ڈاکٹر محمد ضیاء اللہ
عرف عام میں یہ بات اس قدر معروف اور بدیہی ہے کہ اس کے سچ ہونے پر کسی کو شک تک نہیں ہے۔ اکثر ہم سب سنتے ہیں کہ کمزور بنیادوں پر جو عمارت کھڑی ہوگی وہ پائیدار نہیں ہوسکتی۔ اس مقولہ پر شک اس لئے بھی نہیں کیا جاتا کیونکہ ہر ذی شعور انسان کا یہ عملی تجربہ بھی ہے کہ کمزور بنیادیں طویل و محفوظ مستقبل کا ضامن نہیں ہوا کرتی ہیں۔ اسی کے ساتھ یہ حقیقت بھی واضح اور قابل فہم ہے کہ جس نظام یا ریاست کی بنیاد ظلم اور قتل کے اصولوں پر قائم ہو اس کا تادیر قائم رہنا بھی اصول ربانی کے خلاف ہے۔ صہیونی ریاست اسرائیل کا بھی یہی انجام ہوگا اور دیر یا سویر اس کا مٹ جانا ہی اس کا مقدر ہے۔ ہندوستانی فلسفہ میں بھی اس صورت حال کی تصویر کشی اس انداز میں کی گئی ہے کہ ‘‘سچ پریشان ہوسکتا ہے لیکن شکست نہیں کھا سکتا’’۔ شکست ہمیشہ اس قوم کا مقدر ہوتی ہے جو اپنے عمل سے یہ ثابت کر دے کہ اب اس کا مٹ جانا ہی عدل و حق کے بقاء کے لئے ضروری ہے۔
اسرائیل آج کی دنیا میں واحد ایسا ملک ہے جو 1948 سے قبل کے دور اور اس کے بعد سے لے کر اب تک یہ ثابت کر چکا ہے کہ اس کا وجود انسانیت کے لئے ایک لعنت بن چکا ہے اور اس کے وجود کے خاتمہ میں ہی دنیا کی تمام انصاف پسند قوموں کے پر امن مستقبل کا تخم پوشیدہ ہے۔ ہر برس 15 مئی کو اہل فلسطین یوم نکبہ کے طور پر مناتے ہیں اور ان شہداء کو یاد کرتے ہیں جنہوں نے اپنے وطن اور ایمان کی راہ میں اپنی زندگیوں کا قیمتی نذرانہ پیش کیا تھا۔ جو زندہ بچ گئے تھے وہ غزہ اور ویسٹ بینک کے علاوہ اردن و عراق اور شام لبنان میں پناہ گزینی کی تکلیف دہ زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے تھے اور آج تک اپنے اپنے گھروں کی کنجیاں اس امید میں ساتھ رکھے ہوئے ہیں کہ ان کی واپسی جلد یا دیر ان کے اپنے گھروں تک ضرور ہوگی۔ یہ لوگ ان تمام صہیونی مظالم کی داستان بھی اپنی آئندہ نسلوں کو سناتے چلے آ رہے ہیں جن کی وجہ سے وہ نہ صرف بے گھر ہوئے تھے بلکہ اپنے بچوں کے مستقبل کے اندھیرے پن کا بوجھ بھی آج تک اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے چلے آ رہے ہیں اور ابھی تک انہیں انصاف نہیں ملا ہے۔ لیکن ان تمام مصائب کے باوجود فلسطین کے نوجوان، عورت، بوڑھے اور بچے سب اپنے اس مقصد میں متحد نظر آتے ہیں کہ انہیں اب دوسرا نکبہ قبول نہیں ہے۔ وہ اس بات سے بھی گھبراتے نظر نہیں آتے ہیں کہ انہیں اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے اہل خانہ خاص طور سے بچوں اور عورتوں کی قربانیاں پیش کرنی پڑ رہی ہے۔ حالانکہ اسرائیل سے لے کر امریکہ تک کے تمام صہیونی عناصر اس کوشش میں مسلسل لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح سے اہل فلسطین کو ڈرا دھمکا کر انہیں دوبارہ ان کی زمینوں اور ان کی تہذیب و تاریخ سے بے دخل کر دیا جائے۔
لیکن اچھی بات یہ ہے کہ تاریخ کا پہیہ گردش کرکے اب اپنے صحییح محور تک پہنچ چکا ہے۔ اب ارض فلسطین اور مسجد اقصی کے تحفظ کی خاطر ایک ایسی جماعت وجود میں آ چکی ہے جو مسئلہ کے بنیادی نقطہ کو اپنی تحریک کا مقصد بنا چکی ہے۔ فلسطین کا مسئلہ ہمیشہ سے ایک دینی و ایمانی مسئلہ تھا اور تا قیامت اس کی یہی حیثیت رہے گی۔ عرب نے فلسطین کو اس لئے کھو دیا تھا کیونکہ وہ اس کو دین کی بنیاد پر نہیں لڑ رہے تھے۔ حالانکہ مسجد اقصی کی طرف رخ کرکے اول اول مسلمانوں کو نماز پڑھنے کا جو حکم دیا گیا تھا اس میں ہی اس الہی مقصد کا اعلان تھا کہ دین و دنیا پر ہر طرح کی قیادت کا امتیاز اب بنی اسرائیل سے واپس لیا جا رہا ہے کیونکہ اس نے اپنے نا زیبا کرتوت سے یہ ثابت کر دیا تھا کہ اس میں اب خیر کا کوئی پہلو باقی نہیں رہا۔ اس کے بعد امت محمد کی طرف قیادت کی منتقلی کے پہلو کو اللہ نے دوبارہ مؤکد طور پر اس وقت سمجھایا جب اپنے آخری نبی کو مسجد حرام سے مسجد اقصی اور پھر آسمان تک بلایا تھا۔ اللہ نے جب اپنے آخری نبی کو آسمان پر بلایا تھا تو اس سے قبل مسجد اقصی میں تمام انبیاء کو جمع ہونے کا حکم دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی امامت کروائی۔ یہ امامت کوئی روایتی اور معمولی امامت نہیں تھی۔ یہ امامت از آدم تا ایں دم موجود تمام انبیاء و رسل کی موجودگی میں اور ان کے توسط سے تمام اقوام عالم کے سامنے یہ یونیورسل ڈکلیئریشن یا ایک نئے عالمی منشور کا اعلان تھا جس کے تحت قیامت تک کے لئے یہ فیصلہ صادر کر دیا گیا تھا کہ اب کسی بھی دوسری قوم کو اس منتخب امت پر دائمی سیادت کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ درمیانی وقفہ میں کبھی کبھی اس امت پر زوال و ادبار کا دور ضرور آ سکتا ہے جس کا بنیادی مقصد اس امت کو اس کی غفلت و کوتاہی سے بیدار کرنا ہوگا لیکن ایسا ممکن نہیں ہے کہ یہ امت ہمیشہ کے لئے ذلت و گمنامی کے غار میں اوندھے منہ پڑی رہے اور اصلاح حال کی کوشش بالکل نہ کرے۔ جب بھی کبھی ایسا ہوگا کہ اسلام کے مرکز پر کسی صلیبی یا تاتاری حملہ کی ضرب پڑے گی تو اس کے مقابلہ کے لئے ہمیشہ ایک ایسی جماعت ضرور کھڑی ہوگی جس میں نورالدین زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی روح کار فرما ہوگی اور یہ جماعت اسلام کی عظمت رفتہ کی بحالی کا فریضہ انجام دے گی۔
پوری اسلامی تاریخ میں تاتاریوں سے زیادہ سنگین مرحلہ اب تک اس امت کو پیش نہیں آیا ہے لیکن کیا کوئی شخص تاریخ کی اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ جب ایک بار عین جالوت کے میدان میں ظاہر بیبرس نے تاتاریوں کو شکست دے دی تو یہ ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی قوم جو پوری مسلم دنیا پر مور وملخ کی طرح چھا گئی تھی محض نصف صدی کے اندر اپنا تشخص بر قرار نہ رکھ سکی اور اسلام میں ضم ہوکر ہمیشہ کے لئے اپنا وجود کھو دیا۔ لیکن ایسے کسی بھی نتیجہ کے لئے یہ ضروری ہے کہ مزاحمت کے لئے کھڑی ہونے والی جماعت اسلام کے مضبوط اصولوں پر اپنے فکر و عمل کی بنیاد رکھے۔ فلسطین اس وقت تاریخ کے جس مرحلہ میں داخل ہو چکا ہے اس میں اس کی خوش بختی یہ ہے کہ 80 کی دہائی کے وسط سے ہی ایسی جماعت کا وجود اس کو میسر ہوچکا ہے جو اسلام کے واضح اور رہنما خطوط پر عمل در آمد کرنے سے کوتاہ نظر نہیں آتی ہے اور ہر قسم کی قربانیاں پیش کرنے کے لئے ہمہ تن تیار ہے۔ جس دن اس جماعت کا وجود عمل میں آیا تھا اسی دن اسرائیل کے وجود کے خاتمہ کا فیصلہ خدا نے صادر فر مادیا تھا۔ کم سے کم تاریخ کے واقعات کو باہم ترتیب دینے سے اسی حقیقت کا ادراک ہوتا ہے۔ ’طوفان الاقصی آپریشن‘ کے بعد سے ہی اسرائیل کی قیادت جس طرح سے اندرونی انتشار اور خلفشار کا شکار ہے اور آگے کا راستہ اس کو سمجھ میں نہیں آ رہا ہے اس سے بھی صاف یہی معلوم ہوتا ہے کہ اب اسرائیل کا مستقبل مجہول ہے۔ جہاں تک فلسطین کی تحریکات مزاحمت کا تعلق ہے تو اس کے حق میں بس یہی بہتر ہے کہ وہ قطعا مایوس نہ ہوں اور صبر و ایمان کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول میں لگے رہیں۔ فیصلہ کی گھڑی بہت جلد آنے والی ہے۔ جو لوگ کوتاہ نظر ہیں یا تاریخ کے رموز اور الٰہی مشیت کے پوشیدہ مفہوم کو نہیں سمجھتے ہیں وہی لوگ یہ کہیں گے کہ اتنی جانوں کا خسارہ کا ذمہ دار تحریک مقاومت و مزاحمت ہے۔ جو منشہ الہی کو جانتے ہیں وہ واضح طور پر یہ دیکھ رہے ہیں کہ صہیونیوں نے جس نظام ظلم و عصیان کو 1948 میں بنایا تھا اس کی ساری چولیں ہل چکی ہیں اور صہیونی ریاست آج جس بحران کا شکار ہے اپنی پوری تاریخ میں کبھی ایسا تجربہ اس کو نہیں ہوا۔ یہ سب خاص نظام ربانی کے تحت ہو رہا ہے جس کے نتائج سے کوئی ظالم خود کو نہیں بچا سکتا۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں