کیا کرناٹک کی ڈگر پر جائے گا مدھیہ پردیش ؟

0

کرناٹک میں شاندار اور غیر معمولی جیت کے بعد کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں اور اپوزیشن کو انداز ہوگیا ہے کہ تمام تر اشتعال انگیزی اور فرقہ وارانہ نوعیت کے ہتھکنڈے اختیار کیے جانے کے بعد بھی ایسا نہیں کربی جے پی جیت جائے اس کو اس قدر پراگندہ ماحول کے باوجود بھی شکست دی جاسکتی ہے ، شرط ہے کہ اشتعال انگیزی کو حکمت سے ناکام یا جائے۔ جوابی حملوں اور فرقہ وارانہ طرز کے بیانات کو نظرانداز کرکے صرف اور اچھی گورننس اور شفاف نظام پر فوکس کیا جائے اور عوام کے مفادات کو مقدم سمجھا جائے گا تو سخت ترین حریف کو بھی شکست دی جاسکتی ہے۔ کانگریس نے کرناٹک کی طرح مدھیہ پردیش میں بھی عوام کو لبھانے والے وعدے کیے ہیں۔ کمل ناتھ گیس سلنڈر کو لے کر وعدہ کرچکے ہیں ۔راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے بھی فضا کو سازگار کرنے میں مدد کی ہے ۔ کانگریس پارٹی کرناٹک کی طرح لبھائونے وعدے کررہی ہے، جس کو بی جے پی ریوڑی کلچر قرار دے کر تنقید کر رہی ہے۔ اس دوران کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہونے والے اور ریاست میں کانگریس کی سرکار گرانے کا اسباب پیدا کرنے والے جیوتی رادتیہ سندھیا اور مقامی اور پرانی بی جے پی کے درمیان اختلافات نے سنگین روپ احتیار کرلیا ہے۔ سندھیا مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت میں وزیر ہیں۔ مگر بی جے پی میں جو ارمان لے کر موصوف آئے تھے وہ تو پورے ہونے ہی نہیں تھے۔ اس پر طرہ یہ کہ اب جیسے الیکشن قریب آرہا ہے ۔ بی جے پی کے پرانے لیڈران کو بے عزت کرنے اوران کے ممبران اسمبلی کو حاشیہ پر ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ خیال رہے کہ سندھیا کو کانگریس چھوڑنے کے فوراً بعد راجیہ سبھا کے لیے نامزد کردیاگیا تھا۔ بی جے پی ان کے کانگریس چھوڑنے کو بڑی کامیابی قرار دے رہی تھی کیونکہ وہ راہل گاندھی کے کافی قریبی سمجھے جاتے تھے۔ اس وقت یعنی مارچ 2020میں سندھیا کے قریبی 22ممبران اسمبلی نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس طرح 228ممبران کی کل تعداد گھٹ کر 206رہ گئی تھی اور کمل ناتھ سرکار کے اقلیت میں آنے کے بعد بی جے پی نے شیوراج سنگھ کی قیادت میں سرکار بنالی۔ اس وقت کرناٹک کے کانگریس لیڈر ڈی کے شیو کمار فیکٹر نکل کر آیا تھا اور انہوںنے 22ممبران اسمبلی کو توڑنے اور واپس کانگریس میں لانے کی کوشش کی تھی جس کے پیش نظر کانگریس کے باغیوں کو ہریانہ منیسر کے ایک ہوٹل میںرکھا گیا تھا۔ اس وقت بی جے پی کے خود کے ممبران اسمبلی کی تعداد 107تھی جبکہ سرکار بنانے کے لیے 206ممبران کے ایوان میں صرف 104ممبران کی حمایت درکار تھی۔
سندھیا 2018کے الیکشن کے بعد امید لگائے بیٹھے تھے کہ کانگریس ان کو وزیراعلیٰ بنائے گی مگر کانگریس نے ریاست کے کانگریس صدر کمل ناتھ کو وزیراعلیٰ بنا کر سندھیا کی امیدوں پر پانی پھیردیا تھا۔ مگر اب سندھیا کے لیے بی جے پی میں دائرہ تنگ ہورہا ہے اور حالات اس قدر خراب ہوگئے ہیں کہ کئی بی جے پی کے کئی سینئر لیڈر کانگریس میں شمولیت اختیار کررہے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان کی قیادت میں 18سال سے زیادہ سے بی جے پی حکومت ہے اور بی جے پی کے پرانے لیڈروں ممبران کو لگ رہا ہے کہ سندھیا کے ممبران اسمبلی ان کا ٹکٹ صاف کرسکتے ہیں۔
شیوراج سنگھ چوہان وزیراعلیٰ کے عہدے پر کمل ناتھ کی سرکار گرنے کے بعد چوتھی مرتبہ فائز ہوئے تھے ان کے اقتدار کو مجموعی طور پر تقریباً 18سال ہوگئے ہیں۔ مدھیہ پردیش بی جے پی اتنے طویل عرصہ تک حکومت کرنے والے وہ پہلے وزیراعلیٰ ہیں۔ ان کی مخالفت بی جے پی میں ہورہی ہے اور اپوزیشن ان کے دور اقتدار میں ملازمتوں میں بھرتیوں اور ویاپن جیسے گھوٹالے کی یاد دلاتے ہیں۔ پچھلے دنوں کچھ اور بھرتیوں میں ایک خاص مکتب فکر کے افراد کی تقرری کا معاملہ منظر عام پر آیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کمل ناتھ اور ریاستی کانگریس پارٹی شیوراج سنگھ چوہان کی نااہلی اور کرپشن کو ایشو بنارہے ہیں۔ کئی حلقو ںمیں سندھیا کی کانگریس میں واپسی کو لے کر کافی قیاس آرائیاں لگائی جارہی ہیں۔ دگوجے سنگھ کے چھوٹے بھائی لکشمن سنگھ نے کچھ اس طرح کے اشارے دیے ہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ دگوجے سنگھ اور سندھیا میں شدید قسم کے اختلافات ہیں۔ ایسے میں لکشمن سنگھ کا سندھیا کو واپس کانگریس میں لانے کا بیان کتنا سنجیدہ ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ سندھیا نے جس انداز سے کانگریس سرکار کو گرا یا تھا اور راہل گاندھی کے قریب ہونے کے باوجود مدھیہ پردیش جیسے صوبے میں جہاں پر تین میقات تک برسراقتدار رہنے والی بی جے پی کو بڑی مشکل تمام کانگریس نے اقتدار سے بے دخل کیاتھا۔ سندھیا کا جانا ریاستی اور قومی سطح پر کانگریس کو بڑا جھٹکا تھا۔ یہی نہیں کہ اس کا اثر راجستھان کی سیاست پر پڑا جہاں پر سچن پائلٹ کو مہرا بنا کر اشوک گہلوت سرکار کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ مگر جیوتی رادتیہ سندھیا کی پھوپھی اور بی جے پی کے سینئر لیڈر اور سابق وزیراعلیٰ راجستھان وسندھرا راجے نے راجستھان میں وہی کام کیا جو ان کے بھتیجے جیوتی رادتیہ سندھیا نے مدھیہ پردیش میں کانگریس پارٹی میں کیا تھا۔ اب راجستھان میں کانگریس کے دو خیموں میں زبردست کشمکش ہے ۔ سچن پائلٹ اشوک گہلوت کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہیں۔ ظاہرہے کہ یہ بغاوت کرناٹک میں کامیابی کے جوش وخروش میں کانگریس کی لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس کے مرکزی قیادت راجستھان کے ریگزاروں نے اس سیاسی تپش کس طرح ٹھنڈا کرتی ہے چالاک لومڑی کی طرح کام کرنے والے اشوک گہلوت کی طرح یا سچن پائلٹ اس قدر الگ تھلگ پڑ کے خود ہی حاشیہ پر پہنچ جائیں گے۔ مگر راجستھان میں کانگریس کا متحد رہنا اتناہی ضروری ہے جتنا کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS