ڈاکٹر حافظ کرناٹکی
مشہور مزاح نگار فکر تو نسوی نے اردو کی نئی لغت میں مہمان کا معنی بتایا تھا کہ جس کے آنے سے خوشی ہوتی ہے اور چلے جانے سے اور بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ آج کل کا معاشرہ کچھ اسی نوعیت کا ہے۔ مگر اسلامی تعلیمات کی بات ہی کیا ہے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ مہمان کے آنے پر محبت اور خوشی و مسرت کا اظہار کیجئے اور نہایت خلوص اور خوش دلی اور وسعت قلبی اور نہایت عزت و اکرام کے ساتھ اس کا استقبال کیجئے۔ سردمہری، بے رخی، تنگ دلی اور ناگواری کا اظہار ہرگز نہ کیجئے۔ حضورؐ کا ارشاد ہے کہ ؛ ’’جو لوگ خدا اور یوم آخرت پر یقین رکھتے ہیں انہیں اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرنی چاہیے۔‘‘
یاد رہے کہ خاطر تواضع میں وہ ساری باتیں اور سارے سلوک شامل ہیں جو مہمان کے اعزاز و اکرام، آرام و راحت، سکون و مسرت اور تسکین جذبات کے لیے ضروری اور لازمی ہیں۔ مثلاً خوش روئی و خوش اخلاقی سے پیش آنا، ہنسی خوشی کی باتوں سے دل بہلانا، عزت و اکرام کے ساتھ بیٹھنے لیٹنے کا انتظام کرنا، اس کی آرام اور ضرورتوں کا خیال رکھنا، اپنے گھر والوں اور دوسرے دوستوں سے اسے متعارف کرانا، نہایت خوش دلی اور خوش مذاقی کے ساتھ اس کے ساتھ برتاؤ کرنا، اس کے کھانے پینے کے لیے فراخ دلی سے کام لینا اور بہ نفس نفیس خاطر و مدارات میں لگے رہنا یہ ساری باتیں مہمانوں کے اکرام میں شامل ہیں۔
حضورؐ کے پاس جب کوئی مہمان آتے تھے تو آپؐ بہ نفس نفیس ان کی مدارات فرماتے تھے، جب آپؐ مہمان کو اپنے دسترخوان پر کھانا کھلاتے تو بار بار فرماتے اور کھائیے اور کھائیے، تکلّف نہ کیجئے جب مہمان خوب آسودہ ہوجاتا اور انکار کرتا تب آپؐ اصرار کرنا ترک کردیتے۔ اسلامی طریقے کے مطابق مہمان کی آمد پر سب سے پہلے گرم جوشی سے اس سے سلام و دعا کرنی چاہیے۔ اور خیر و عافیت نہایت اپنائیت کے ساتھ دریا فت کرنی چاہیے۔
مہمانوں کی مدارات ہمیشہ دل کھول کر کرنی چاہیے اور جو بھی اچھے سے اچھا اور بہتر سے بہتر میسر ہو وہ مہمانوں کو کھلانا چاہیے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس مہمان آئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام فوراً ان کے کھانے پینے کے انتظام میں لگ گئے اور جو سب سے صحت مند بچھڑا ان کے پاس تھا اسی کو ذبح کر کے اس کا گوشت بھون کر مہمانوں کی خدمت میں پیش کیا قرآن میں ہے کہ؛’’تو جلدی سے گھر میں جاکر ایک موٹا تازہ بچھڑا (ذبح کر کے بھنوالائے اور مہمانوں کے سامنے پیش کیا۔‘‘ (الذاریات ۲۶-۲۷)
مہمان سے اپنی محبت اور خلوص کا اظہار کرنے کے لیے اس سے چپک کرنہ بیٹھ جانا چاہیے، اسے ذرا دیر تنہا بھی چھوڑنا چاہیے، رات گئے تک مہمانوں سے گفتگو میں نہ لگے رہنا چاہیے، ہو سکتا ہے کہ اس طرح مہمان کو آرام کرنے میں تکلیف ہو۔ مہمانوں کے کھانے پینے پر مسرت محسوس کرنا چاہیے، اور اس کا اظہار بھی کرناچاہیے تنگ دلی اور اکتاہٹ کا مظاہرہ ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ مہمان زحمت نہیں بلکہ خیر و برکت کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اور یہ کہاوت تو آپ نے ضرور سنی ہوگی کہ مہمان اپنی روزی لے کر آتا ہے۔ لہٰذا مہمان میزبان کے دسترخوان پر میزبان کی قسمت کا نہیں اپنی قسمت کا کھانا کھاتا ہے۔ اور میزبان کے اعزاز و اکرام میں اضافے کا ذریعہ بنتا ہے۔
مہمان بھی انسان ہوتے ہیں، اور مختلف حفظ و مراتب کے ہوتے ہیں، اس لیے ان کے مقام و مرتبے کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ اس کی عزت و آبرو کو اور اس کے وقار و معیار کو اپنی عزت و آبرو اور اپنا وقار و معیار سمجھنا چاہیے۔ آپ کے مہمان کی عزت پر کوئی حملہ کرے، یا اس کی کوئی توہین کرے تو اسے آپ اپنی توہین جانیے۔ قرآن کریم میں ذکر ہے کہ جب لوط علیہ السلام کے مہمانوں پر بستی کے لوگ بدنیتی کے ساتھ حملہ آور ہوئے تو وہ مدافعت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا؛’’ یہ لوگ میرے مہمان ہیں، اس کے ساتھ بدسلوکی کرکے مجھے رسوا نہ کرو، ان کی رسوائی میری رسوائی ہے۔‘‘، ’’لوطؑ نے کہا، بھائیو! یہ میرے مہمان ہیں، مجھے رسوا نہ کرو خدا سے ڈرو اور میری بے عزتی سے باز رہو۔‘‘ (الحجر ۶۸-۶۹)
تین دن تک نہایت ذوق و شوق اور خوش دلی کے ساتھ میزبانی کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں، کیوں کہ تین دنوں تک کی ضیافت مہمانوں کا حق ہے۔ اور حق ادا کرنے میں مومن کو کبھی بھی بخالت اور تنگ دلی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ بلکہ اس کے برعکس نہایت فراخ دلی کے ساتھ میزبانی کرنی چاہیے۔ پہلا دن خصوصی خاطر و مدارات کا ہے، اس لیے پہلے دن مہمان نوازی کا پورا پورا اہتمام کرنا چاہیے۔ بعد کے دودنوں میں اگر پہلے دن جیسا اہتمام نہ رہ سکے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ حضورؐ نے فرمایا ہے کہ؛ ’’اور مہمان نوازی تین دن تک ہے اس کے بعد میزبان جو کچھ کرے گا وہ اس کے لیے صدقہ ہوگا۔‘‘
مہمانوں کے لیے ہمیشہ ایثار سے کام لینا چاہیے۔ خود تکلیف اٹھاکر مہمانوں کو راحت پہونچانا چاہیے ایک مرتبہ ایک شخص حضورؐ کے پاس آیا اور کہا کہ میں بھوک سے بے تاب ہوں۔ حضورﷺ نے اپنی کسی بیوی کے یہاں کہلوا بھیجا کہ دیکھو گھر میں کچھ کھانے کو ہے۔ جو اب آیا اس خدا کی قسم جس نے آپؐ کو پیغمبر بناکر بھیجا ہے یہاں تو پانی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ پھر آپؐ نے دوسری بیوی کے یہاں خبر بھجوائی وہاں سے بھی یہی جواب آیا یہاں تک کہ آپ نے ایک ایک کرکے ساری بیویوں کے یہاں خبر بھجوائی اور ہر جگہ سے یہی جواب آیا کہ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ آپؐ اپنے صحابیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ آج رات کے لیے اس مہمان کو کون قبول کرتا ہے۔ ایک انصاری صحابی ؓ نے کہا یارسول اللہ میں قبول کرتا ہوں۔ انصاری صحابی مہمان رسول کو اپنے گھر لے گئے اور بیوی سے سارا احوال بیان کیا، بیوی نے کہا کہ میرے پاس بچوں کے کھلانے کے لائق کھانا ہے۔ صحابی ؓ نے کہا کہ بچوں کو کسی طرح بہلا پھسلا کر سلا دو اور جب مہمان کے سامنے کھانا رکھو تو چراغ درست کرنے کے بہانے بجھادو، جب مہمان کے سامنے کھانا رکھا گیا تو یہی کیاگیا۔ صحابی مہمان کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ گئے تا کہ مہمان کو لگے کے میزبان بھی ساتھ میں کھانا کھارہے ہیں۔
اس طرح مہمان نے سیر ہو کر کھانا کھایا اور گھر والوں نے فاقے سے رات گزاری۔ صبح جب یہ صحابیؓ حضورؐکی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے دیکھتے ہی فرمایا تم دونوں نے رات اپنے مہمان کے ساتھ جو حسن سلوک کیا وہ خدا کو بہت پسند آیا۔ مہمان بھی عام انسان ہوتے ہیں، بہت سے ایسے مہمان بھی ہوسکتے ہیں جن کے عادات واطوار اور اخلاق وکردار ہمیں پسند نہ ہوں، کچھ ایسے لوگ بھی ہمارے مہمان ہوسکتے ہیں جنہوں نے بطور مہمان کے ہمیں قبول نہ کیا ہو۔ مہمان چاہے جیسے ہوں ان کی ہر حالت میں خاطر مدارات کرنی چاہیے۔ اپنے ساتھ کیے گئے سلوک کا اپنے یہاں آئے مہمان سے بدلہ نہیں لینا چاہیے۔ جہاں تک ممکن ہو مہمانوں کی خاطر مدارت کرنی چاہیے اور رخصت کے وقت نیک اور دین دار مہمان سے اپنے حق میں دعا کی درخواست ضرور کرنی چاہیے۔
ہم نے دیکھا کہ اسلام ہمیں میزبانی کے کیا کیا آداب سکھاتا ہے اور اپنے مہمانوں کے ساتھ کس طرح کے سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اب ہم دیکھیں گے کہ اسلام جو دین برحق اور دین کامل ہے وہ ہمیں مہمانی کے کیا کیا آداب سکھاتا ہے۔ اسلامی طریقہ جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے وہ یہ ہے کہ کسی کے یہاں مہمان بن کر جب آپ جائیں تو اپنی استطاعت کے مطابق میزبان یا میزبان کے بچوں کے لیے کچھ تحفے تحائف لیتے جائیں۔ جہاں تک ممکن ہوتحفے تحائف میں میزبان کی پسند اور ذوق کا خیال ضرور رکھیں۔ تحفوں اور ہدیوں کے تبادلے سے محبت اور تعلق خاطر میں اضافہ ہوتا ہے۔ جس کے یہاں بھی مہمان بن کر جائیں پوری کوشش کریں کہ تین دن سے زیادہ نہ رکیں۔ اگر کوئی خاص کام اور ضرورت ہو تو اور بات ہے۔ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ؛’’مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ میزبان کے یہاں اتنا ٹھہرے کہ اس کو پریشانی میں مبتلا کردے۔‘‘
ایک اور جگہ ذکر آیا ہے کہ مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے یہاں اتنا ٹھہرے کہ اس کو گنہگار بنادے۔ لوگوں نے دریافت کیا یا رسول ؐ گہنگار کیسے بنادے گا۔ فرمایا اس طرح کہ وہ اس کے پاس اتنا ٹھہرے کہ میزبان کے پاس ضیافت کے لیے کچھ نہ رہے۔
یہ خیال بھی رہنا چاہیے کہ آپ ہمیشہ دوسروں کے ہی مہمان نہ بنیں۔ دوسروں کو بھی اپنے یہاں آنے کی دعوت دیں اور خوب دل کھول کر خاطر مدارات کریں۔ مہمانی میں جاتے وقت موسم کے حساب سے تیاری کریں۔ اگر سردی میں کسی کے مہمان بننے جارہے ہوں تو حتی المقدور بستر اور جاڑے سے بچنے کے کپڑے وغیرہ ساتھ لے کر جائیں۔ تاکہ میزبان کو کوئی تکلیف اور سبکی نہ ہو۔ جس کے بھی آپ مہمان بنیں ان کی ذمہ داریوں اور ضرورتوں کا خاص خیال رکھیں اور اس بات کا اہتمام کریں کہ آپ کی وجہ سے ان کی ذمہ داریوں کی تکمیل میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔ ممکن ہے کہ آپ اپنے گھر میں بہت شان و شوکت اور عیش و آرام سے رہتے ہوں۔ آپ کے گھر میں خدا کے فضل سے ساری سہولتیں میسر ہوں اور آپ جس کے مہمان بنے ہوں ان کے یہاں یہ سہولتیں نہ ہوں، ایسی حالت میں آپ میزبان کوشرمندگی میں مبتلا نہ کریں۔ طرح طرح کی فرمائشیں نہ کریں۔ سہولتیں نہ ہونے کا ذکر نہ کریں آپ اپنے میزبان کے یہاں اس طرح رہیں کہ آپ کے قیام سے کسی کوکوئی تکلیف نہ پہونچے۔ اور نہ انہیں بے جامشقت کا سامنا کرنا پڑے۔
جب کسی کے یہاں دعوت میں جائیں تو کھانے پینے کے بعد میزبان کے لیے روزی میں برکت و کشادگی اور رحمت و مغفرت کی دعائیں کریں۔ حضرت ابوالہشیمؓ بن تیہان ؓ نے حضورؐ کی اور صحابہ کرام ؓ کی دعوت کی، جب سبھی لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو نبیؐ نے فرمایا! اپنے بھائی کو صلہ دو! صحابہ نے پوچھا؛ صلہ کیا دیں؟ یارسول اللہ! حضورؐ نے فرمایا کہ جب آدمی اپنے بھائی کے یہاں جائے اور وہاں کھائے پئے تو اس کے حق میں خیر و برکت کی دعا کرے۔ یہی اس کا صلہ ہے۔
حضورؐ ایک بار حضرت سعد بن عبادہ ؓ کے یہاں تشریف لے گئے، حضرت سعد ؓ نے روٹی اور زیتون پیش کیا۔ آپ ؐ نے تناول فرمایا اور یہ دعا فرمائی؛’’تمہارے یہاں روزے دار روزہ افطار کریں، نیک لوگ تمہا را کھانا کھائیں، اور فرشتے تمہارے لیے رحمت و مغفرت کی دعائیں کریں۔‘‘معلوم یہ ہوا کہ جب ہم کسی کے یہاں مہمان بنیں تو اپنے اخلاق و اطوار کا ایسا مظاہرہ کریں کہ میزبان راحت محسوس کرے۔ یوں بھی کہا گیا ہے کہ مومن کی پہچان یہ ہے کہ جب وہ اپنے کسی مومن بھائی سے ملنے جائے تو گلی اور محلے میں اس کی عزت میں اضافہ ہوجائے۔ معلوم یہ ہوا کہ جو لوگ اہل ایمان ہوتے ہیں وہ چاہے مہمان بنیں کہ میزبان وہ ایک دوسرے کے لیے رحمت بن جاتے ہیں۔