محمد فاروق اعظمی
یوم جمہوریہ 2025 کے موقع پر صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کا خطاب بظاہر قومی ترقی کی کہانی بیان کرتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ کچھ سنگین تضادات کو نظر انداز کرنے کی ایک کوشش معلوم ہوتی ہے۔ ان کی تقریر میں قوم کی ترقی، سماجی اصلاحات اور آئین کے 75 سال مکمل ہونے کا ذکر تو ہوا لیکن ان کے بلند و بانگ دعوئوں کے پیچھے چھپی حقیقتیں آج کے ہندوستان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔
ًً’’ایک قوم- ایک انتخاب‘‘ کا نعرہ جمہوری عمل کی روانی کیلئے ایک پرکشش خیال لگتا ہے، لیکن یہ ایک ایسا سیاسی حربہ ہے جو ہندوستان کے جمہوری تنوع کو روندنے کا منصوبہ دکھائی دیتا ہے۔ کیا ہندوستان جیسی کثیر الثقافتی ریاستوں میں جہاں ہر خطے کی اپنی زبان، ثقافت اور سیاسی مسائل ہیں، تمام انتخابات کو ایک ساتھ منعقد کرکے جمہوریت کی جڑوں کو کمزور نہیں کیا جائے گا؟ یہ تصور صرف مرکزیت کے خواب کو مضبوط کرنے کیلئے ہے، نہ کہ جمہوریت کو مستحکم کرنے کیلئے۔
صدر مرمو نے انصاف، مساوات، آزادی اور بھائی چارے کو تہذیبی ورثہ قرار دیا، لیکن کیا یہ ورثہ محض تقریری زینت ہے؟ عملی اقدامات میں اس کی جھلک کیوں نہیں دکھائی دیتی؟ آج عدلیہ، میڈیا اور دیگر ادارے سیاسی دباؤ اور مداخلت کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ان مسائل پر صدر کی خاموشی صرف اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ آئینی اصولوں کی پامالی کا اعتراف کرنے سے کترا جانا ہی ہماری حکومتی روایت بن چکی ہے۔
ًً’’ایک قوم- ایک انتخاب‘‘کے عملی نفاذ میں وسائل کی بچت کا دعویٰ کیا گیا، لیکن اس منصوبے کے پوشیدہ مالی اور عملی بوجھ کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ انتخابات کا بار بار انعقاد عوامی شرکت اور رائے دہندگی کے عمل کو مضبوط بناتا ہے، لیکن اسے محدود کرنے کی کوشش جمہوری عمل کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ ہر ریاست اور ہر خطہ اپنے مخصوص مسائل اور ترجیحات رکھتا ہے اور ان مسائل پر توجہ دینے کیلئے بار بار انتخابات ضروری ہیں۔
صدر نے قبائلی برادری کی جدوجہد کا ذکر ضرور کیا، لیکن کیا یہ ذکر محض رسمی تھا؟ قبائلی علاقوں میں غربت، بے روزگاری اور بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی آج بھی ایک تلخ حقیقت ہے۔ ان کی فلاح و بہبود کے لیے ٹھوس اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟ کیا یہ حکومت صرف الفاظ کی بازیگری میں مصروف ہے؟
فلاحی اسکیموں کے ذکر سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ حکومت سماجی ناہمواریوں کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہے۔ لیکن ان اسکیموں کے فوائد اکثر ان طبقات تک نہیں پہنچ پاتے جن کیلئے یہ بنائی گئی ہیں۔ بدعنوانی اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ان اسکیموں کی ناکامی کی بڑی وجوہات ہیں۔ غربت کے خاتمے کے دعوے اور ترقیاتی منصوبے صرف سرکاری فائلوں میں موجود ہیں جبکہ زمینی حقائق ان دعوؤں کی تردید کرتے ہیں۔
صدر مرمو کا خطاب جمہوری اقدار اور آئینی اصولوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں ناکام رہا۔ حالیہ برسوں میں شہریت کے قوانین میں متنازع تبدیلیاں اور اظہار رائے کی آزادی پر قدغن آئینی روح کو مجروح کر رہے ہیں، لیکن ان مسائل پر صدر نے روشنی ڈالنے سے گریز کیا۔ ان مسائل پر خاموشی کا مطلب یہ ہے کہ حکومت ان مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی بلکہ ان کے وجود سے انکار کر رہی ہے۔
اس یوم جمہوریہ کے موقع پر ہمیں یہ سوال اٹھانا چاہیے کہ کیا آئین کی حقیقی روح کا نفاذ ہو رہا ہے؟ کیا ہم انصاف، مساوات اور آزادی جیسے اصولوں کو اپنی حکمرانی میں جگہ دے رہے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ آئینی اصول محض کتابوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان کے عملی نفاذ کیلئے سیاسی عزم کی ضرورت ہے جو موجودہ قیادت میں نظر نہیں آتا۔ یہ وقت ہے کہ حکومت اپنی پالیسیوں اور ترجیحات پر غور کرے اور ان مسائل کا سامنا کرے جن سے ملک کے عوام دوچار ہیں۔
تعلیمی نظام کی موجودہ حالت بھی آئینی اقدار کی عکاسی کرنے میں ناکام رہی ہے۔ آج کے نوجوانوں کو سماجی انصاف، سیکولرازم اور جمہوریت جیسے بنیادی اصولوں کی تعلیم دینے کے بجائے، انہیں زہریلے نظریات کے ذریعے تقسیم کیا جا رہا ہے۔ نصاب میں تبدیلیاں اور تاریخی حقائق کو مسخ کرنا ایک خطرناک رجحان ہے، جو آئندہ نسلوں کو گمراہ کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ تعلیمی اداروں کی آزادی ختم ہو رہی ہے اور ان پر حکومت کا کنٹرول بڑھ رہا ہے جو جمہوریت کیلئے ایک خطرناک علامت ہے۔
آئین کا 76واں سال ہمیں اس کی عظمت کا جشن منانے کا موقع فراہم کرتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ وقت احتساب کا بھی ہے۔ ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ کیا ہم آئین کے اصولوں پر عمل کر رہے ہیں یا صرف زبانی جمع خرچ کر رہے ہیں؟ آئین کو محض تقریروں اور تہواروں کا موضوع بنانے کے بجائے ہمیں اس کے اصولوں کو اپنے روزمرہ کی زندگی اور حکومتی پالیسیوں کا حصہ بنانا ہوگا۔
جمہوریت کی بقا کیلئے ضروری ہے کہ عوامی اداروں کو سیاسی دباؤ سے آزاد کیا جائے۔ عدلیہ، میڈیا اور مقننہ کو آزادانہ طور پر کام کرنے دیا جائے تاکہ یہ آئینی اصولوں کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اگر ان اداروں کو کمزور کیا گیا تو جمہوریت کے ساتھ ساتھ آئین بھی خطرے میں پڑجائے گا۔ یہ خطرہ صرف حکومت کے رویے سے نہیں، بلکہ عوام کی خاموشی سے بھی بڑھتا ہے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ ہم بطور قوم اپنی ترجیحات کا از سر نو تعین کریں۔ بنیادی سہولیات، تعلیم، صحت اور روزگار جیسے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو محض دکھاوے کی پالیسیوں سے ہٹ کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔ عوام کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنی ہوگی اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنی ہوگی۔ جمہوریت صرف ایک نظام نہیں بلکہ ایک طرز زندگی ہے جسے زندہ رکھنے کیلئے مسلسل جدوجہد کرنی ہوتی ہے۔
آج کے ہندوستان کو ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو آئینی اصولوں کی پاسداری کرے اور جمہوریت کو مضبوط بنائے۔ آئین ہمیں مساوات، انصاف اور آزادی کی ضمانت دیتا ہے، لیکن ان اصولوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہمیں متحد ہونا ہوگا۔ یہ اتحاد ہی ہماری اصل طاقت ہے اور یہی وہ چیز ہے جو ہمیں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر ممتاز کرتی ہے۔
یوم جمہوریہ کا یہ موقع ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جمہوریت اور آئین ہماری سب سے بڑی طاقت ہیں۔ لیکن یہ طاقت اس وقت تک بے معنی ہے جب تک ہم اس کا استعمال نہ کریں۔ ہمیں اپنی آواز بلند کرنی ہوگی، اپنے حقوق کا دفاع کرنا ہوگا اور آئین کی روح کو زندہ رکھنا ہوگا۔ یہی یوم جمہوریہ کا حقیقی پیغام ہے۔