شہرت کی بلندی بھی پل بھر کا تماشا ہے

0

محمد حنیف خان

شہرت انسان کوجہاں ایک طرف کچھ کرنے کا حوصلہ دیتی ہے تو وہیں کبھی کبھی یہی شہرت انسان کے لیے سم قاتل بن جاتی ہے،چونکہ یہ دور تصنع اور شہرت کا ہے،اس لیے اس میں سب سے زیادہ زور اسی پہلو پر صرف کیا جاتا ہے۔جس کے لیے پی آر سے لے کر اشتہار تک راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔خواہ فرد ہو یا ادارہ اگر کسی کو شہرت کا کیڑا کاٹ لے تو وہ کسی کام کا نہیں رہ جاتا اس کا سارا زور اس پر صرف ہوتاہے کہ وہ عوام کی نظروں میں کیسے بنا رہے،حالانکہ اس کو یہ نہیں معلوم کہ شہرت کی بلندی ایک پل بھرکے تماشے سے زیادہ کی حقیقت نہیں رکھتی،انسان جس ڈال پر بیٹھا ہے وہ کبھی بھی ٹوٹ سکتی ہے،اگر یہ ادراک انسان کو ہوجائے تو وہ تصنع کے بجائے زمینی سطح پر کچھ کرنے میں اپنا وقت صرف کرے جس سے انسان،انسانیت اور ملک و قوم کو فائدہ ہو۔ماضی کی عظیم حکومتیں اب قصۂ پارینہ بن چکی ہیں، ان کے حکمرانوں کے نام بھی تاریخ کے اوراق میں گم ہوگئے ہیں، شاید ان کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ کل کیا ہونے والا ہے،انہیں یقین تھا کہ ان پر کبھی زوال نہیں آئے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان ایک عظیم ملک ہے،جس کی عظمت کا راز اس کے تہذیبی،ثقافتی اور مذہبی تنوع کے ساتھ ہی اس آئین میں ہے جس نے ہر فرد کو یکسانیت عطا کی۔پوری دنیا میں اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔زمانہ قدیم سے اس ملک میں ایک کشش رہی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ عالمی روابط کے طریقوں میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ایک وقت تھا جب حصول مقصد کے لیے خصوصی ایلچی روانہ کیے جاتے تھے،جب تک وہ واپس نہ آجاتے صورت حال کے بارے میں کسی کو کچھ اندازہ نہیں ہوتاتھا مگر اب ایسا نہیں ہے۔دنیا میں سفارت کا ایک میکانزم ہے،جس کے توسط سے یہ روابط استوار کیے جاتے ہیں،اور وقتاً فوقتاً سربراہان مملکت دورے بھی کرتے ہیں تاکہ آپسی روابط کو مزید مضبوط کیا جاسکے۔
ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی ابھی تین ملکوں جاپان،نیوگنی اور آسٹریلیا کے دورے سے واپس آئے ہیں۔ اس دورے کے دوران دو واقعات ہوئے جن کو غیرمعمولی کا درجہ دیا گیا،نیو گنی کے وزیراعظم نے ہمارے وزیراعظم نریندر مودی کا پیر چھو کر خیر مقدم کیاجبکہ آسٹریلیائی وزیراعظم نے ان کو ’’دی باس‘‘ کہا۔ان دونوں واقعات کے ساتھ ہی میڈیا اورسوشل میڈیا کا ایک بار پھر پروپیگنڈے کے لیے استعمال شروع ہوگیا۔ان دونوں واقعات کو اس انداز میںپیش کیا جا رہا ہے جیسے ’’عالم میں ڈنکا بج رہا ہے مرے سلطان کا‘‘ پہلی بار ایسا نہیں ہے جب وزیراعظم نریندرمودی کسی ملک کے دورے پر گئے ہوں اور وہاں رہنے والے ہندوستانی شہریوں سے انہوںنے خطاب کیا ہو، جب بھی کسی ملک کے دورے پر جاتے ہیں، وہاں اس طرح کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔رپورٹیں تو اس طرح کی بھی آئی ہیں کہ باقاعدہ یہ ایونٹ کرائے جاتے ہیں تاکہ اس سے ہندوستان میں فائدہ اٹھایا جا سکے۔
ایک اہم بات یہ رہی کہ کبھی بھی دورہ کیے جانے والے ممالک میں ان مظاہروں کو اہمیت نہیں دی گئی جو مخالفت میں ہوئے، مثلاً آسٹریلیا میں جس وقت وزیراعظم نریندر مودی کا استقبال ہو رہا تھا،اسی وقت وہاں مظاہرے بھی ہورہے تھے مگر ان کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی، وزیراعظم کی آسٹریلیا سے واپسی کے بعد وہاں کے وزیراعظم سے متعددسوالات کیے گئے،جس میں ہندوستانی صحافت اور یہاں کی اقلیت کو خصوصی اہمیت دی گئی تھی۔ایک سوال یہ اٹھایا گیا کہ وزیراعظم نریندر مودی اقلیتوں کو حاشیئے پر رکھتے ہیں۔ہمیں وہاں کے وزیراعظم کے جواب سے کوئی سروکار نہیں ہے،البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر عالمی میڈیا میں اس طرح کے سوالات کیے جاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ عالمی سطح پر ان کی شبیہ ایک ایسے حکمراں کی ہے جواقلیتوں کو درکنار کرتے ہوئے اکثریت کے کاز کی بات کرتا ہے۔جس سے نتیجہ یہ اخذ ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر ہماری جمہوریت سوالیہ نشان کی زد میں ہے جس کی فکر وزیراعظم اور اعیان حکومت کو بہرحال کرنی ہی چاہیے۔
وزیراعظم کے ہر دورے کو یہاں ایک ایسے ڈنکے کے روپ میں پیش کیا جاتاہے جس کی ہر ضرب کی آواز جیسے پوری دنیا میں گونج رہی ہو، حالانکہ سوشل میڈیا اور ٹی و اخبارات میں ہونے والے پروپیگنڈے کے برعکس حقیقی تناظر میںاگر دیکھا جائے تو عالمی سطح پر ہندوستان کو کچھ نہیں حاصل ہواہے،خارجہ پالیسی کی کامیابی اور وزیراعظم کے ان دوروں کے نتائج کو مفید اور کار آمد ہم دوصورتوں میں تصور کرتے ہیں، اول ہندوستان کو اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت مل جاتی،دوم ہندوستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں مسلسل اضافہ ہوتا۔
وزیراعظم نریندر مودی کو اس عہدے پر نو برس کا عرصہ گزرچکا ہے،مستقل رکنیت کی بات تو دور ہے،ابھی تک اس کے امکانات بھی روشن ہوتے نہیں دکھائی دیے ہیں کہ ہندوستان کو اقوام متحدہ میںمستقل رکنیت مل جائے گی جب کہ ہندوستان کو روس کی حمایت زمانہ قدیم سے حاصل رہی ہے،اس نے ہمیشہ اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ ہندوستان کو اقوام متحدہ کی رکنیت ملنی چاہیے کیونکہ وہ اس کا حقدار ہے۔ اقوام متحدہ کی رکنیت کا عدم حصول اس بات کی دلیل ہے کہ گزشتہ نو برسوں میں عالمی سطح پر کوئی مضبوط پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
ملک میں سرمایہ کاری کے محاذ پر بھی حالیہ رپورٹ موجودہ حکومت کو ناکام ہی بتا رہی ہے۔ایک معروف انگریزی روزنامہ نے یہ خبر شائع کی ہے کہ مالی سال مارچ 2022-23میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں 16فیصد کی گراوٹ درج کی گئی ہے۔مالی سال 2023میں 71بلین ڈالر یعنی 5لاکھ 87ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری ہوئی، گزشتہ ایک دہائی میں یہ پہلی بار ہوا ہے جب اس طرح کی گراوٹ درج کی گئی ہے۔
سرمایہ کاری میں کمی اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ غیرممالک کے کاروباریوں کو ہندوستان میں نہ صرف مواقع کم نظر آرہے ہیں بلکہ یہاں کی حکومت ان کو اپنی جانب راغب کرنے میں ناکام رہی ہے اور جب بھی اس میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت کاروبار کی سطح پر نہ صرف سرگرم ہے بلکہ وہ غیر ممالک کے کاروباریوں کو اپنی جانب راغب کرکے یہاں ملازمت اور کاروبار کے مواقع میں اضافہ کر رہی ہے۔ہندوستان میں ملازمت اور کاروبار میں کمی کا اس سے بڑا اورکیا نتیجہ سامنے آسکتا ہے کہ آسٹریلیا کی کئی یونیورسٹیوں نے پنجاب، ہریانہ، اترپردیش، اتراکھنڈ اور جموں و کشمیر کے طلبا کویہ کہتے ہوئے داخلہ دینے سے منع کردیا ہے کہ وہ یہاں تعلیمی ویزے پر آتے ہیں مگر پھر حصول تعلیم کے بجائے وہ ملازمت کرنے لگتے ہیں۔اس واقعہ کو دو تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔اول ہندوستان میں کاروبار اور ملازمتوں کی حالت زار اور دوسرے غیر ممالک میں ہندوستان کی موجودہ دور میں کتنی اہمیت ہے۔
بیرون ملک کسی بھی ملک کا خواہ جھنڈا کتنا بھی بلند ہوجائے،وزیراعظم یا کسی بھی آئینی و غیر آئینی عہدیدار کو کتنی بھی اہمیت کیوں نہ دے دی جائے، اس سے متعلقہ ملک کے عوام کے مسئلے حل نہیں ہوجائیں گے۔ عوام کے مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ زمینی سطح پر کام کیا جائے،عوام کیلئے روزگار اور کاروبار کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ وہ تعلیمی ویزے کا سہارا لے کر ملازمت کرکے ملک کی بدنامی کا سبب نہ بنیں،در اصل جن ریاستوں کے طلبا کے داخلے پر آسٹریلیا میں پابندی لگائی گئی ہے،ان میں سے تین میں تو ڈبل انجن کی حکومتیں ہیں،ان حکومتوں کو سوچنا چاہیے کہ آخر وہاں کے نوجوان بیرون ملک ایسا قدم اٹھانے پر کیوں مجبور ہیں؟ ہندوستان ایک نوجوان ملک ہے، یہاں کے نوجوانوںمیں جوش اور امنگ ہے، مگر ان کے پاس مواقع نہیں ہیں، اس لیے وہ مایوس ہیں،ان کی مایوسی کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ حکومتوں نے زمینی سطح پر کام کرنے کے بجائے نعرے بازی،اخبار بازی اور اشتہاربازی کے سوا کچھ نہیں کیا اور جو بھی کیا ہے وہ اونٹ کے منھ میں زیرے سے زیادہ کچھ نہیں۔اب ہندوستان کا پیٹ اس زیرے سے نہیں بھرے گا بلکہ اس کو بھرپیٹ کھانا چاہیے جو بغیر محنت کے نہیں مل سکتا مگر اس کے لیے محنت کرنے اور صلاحیت دکھانے کے مواقع بھی ہونے چاہئیں جس کی ذمہ داری مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی ہے۔جو لوگ حکومت میں ہیں، ان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ہندوستان میں موریہ گپت اور مغل سلطنتیں بھی رہ چکی ہیں مگراب کسی کا نام و نشان بھی نہیں ہے،وقت کا سیل رواں سب بہا کرلے گیا،اب ان کا وجود صرف آثار میں باقی رہ گیا ہے، کوئی عجب نہیں کے وقت کی گرد اس پر بھی دبیز چادر ڈال دے،کیونکہ دوام یہاں کسی کو نہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS