یوگیندر یادو
ایگزٹ پول نے اس بات کی تصدیق کردی کہ جو کہ کافی پہلے سے ظاہر ہوچکی تھی ۔ اس مرتبہ کرناٹک میں کانگریس الیکشن جیتے گی۔ اب ان انتخابات میں کتنی سیٹیں کانگریس کو ملیں گی اس بات کو لے کر بحث چل رہی ہے۔ زیادہ تر ایگزٹ پولز نے بتایا ہے کہ کانگریس کو محض 110اور 115کے درمیان سیٹیں ملیں گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کانگریس ایک اورآپریشن کمل کا شکار ہوسکتی ہے۔ لیکن مجھے اب بھی اس بات پر یقین ہے کہ کانگریس کو نہ صرف یہ کہ مکمل اکثریت حاصل ہوجائے گی بلکہ شاندار اکثریت ملے گی۔ اگر میں انڈیا ٹوڈے کے ایکسس مائی انڈیا پروجکشن کے ایگزٹ پول کا جائزہ لوں تو اس میں کہا گیا ہے کہ کانگریس کو 122اور 140کے درمیان سیٹیں ملیں گی۔ جبکہ بی جے پی کو 62 اور 80سیٹوں پر کامیابی ملنے کا امکان ہے۔ جنتا دل سیکولر کو 20 سے 25حلقوں میں کامیابی مل سکتی ہے۔ لیکن میں الیکشن سے پہلے ہونے والے ’ایڈینا ڈاٹ کام eedina.com‘ کے سروے سے متفق ہوں۔ میرا خیال ہے کہ کانگریس 140تک سیٹیں حاصل کرسکتی ہے۔ یہ میرا مجموعی طور پر لیا گیا جائزہ مکمل طور پر اپنے ٹارگیٹ سے الگ نہیں ہے۔ لیکن اس جائزے سے ہم اس بڑے سوال پر غور کرسکتے ہیں کہ کیا کرناٹک میں ہونے والی جیت کو دوسرے ریاستوںاور 2024 کے لوک سبھا الیکشن تک لے جایا سکے گا؟ سیاسی مارکیٹنگ کے معاملے پر آپ کو تین سوالوں کا جواب حاصل کرنے ہوں گے۔ اولاً یہ کہ آپ کا پیغام کیا ہے ؟ آپ کے ٹارگیٹ آڈینسTarget audience کونسا ہے ؟ اورآپ کو اپنے ٹارگیٹ آڈینس تک کیسے پہنچیں گے اور کس طریقے سے اپنی بات منوا سکیںگے۔ کیا کرناٹک میں کانگریس کی متوقع جیت ان تینوں سوالو ںکا حل تلاش کرنے میں کامیاب ہوسکے گی۔ یہ وہ سوال ہے جو ٹیلی ویژن پر ہونے والے مباحثوں میں زیر بحث نہیں آئے گا۔ آپ 13مئی کو ٹیلی ویژن پر ہونے والے مباحث میں یہ سنیں گے کہ اس جیت یا ہار کا کریڈٹ کسے دیا جائے اور کسے مورد الزام ٹھہرایا جائے۔ وہ اینکر جو کہ جیت ہونے پر اس کاکریڈٹ وزیر اعظم نریندر مودی کو دیتے اگر بی جے پی کو کامیابی مل جاتی مگر اگر ہار ہوجاتی ہے تو وہ اس شکست کے الزام سے وزیر اعظم کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ مقامی لیڈر شپ پر اس کا الزام تھوپ دیں گے اور اسی طرح کانگریس کے لیڈر بھی قومی لیڈروں شاید صدر ملکا ارجن کھڑگے کے ساتھ ساتھ راہل گاندھی کو بھی اس کا کریڈٹ دیں گے اور یہ دعویٰ کریں گے کہ اس مرتبہ کانگریس پارٹی نے سب کچھ ٹھیک ٹھاک طریقے سے کیا۔
ان دونوں شکلوں کے رد عملوں میں کچھ سچائی بھی ہے۔ بی جے پی کی لوکل لیڈر شپ کو اس شکست کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ جبکہ کانگریس پارٹی جیتنے کے بعد قومی لیڈر شپ کو کریڈٹ دے گی۔ لیکن یہ سب پوری کہانی نہیں ہے۔ کسی بھی صورت میں 2024کے الیکشن میں یہ کریڈٹ اور قصوروار ٹھہرانے کی بحث بے نتیجہ ہونے والی ہے۔
کچھ آوازیں ایسی بھی سنائی دے سکتی ہے کہ کرناٹک میں بی جے پی کی شکست 2024کے لوک سبھا کے انتخابات پر سایہ بن کر منڈلا تی رہے گی۔ کانگریس میں کچھ ایسے پرجوش لوگ بھی ہیں جو یہ کہنے لگیں گے کہ یہ بی جے پی کے زوال کے ابتدا ہے۔ ٹیلی ویژن کے اینکر اور بی جے پی کے ترجمان (جن کے بارے میں یہ تفریق نہیں کی جاسکتی کہ کون کیا ہے)یہ بات سمجھانا شروع کردیں گے کہ ریاستی اسمبلی کے الیکشن کے نتائج قومی سطح پر اثرانداز نہیں ہوگی۔ یہ بات صحیح ہے کہ ہوسکتا ہے کرناٹک کے اثرات اورپڑوس کے ریاست تلنگانہ تک میں اثر ڈال نہ ڈال سکیں۔ چہ جائے کہ قومی سطح پر اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ اسمبلی الیکشن کے رجحانات لوک سبھا کے انتخابات تک برقرار ہیں۔ اس بات کا بھی احتمال ہے کہ اسمبلی انتخابات کے نتائج کرناٹک میں ہی لوک سبھا کے انتخابات تک نہ دکھائی دے۔
کرناٹک اسمبلی انتخابات کا جو بھی نتیجہ نکل کر سامنے آئے گااس کے اثرات 2024کے الیکشن تک برقرار رکھنا اہمیت کا حامل ہے۔ کرناٹک میں اگر موجودہ بی جے پی کی حکومت دوبارہ منتخب ہوجاتی ہے تو اس کا نتیجہ پورے ملک میں اپوزیشن کے نفسیات پر پڑنے والا ہے اور اس کا اثر بڑے پروگرام یعنی لوک سبھا الیکشن سے پہلے ہی بی جے پی کو ایک واک آور مل جائے گا۔ کانگریس کی کرناٹک میں جیت ہم کو یہ بات یاد دلائے گی کہ بی جے پی کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جس کو شکست نہ دی جاسکے اور یہ جیت بھارت جوڑو یاترا کے ذریعہ پیدا کی گئی تحریک کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے گی اور یہ بات کانگریس کے پارٹی ورکروں کو محسوس کرائے گی کہ راہل گاندھی اور مودی کے درمیان براہ راست مقابلہ میں ضروری نہیں کہ مودی ہی جیتیں ۔ یہ بات نہ اس سے زیادہ ہے نہ ہی اس سے کم ہوگی۔
2024کے الیکشن کے لیے کرناٹک میںجیت کو برقرار رکھنا ضروری ہوگا۔ یہ وہی لائن ہے جس کو اپوزیشن پارٹیوں کے لیے برقرار رکھنا ضروری ہوگا۔ میں کچھ نکات پر آپ کا توجہ دلانا چاہ رہا ہوں کہ کرناٹک کے اسمبلی انتخابات کے ایگزٹ پولس سے آپ کس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں۔
حکومت کرنے کا انداز اہمیت کا حامل ہے
کرناٹک اسمبلی الیکشن میں یہ بات ثابت کردی ہے کہ حکومتوں کی کارکردگی ووٹروں کے لیے کافی اہمیت رکھتی ہے اور عوام خراب کارکردگی کا مظاہر کرنے والی حکومتوں کو سبق سکھانا جانتے ہیں اور یہ بات اب ثابت ہوچکی ہے کہ کرناٹک کے ووٹرس خراب کارکردگی کو سزا دینے کے لیے دوسری سیاستوں کے مقابلہ میں زیادہ تیار رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بسوا راج بومئی کی حکومت ایک سافٹ ٹارگیٹ رہی ہے جس کو آسانی کے ساتھ منہدم کیا جاسکتا ہے۔ مگر ذرا سوچئے ان کے مقابلہ میں نریندر مودی کا ریکارڈ بھی کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے۔ ذرا سوچئے نوٹ بندی کے بارے میں۔ کووڈ-19میں جو بدنظمی ہوئی ہے اس کے علاوہ چین کی سرحد پر جو گھپلے ہوئے ہیں۔ ہر روز ایک نیا اسکینڈل سامنے آتاہے ۔ بڑھتی قیمتوں کے لیے بومئی کو نہیں بلکہ مودی کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے اور یہ ایشوز بی جے پی کو کرناٹک میں کافی متاثر کرے گا۔ جہاں تک کرپشن کا معاملہ ہے آج بھی گوتم اڈانی سے وابستہ اسکینڈل ، ہر روز کے مباحثے میں سامنے آتے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ مودی کے گرد بنایا گیا دائرہ آہستہ آہستہ کمزور پڑرہا ہے۔ اگر اپوزیشن کوئی ایسا راستہ تلاش کرسکے جو نریندر مودی کے امیج کو منہدم کرسکے تو مودی کو شکست دی جاسکتی ہے۔
فرقہ پرستی ترپ کا پتہ نہیں ہے
دوسری بات یہ کہ ایگزٹ پول کے جو نتائج فی الحال سامنے آرہے ہیں ان سے یہ ثابت ہوتاہے کہ یہ ضروری نہیں کہ فرقہ واریت کی بنیاد پر تقسیم کرنے میں ہمیشہ ہی کامیابی کا سبب بنے۔ کرناٹک میں فرقہ پرستی کی سیاست ایک اہم کیس تھا۔ بی جے پی نے کرناٹک کو نفرت کی تجربہ گاہ میں تبدیل کردیاتھا۔ حجاب پر طوفان مچا یا گیا۔ اذان پر پابندیاں لگائی گئیں۔ اسپانسرڈ لنچنگ ، لوجہاد کی افواہیں اور فرضی کہانیاں، ٹیپو سلطان کے خلاف مہم اور ریاستی نصابی کتب میں فرقہ پرستی کی آمیزش کردی گئی ہے۔ وزیراعظم خود ایک نچلی سطح پر پہنچ کر بجرنگ دل اور بجرنگ بلی کے درمیان کرناٹک میں موازنہ کرتے ہوئے نظرآئے۔ ایک بے عمل الیکشن کمیشن کی وجہ سے بی جے پی نے فضا کو فرقہ وارانہ بنانے کی کوئی کوشش نہیں چھوڑی جس سے حالات کو فرقہ وارنہ کیا جاسکے۔
مگر اس سب کے باوجود ووٹرز نے توجہ نہیں دی، ان سطور کو لکھتے وقت تک ماحول کو فرقہ وارانہ بنانے کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔ ایگزیٹ پولز میں کسی بھی طرح سے ہندو مسلم ایشو پر غور نہیں کیا گیا۔ اس کا فوکس بالکل واضح تھا کہ روز مرہ کے ایشوز جیسے قیمتوں میں اضافہ بے روزگاری پر رہا ۔ ہندو مسلم تقسیم انتخابی سیاست میں کوئی فیصلہ کن ایشو ابھر کر سامنے نہیں آیا۔
زمینی حقائق پر توجہ برقرار رکھیں
کانگریس کے تیسرا سبق یہ ہے کہ اس کو اپنے آپ کو زمینی حقائق سے وابستہ رکھنا چاہیے۔ انڈیا ٹو ڈے نے ووٹر کے سماجی پس منظر کے ڈاٹا کو شیئر کیا ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ لنگایت ووٹروں کا بی جے پی چھوڑ کر کانگریس کی طرف آنے والی بات غلط تھی ۔ بی جے پی کو کچھ ووکالیگا ووٹرز کی کچھ حمایت تو ملی مگر مجموعی طور پر یہ ووٹر جنتا دل (ایس)کے ساتھ جڑا رہا۔
اس بات کے بھی شواہد نہیں ملے کہ بایاں، دایاں مکتب فکر کی تقسیم شیڈولڈ کاسٹ ووٹروں میں ہے یہ بات نظر نہیں آئی اس کا بہت شور تھا۔ مسلمانوں نے کانگریس کو ہی ووٹ دیا جبکہ اندیشہ ظاہر کیا جار ہا تھا کہ ان کے ووٹوں میں تقسیم ہوگی ۔ ایگزٹ پولز یہ بھی سماجی طبقات اور جنس پر بہت زیادہ اثر انداز ہونے والاایشو تھا۔ مردوں کو کانگریس کو بی جے پی سے پانچ فیصد زیادہ مردوں کا ووٹ ملا، مگر کانگریس کے مقابلے میں عورتوں کا بی جے پی کو 11فیصد زیادہ ووٹ ملا۔ مالدار طبقات میں بی جے پی کی زیادہ مقبولیت ہے(وہ لوگ جو 20,000سے زیادہ کماتے ہیں اور جن کی تعداد ک ووٹروں کا محض 16فیصد ہے) کانگریس کو باقی 84فیصد طبقہ کا ووٹ ملا، یہ بات انڈیا ٹو ڈے کے سروے میں سامنے آئی۔ جنتا غریب ووٹر ہوگا اتنا ہی وہ کانگریس کو ووٹ دے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کانگریس نے بہت چالاکی سے اپنے اس طبقہ کے ووٹروں کو پانچ گارنٹوں کے ذریعہ ساتھ ملا یا ہے۔ ان میں سے دو گارنٹیاں عورتوں کے لیے تھیں، جبکہ دیگر تینوں گارنٹیاں غریبوں کے مختلف طبقات کے لیے تھیں۔ اگر کانگریس 2024 میں مودی سرکار کو ٹکر دینا چاہتی ہے تو اس کو یہی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔ دراصل کرناٹک کے الیکشن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کانگریس کو اس طرف ہی چلنا چاہیے اور اس سمت میں اور آگے بڑھنا چاہیے اور امیدواروں کے انتخابات کے معاملہ میں بھی یہی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے، سماج کے اس طبقہ پر زیادہ فوکس کرنا چاہیے۔
اورآخر میں کرناٹک کے الیکشن یہ ثابت کردیا ہے کہ پکے ارادے اور محنت کا پھل ملتا ہے۔ کانگریس نے یہ دکھادیا کہ کس طریقے سے مل کر بی جے پی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلا ہے کہ کانگریس کو کسی جادوئی حربے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ 2024میں مودی کو شکست سے دوچار کردے۔ اپوزیشن کا فوکس بنیادی اور حقیقی ایشو پر ہونا چاہیے۔ ان کی زبان اور کام دونوں میں 24گھنٹے 365دن میں یہی حکمت عملی رہنی چاہیے۔ اس سے بالکل الٹ بی جے پی کرنے پر مجبور ہوگی۔
2024میں بی جے پی کو ہرانا بہت آسان
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS