مرادآباد کے فسادات کو 43سال ہوگئے۔ جن بچوں نے اس فساد کو دیکھا اورسمجھاہوگا ، وہ اب بوڑھے ہوگئے ہوں گے ۔جو اس وقت جوان تھے ، ان میں سے بہتوں کی موت ہوگئی ہوگی ۔ اس وقت کے معمر اکادکا باحیات ہوں گے ۔ظاہر سی بات ہے کہ اتنے طویل عرصے بعد جب لوگ فسادکو بھول گئے ۔حالات بھی بدل گئے ۔اب اس کی تحقیقاتی رپورٹ منظرعام پر لانے کاحکومت اترپردیش نے جو فیصلہ کیا ہے ،اس کے پیچھے کوئی خاص مقصد یاکوئی سیاسی فائدہ ہوسکتا ہے ۔لوگوں کو اس میں شاید ہی کوئی دلچسپی ہو یا اس کی ضرورت محسوس کرتے ہوں ۔12 مئی کو وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی صدارت میں کابینہ کی میٹنگ میں دیگر فیصلوں کے ساتھ ایک فیصلہ یہ بھی کیا گیا کہ مرادآباد فسادات کی جانچ جس ایک رکنی عدالتی کمیشن نے کی تھی ، اس کی رپورٹ اب سرکار اسمبلی میں پیش کرے گی ۔ کیوں پیش کرے گی ؟ ا س کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ یہ تو پتہ نہیں چلا، لیکن کابینہ کے فیصلہ سے لوگوں کو یہ جانکاری ضرورہوگی کہ فسادات کی جانچ رپورٹ ابھی تک فائلوں کی زینت بنی ہوئی ہے ۔لوگ یہ تو جانتے ہیں کہ ایسے معاملوں کی جانچ سرکار کراتی ہے ، لیکن رپورٹ پیش ہوتے ہوتے لوگ معاملہ کو بھول جاتے ہیں ، لوگوں کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ فسادات کی جانچ کرائی گئی تھی ، رپورٹ پیش ہونا اوراس کا نفاذ باقی ہے ۔ لوگ عام طورپر یہی سمجھتے ہیں کہ جس معاملہ میں سرکارکو فوری کارروائی کرنی ہوتی ہے ، وہ پولیس کو سونپ دیا جاتاہے اورجس میں فوری کارروائی نہیں کرنی ہوتی ، اس کی جانچ کیلئے کوئی کمیشن تشکیل دے دیا جاتا ہے ۔ جس کی رپورٹ عموما دیر سے آتی ہے ۔
مرادآبادکا فساد 13اگست 1980کوعیدکے دن ہواتھا، اس میں سرکاری طورپر 83افراد ہلاک اور112زخمی ہوئے تھے ۔ فسادات بھڑکنے کے ایک ماہ بعدتک وہاںکرفیولگارہا ۔ اس وقت ریاست کے وزیراعلی وی پی سنگھ نے فسادکی جانچ کیلئے الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ایم پی سکسینہ کی صدارت میں ایک رکنی عدالتی تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا تھا۔جس نے رپورٹ 3 سال بعد 20 نومبر 1983 کوحکومت کو پیش کردی ۔ظاہر سی بات ہے کہ 3سال بعد حالات معمول پر اورزندگی پٹری پر آگئی ہوگی ۔پتہ نہیں اس وقت لوگوں نے تحقیقاتی رپورٹ کے نفاذ کی مانگ کی تھی یا نہیں؟ اورسرکارنے رپورٹ اسمبلی میں کیوںنہیں پیش کی ؟ بات صرف اس وقت کی سرکار کی نہیں ، بلکہ رپورٹ کی پیشی کے وقت وی پی سنگھ وزیراعلی تو نہیں رہے ، لیکن ان کے بعد اب تک 17وزیراعلیٰ بن چکے ، جن میںسے بعض 2-2اور3-3 بار وزیراعلیٰ بنے، ان میں بی جے پی کے وزرااعلیٰ کلیان سنگھ ، رام پرکاش گپتا ، راجناتھ سنگھ بھی شامل ہیں اورگزشتہ 6سال سے یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت ہے ۔اس دوران کسی کو مرادآباد فساد کی تحقیقاتی رپورٹ کو منظر عام پر لانے کا خیال کیوں نہیں آیا ؟کیا وہ بھی عام لوگوں کی طرح اس رپورٹ سے ناواقف تھے ؟یاوہ رپورٹ کو منظر عام پر لانا اوراسے نافذ کرنا بھول گئے ؟پہلی اننگز میں موجودہ یوگی سرکارنے اس بابت کیوں نہیں سوچا ؟اس رپورٹ کو فائلوں میں دبانے کے پیچھے یا تو مصلحت ہوگی یا سیاست کارفرماہوگی ۔ فسادات کے 43سال اوررپورٹ کی پیشی کے 40 سال بعد کیوں سرکار نے رپورٹ کومنظرعام پرلانے کا فیصلہ کیا ؟ظاہر سی بات ہے کہ فسادمیں جن کو نشانہ بنایاگیا ، اوررپورٹ میں جن کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہوگا ، وہ شاید اب دنیا میں نہیں ہوں گے ۔ایسے میںرپورٹ کو منظر عام پر لانے کے مقصد اورنیت پرسوال اٹھایا جاسکتا ہے ۔
1992-93میں ہوئے ممبئی فسادات کی رپورٹ 1998میں پیش ہوگئی تھی۔اس وقت اس رپورٹ کو منظر عام لانے اوراس کے نفاذ کی مانگ کی گئی تھی تو وہاں کی شیوسینا۔ بی جے پی سرکار نے اسے گڑے ہوئے مردے کو اکھاڑنے سے تعبیر کیا تھا۔ یہاں فسادات کے 43سال بعدرپورٹ کواسمبلی میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ جب مرادآباد کے حالات بالکل نارمل ہیں ،اوررپورٹ منظرعام پر آنے سے کشیدگی کاامکان ہے، کیونکہ رپورٹ کے کچھ نہ کچھ اثرات حالات پرپڑیں گے اورنفرت وپولرائزیشن کی سیاست ہوگی ۔اس کا بھی امکان ہے کہ کسی کو کلین چٹ دینااورکسی کو کٹہرے میں کھڑاکرنا مقصود ہو۔اسمبلی میں رپورٹ کی پیشی اور اسے منظرعام پر لانے کے پیچھے کوئی نہ کوئی بات ضرورہے ، جس پر ابھی خاموشی ہے ،لیکن بعد میں حقیقت سامنے آئے گی ۔
[email protected]
مرادآباد فساد کی رپورٹ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS