پروفیسر عتیق احمدفاروقی
کچھ دنوں قبل بی جے پی لیڈر کپل مشرا نے ٹوئٹ کیاتھا،’’این ۔ سی ۔ ای ۔آر۔ٹی سے مغلوں کی غلط تاریخ کو ہٹانا ایک بڑا فیصلہ ہے۔ چور،پاکٹ مار اوراُچکے الفاظ کا استعمال مغل سامراج اورہندوستان کے شہنشاہ کیلئے ہوتاہے۔ اکبر ،بابر،شاہ جہاں اوراورنگ زیب کی جگہ تاریخ کی کتابوں میں نہیں ہے بلکہ کوڑے دان میں ہے‘‘۔ دراصل کپل مشرا این۔سی۔ ای۔ آر۔ ٹی کے ذریعے مغلوں اوردلی سلطنت کے بڑے حصے سمیت کچھ مواد کو اسکول کی کتابوں سے نکالے جانے کی ایک روزنامہ میں رپورٹ کے تناظرمیں اپنا رد عمل ظاہر کررہے تھے۔ تاہم این۔سی۔ای۔آر۔ٹی کے ڈائریکٹر ڈی پی سکلانی نے اس میں کسی سیاسی زاویہ کے داخلے کو مسترد کردیااورکہاکہ نکالے جانے والے مواد ان موضوعات کا ایک حصہ ہے جو درجات اورکتابوںمیں دہرائے گئے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ کچھ مواد کا نکالاجانا طلبہ پر پڑھائی کے بوجھ کو کم کرنے کے خاطر اورکووڈ19کے سبب جو پڑھائی کا نقصان ہواہے اس کے مدنظر نصاب کے معمول کے مطابق توجیہ کا ایک حصہ ہے۔
ویسے تو ہم لوگوںکو این۔سی۔ای۔آر۔ٹی کی ادارہ جاتی ایمانداری اورشفافیت پر یقین کرناچاہیے ، بہت سے مبصرین کے لگاتار آنے والے بیانیہ میں کووڈ 19کے بوجھ کے سبب مواد کے ہٹائے جانے کا ذکر نہیں ملتا بلکہ اس کی جگہ اس چیزکی اس بنیاد پر پیروی کی جاتی ہے کہ ان کتابوں کونام نہاد ان بائیں بازو کے مؤرخین کے ذریعے لکھاگیاہے جومغلوں یامسلمانوں سے محبت کرتے ہیں اورجنہیں اپنے ہندو ہونے پر فخر نہیں ہے۔ کچھ ایسے مبصرین جو زیادہ نفیس طبیعت کے ہیں وہ دلیل دیتے ہیں کہ ان کتابوں میں جو تاریخ لکھی گئی ہے اس کاتعلق شمالی ہندوستان سے ہے اوراس میں جنوبی ہندوستان اور شمال مشرق کی تاریخ کا ذکر نہیں کیاگیاہے لیکن اس شکایت کا تدارک ، درجہ 12کی تاریخ کے کتاب کے باب دوئم سے مغلوں کاذکر اوردرجہ چھ سے بارہ تک کے درجات میں کچھ موضوعات جیسے 2002کے گجرات فسادات ، ایمرجنسی، دلت مصنفین اورنکسلائٹ تحریک، کتاب سے نکال دینے سے کیسے ہوسکتاہے؟سچائی یہ ہے کہ اس ٹیم کے ارکان سے جنہوں نے یہ کتابیں لکھی ہیں کوئی تفصیلی گفتگو نہ تو کی گئی ہے اورنہ کرنے کی سنجیدہ کوشش کی گئی ہے اور شمولیت اور تنوع کی مدرسانہ قدروں ، جو طلبہ کو مستقبل کے چیلنجوں کا سامنا کرنے اورمختلف نظریات کو سمجھنے کا اہل بناتا،کے تحفظ کی کوشش نہیں کی گئی۔ لہٰذاہربار جب آپ این۔سی۔ای۔آر۔ٹی کے ڈائریکٹر کی سیاسی مداخلت نہ ہونے کی پیروی سنتے ہیں اورآپ قریب ان کی باتوں کا یقین کرلیتے ہیں توسمجھ لیجئے کہ مواد ہٹائے جانے کے زوردار نظریاتی جواز کے سبب اس مدعے کی مذمت کرنے سے آپ روکے جاتے ہیں۔
اگرسچائی بیان کی جائے تو ہندوستان کی تاریخ دوبارہ لکھنے کا ہندتوا منصوبہ کبھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے۔ ایک حالیہ انٹرویو میں ایک معروف دانشور گنیش دیوی نے بتایاکہ آرایس ایس نظریہ ساز ونایک دامودر ساورکر کی کتاب ’سکس گولڈن پیریڈ این دی ہسٹری آف بھارت‘سے لئے گئے ماضی کے ہندوستان کے چھ زریں دور کی تعریف کی گئی ہے لیکن اسی کتاب میں وسطی دور جس میں اسلامی آرٹ ، اسلامی سامراج اور اسلامی ترقی حاوی تھی، کو تاریک دور کہاگیاہے۔ آرایس ایس کے بانی ایم ایس گول والکر سمیت متعدد دوسرے نظریہ سازوں نے ہندوستان کی تاریخ سے متعلق اپنے نظریات کو کبھی نہیں چھپایا۔ جس کے مطابق ہر وہ چیز جس کا تعلق مسلمان سے ہے، خبیث جیسی ہے اورہروہ چیز جس کا تعلق ہندو سے ہے، قیمتی ہے۔ ساتھ ہی ان کی نظرمیں اقلیتیں مشتبہ ہیں۔
یہ بھی ایک مشہور حقیقت ہے کہ این سی ای آرٹی کی تاریخ کی کتابیں ماضی میں بھی متنازعہ موضوع تھا، پہلی جنتادل حکومت 1977-79کے دوران اوربعدازاں 1999-2004میں جب بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے حکومت برسراقتدار تھی ۔این ڈی اے حکومت کے دورمیں پہلی بار تاریخ کی نصابی کتابیں جنہیں رومیلا تھاپر ، بپن چندر ، آر۔ایس۔شرمااورارجن دیو جیسے معروف (اب قابل مذمت )مؤرخین نے لکھی تھی۔ پہلے ان کے مخصوص مواد کو نکال دیاگیا اورپھربعد میں کامیابی کے ساتھ ان ساری کتابوں کو ہی ہٹادیاگیا۔ ان کتابوں کے بدلے ایسی غیرمعیاری کتابیں نصاب میں رکھ دی گئیں جنہیں ایسے مصنفین نے لکھا تھا جن کی شہرت کا دعویٰ برسراقتدار پارٹی کے نظریاتی نزدیکی کی بنیاد پر تھا، حقیقی قابلیت پر نہیں ۔ یہاں تک کہ ہندوستانی مؤرخین کی ممتاز تنظیم ’انڈین ہسٹری کانگریس ‘نے اس وقت ایک کتاب شائع کی جس میں ان نصابی کتابوں کی غلطیوں اور مسخ عبارتوں کی نشاندہی کی گئی تھی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جدید ہندوستان پر لکھی گئی ایک کتاب میں مصنف یہ لکھنا بھول گیاکہ مہاتماگاندھی کا قتل ہواتھا۔ جب کافی احتجاج ہوا تو ایک اکیلا جملہ ان کے قتل سے متعلق جوڑ دیاگیا اوراس کی کوئی تفصیل نہیں پیش کی گئی۔
ان نصابی کتابوں کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ہونے پر 2004میں یو۔پی۔اے حکومت نے ان کتابوں پر نظر ثانی کا حکم دیا۔ یہ ذمہ داری کافی سینئر مؤرخین کو سونپی گئی تھی جنہوں نے ان کتابوں کو ہٹانے کی سفارش کی۔ پرانی کتابیں، جنہیں نام نہاد بائیں بازوکے مؤرخین نے لکھی تھی، بھی بحال نہیں کی گئیں۔
این۔سی۔ای۔آر۔ٹی نے ایک وسیع النظر مشاورتی بورڈ کی تشکیل کی۔ جس میں تب مؤرخین کے ایک گروپ کونئی کتابیں لکھنے کیلئے مدعوکیا۔ ان کتابوں میں مختلف موضوعات کے ماہرین نے ایک کتاب کے مختلف ابواب کو لکھا۔ یہی معیاری کتابیں ہیں جن میں سے اب مخصوص مواد نکالا جارہا ہے یہاں پر اس بات کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ جیسا کہ ٹیلی ویژن مبصرین بحث کرتے رہے ہیں کہ وہ نصابی کتابیں مؤرخین کے اس گروہ نے لکھاہے جس کی دیکھ بھال اورنگہ داشت اندرا گاندھی کے وزیرتعلیم نورالحسن نے کی تھی۔درحقیقت یہ کتابیں این ۔سی ۔ای ۔آر۔ٹی نے دودہائی سے بھی زیادہ پہلے سے ہٹالی تھیں ا ورنصابی کتابوں کی حیثیت سے کبھی اس کی بحالی نہیں کی۔ وہ کتابیں ، جس کیلئے مصنفین نے این ۔ سی۔ای۔آر۔ٹی سے رائلٹی کے طور پر ایک ادنیٰ رقم حاصل کی، تب سے پرائیوٹ ناشروں نے شائع کی ہیں اور بہت اچھی طرح فروخت ہورہی ہیں۔ اس ساری کہانی کا لب لباب ابواب اوراقتباسات کا انتخاب ہے جو نصاب سے نکالے جانے ہیں۔ اس تناظرمیں اکیلا مکمل باب جو نکالاجانا ہے وہ ہے مغل دور۔ جبکہ پہلے کی نصابی کتابوں نے ہندوستان میں وسطی دورکے دوسب سے اہم مملکت مغل اوروجے نگر سامراج کے بارے میں بیان کیاہے لیکن ترمیم شدہ کتاب میں صرف بعد والے باب (وجے نگر سامراج) کو باقی رکھاگیا ہے ۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ بچوں پر پڑھائی کا بوجھ کم کرنے کیلئے کچھ مواد نکالے جارہے ہیں۔سوال پیدا ہوتاہے کہ مہاتماگاندھی کے قتل کے سانحہ سے متعلق کچھ جملے نکال دینے سے بچوں پر پڑھائی کابوجھ کتنا کم ہوجائے گا؟ یہ بھی سوال اٹھتاہے کہ مغلوں کی تفصیل ہٹادینے سے یاگاندھی جی کے قتل کی کہانی نکال دینے سے طلبہ اپنے کو کتنا مطمئن محسوس کررہے ہوں گے۔ اگران کو نہیں پتہ چلے گاکہ گاندھی جی کا قاتل کون ہے یا ہندوستان کی تعمیر وترقی میں مغلوں کا کیاکرداررہاہے تو اس سے ملک کو کیا فائدہ پہنچے گا؟آج اطلاعاتی ٹیکنالوجی اتنی آگے بڑھ چکی ہے کہ این۔سی۔ای۔آر۔ٹی کی کتاب سے کچھ باب نکالدینے سے طلبہ ان چیزوں سے بے خبر نہیں رہ سکتے۔ ملک میں قومی یکجہتی بحال کرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ طلبہ صحیح تاریخ پڑھیں اورسمجھیں۔
[email protected]
این سی ای آرٹی کے نصاب میں ترمیم
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS