگرہمیں وقت سے انصاف کے حصول کو یقینی بناناہے تو ان اڑچنون کو دورکرتے ہوئے عدالتی کارروائی کی ہرسطح پر مثبت نظریہ کے ساتھ ہی کافی حسیت کا بھی مظاہرہ کرناہوگا۔
[email protected]
ملک کا نظام انصاف اور جمہوریت : پروفیسر عتیق احمدفاروقی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS