بڑے شہروں کی بے رخی کیوں؟

0

پنکج چترویدی

دہلی سے متصل غازی آباد کا ایک اونچی عمارتوں والا علاقہ ہے- کراسنگ پبلک ، جہاں 29ہائوسنگ سوسائٹی ہیں۔ شرح خواندگی تقریباً صد فیصد۔ یہاں کل 7358 ووٹرس رجسٹرڈ ہیں۔ اترپردیش میں دوسرے مرحلے کے میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں ان میں سے محض 1185 ووٹ ڈالے گئے۔ محض تقریباً 16 فیصد۔ ویسے تو پورے میونسپل کارپوریشن علاقے میں ووٹرس کی تعداد کسی لوک سبھا سیٹ سے کم نہیں ہے- 15 لاکھ 39 ہزار 822، لیکن ان میں سے بھی صرف 36.81 فیصد لوگ ووٹ ڈالنے گئے۔ یہاں سے فاتح میئر عہدے کی امیدوار کو 350905 ووٹ ملے یعنی کل ووٹروں کے محض 22 فیصد کی پسند کا میئر۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں مقامی بلدیاتی انتخابات دو مرحلوں میں ہوئے۔ 17 میونسپل کارپوریشنوں میں انتخابات میں ووٹنگ بہت ہی مایوس کن رہی۔ اجودھیا میں ووٹنگ ہوئی- 47.92 فیصد اور فاتح کو اس میں سے بھی 48.67 فیصد ہی ووٹ ملے۔ باقی بریلی 41.54 فیصد ووٹ ڈالے گئے اور فاتح کو اس میں سے بھی ساڑھے سینتالیس فیصد ملا، کانپور میں 41.34 فیصد ووٹنگ ہوئی اور فاتح کو اس میں سے بھی 48 فیصد ملا۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے شہر گورکھپور میں تو ووٹنگ 34.6 فیصد ہوئی اور فاتح کو اس کا آدھا بھی نہیں ملا۔ وزیر اعظم کے پارلیمانی علاقے بنارس کے شہر کے صرف 38.98 فیصد لوگ ہی ووٹ ڈالنے نکلے اور میئر بن گئے نیتا جی کو اس کا 46فیصد ملا۔ ملک کی سیاست کا اہم مرکز رہے الٰہ آباد یعنی پریاگ راج میں توو وٹنگ محض 31.35 فیصد رہی اور اس میں سے بھی 47 فیصد پانے والا شہر کا میئر بن گیا۔ راجدھانی لکھنؤ کا حال تو بہت برا تھا، وہاں پڑے -صرف 35.4 فیصد ووٹ اور فاتح کو اس میں سے بھی 48فیصد۔ تمام 17 میونسپل کارپوریشنوں میں سہارنپور کے علاوہ کہیں بھی آدھے لوگ ووٹ ڈالنے نہیں نکلے اور فاتح کو بھی تقریباً اس کا آدھا یا اس سے کم ملا۔ ظاہر ہے فاتح میئر بھلے ہی تکنیکی طور پر اکثریت کا ہے لیکن ایمانداری سے یہ شہر کے زیادہ تر لوگوں کی نمائندگی کرتا ہی نہیں ہے۔
غور کرنے والی بات ہے جو شہر جتنا بڑا ہے، جہاں ترقی اور عوامی سہولتوں کے نام پر سرکاری بجٹ کا زیادہ حصہ خرچ ہوتا ہے، جہاں شرح خواندگی، فی کس آمدنی وغیرہ اوسط سے بہتر ہے وہیں کے لوگ ووٹ ڈالنے نہیں نکلے۔
خیال رہے کہ اترپردیش میں کل 17 میونسپل کارپوریشن میں 1420 وارڈ ہیں جن میں ووٹروں کی تعداد ایک کروڑ نوے لاکھ ستاسی ہزار سات سو چونتیس (1,90,87734) ہے جو کہ ملک کی کئی ریاستوں سے زیادہ ہے۔ میونسپلٹیوں کی تعداد 199 ہے جن میں 5327 وارڈ اور ایک کروڑ 79 لاکھ 1176ووٹرس ہیں۔ نگر پنچایتوں کی تعداد 544، ان میں وارڈوں کی تعداد 7177 اور ووٹرس 93,50541 ہیں۔ پہلے مرحلے میں نو زونوں میں 390 مقامات پر انتخابات ہوئے۔ سب سے زیادہ مایوسی بڑے شہروں میں ووٹنگ کے سلسلے میں ہے اور یہ جمہوریت کے لیے بڑا خطرہ ہے، بھلے ہی کچھ لوگ اس میں سے جیت جائیں لیکن وہ کل ووٹروں کے محض پندرہ سے بیس فیصد لوگوں کے ہی نمائندے ہوں گے۔ یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ جن بڑے شہروں میں کم ووٹنگ ہو رہی ہے وہاں ترقی کے نام پر سب سے زیادہ رقم لگائی جاتی ہے اور سب سے زیادہ ووٹنگ والے چھوٹے قصبے گندگی، نالی جیسی بنیادی سہولتوں پر بھی خاموش رہتے ہیں۔
یہ الزام لگایا جاسکتا ہے کہ پڑھا لکھا متوسط طبقہ گھر بیٹھ کر جمہوریت کو کوستا تو ہے لیکن ووٹنگ کے تئیں مایوس رہتا ہے۔ یہ قابل غور ہے کہ کیا ووٹ نہ ڈالنے والے آدھے سے زیادہ فیصد لوگوں کی نگاہ میں انتخاب لڑ رہے سبھی امیدوار یا موجودہ انتخابی نظام بہتر نہیں تھا؟ جن نتائج کو سیاسی پارٹیاں عوام کی آواز کہتی رہی ہیں، ایمانداری سے تجزیہ کریں تو یہ سیاسی نظام کے خلاف عدم اعتماد کی ووٹنگ تھی۔ جب کبھی ووٹنگ کم ہونے کی بات ہوتی ہے تو انتظامیہ اور سیاسی پارٹیاں زیادہ گرمی یا چھٹی نہ ہونے جیسی وجوہات گنانے لگتی ہیں لیکن اس بار تو موسم بھی سہانا تھا اور بڑے شہروں میں سبھی ادارے بھی بند تھے۔ اس تلخ حقیقت کو سبھی لیڈروں کو قبول کرنا ہوگا کہ ووٹ دینے نہ نکلنے والے لوگوں کی بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو مقامی بلدیاتی اداروں کے کام کے نظام سے مایوس اور نا امید ہیں۔
یہ بھی مایوس کن پہلو ہے کہ عام لوگ یہ نہیں جانتے کہ مقامی بلدیاتی ادارے کے ترجمان سے اسے کیا امید ہے اور ممبر اسمبلی اور اپنے پارلیمان سے کیا، وہ رکن پارلیمان سے سڑک نالی کی بات کرتا ہے اور میونسپل انتخابات میں پاکستان کو مزہ چکھانے کی تقریر سنتا ہے۔ ایک بات اور ہزاروں لوگ ایسے سڑک پر ملے جنہوں نے لوک سبھا اور ودھان سبھا میں ووٹ ڈالا، ان کے پاس ووٹر آئی ڈی کارڈ ہے لیکن ان کے نام مقامی بلدیاتی ادارے کی فہرست میں تھے ہی نہیں۔
ووٹروں کی بڑھتی تعداد کے ساتھ ساتھ امیدواروں کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن اس کے تقابل میں نئے ووٹرس سینٹرس کی تعداد نہیں بڑھی ہے۔ رائے دہندگان کی فہرست میں نام جڑوانا مشکل ہے اور اس سے بھی مشکل ہے اپنا آئی ڈی کارڈ حاصل کرنا۔ ایک آنکڑے کو باریکی سے دیکھیں تو ووٹر لسٹ تیار کرنے یا اس میں نام جڑنے میں آنے والی دشواریوں کا تجزیہ ہوسکتا ہے۔ اترپردیش میں میونسپل کارپوریشن والے 17 شہروں میں مرد ووٹرس تو ایک کروڑ 27 ہزار 203 ہیں لیکن خاتون ووٹرس کی تعداد صرف 88 لاکھ، 17 ہزار، 531 ہے۔ بڑے شہروں میں اتنا زیادہ صنفی امتیاز کا آنکڑا ہوتا نہیں لیکن واضح ہے کہ خاتون ووٹرس کے رجسٹریشن کے کام میں مایوسی ہے۔
آج انتخاب سے بہت پہلے بڑے بڑے پالیسی ساز ووٹرس کی فہرست کا تجزیہ کرکے طے کرلیتے ہیں کہ ہمیں فلاں ذات یا سماج یا علاقے کے ووٹ چاہیے ہی نہیں یعنی جیتنے والا علاقے کا نہیں، کسی ذات یا مذہب کا نمائندہ ہوتا ہے۔ یہ چنائو لوٹنے کے ہتھکنڈے اس لیے کارگر ہیں، کیونکہ ہمارے یہاں چاہے ایک ووٹ سے جیتے یا پانچ لاکھ ووٹ سے، دونوں کے ہی ایوان میں حقوق برابر ہوتے ہیں۔ اگر بلدیاتی اداروں میں کل ووٹنگ اور جیت کے فرق سے علاقے کی عوامی سہولتوں اور کونسلر کی حیثیت طے کرنے کا قانون آئے تو نمائندہ نہ صرف ووٹرس لسٹ میں لوگوں کے نام جڑوائیں گے بلکہ ووٹرس کو ووٹ ڈالنے کے لیے بھی تحریک دیں گے۔
سیاسی پارٹیاں کبھی نہیں چاہیں گی کہ ووٹنگ زیادہ ہو، کیونکہ اس میں ان کے محدود ووٹ بینک کے اقلیت میں ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ کوئی بھی پارٹی انتخاب سے پہلے گھر گھر جاکر ووٹرس لسٹ کے ترمیم کا کام یوں ہی نہیں کرتی اور بی ایل او پہلے سے ہی کئی ذمہ داریوں میں دبے ہوتے ہیں۔ ہماری جمہوریت بھی ایک ایسے نسبتاً آئیڈل انتخابی نظام کی طرف دیکھ رہی ہے جس میں کم سے کم سبھی ووٹروں کا رجسٹریشن ہو اور ووٹنگ کو ٹھیک طریقے سے ہونا یقینی بنایا جائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS