ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
آج سے 30سال قبل جب فلسطین اور اسرائیل کے لیڈران امریکی صدر بل کلنٹن کی دعوت پر وہائٹ ہاؤس کے صحن میں جمع ہوئے تھے تو ہر طرف ایک امید جگی تھی کہ شاید یہ لمحہ مشرق وسطیٰ میں امن و امان کی ایک نئی صبح کا نقطہ آغاز ثابت ہوگا۔ اس معاہدہ کے لئے اسرائیل کی جانب سے اس کے وزیر اعظم رابین اسحاق اور فلسطین کی طرف سے پی ایل او کے عظیم رہنما یاسر عرفات اکٹھا ہوئے تھے۔ اوسلو کے نام سے دو معاہدے یکے بعد دیگرے ہوئے تھے۔ اوسلو کے پہلے معاہدہ پر دستخط 13ستمبر 1993 کو کیا گیا تھا۔ یہ معاہدہ اس اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل سمجھا گیا تھا، کیونکہ اسرائیل اور فلسطین کے لیڈران نے تاریخ میں پہلی بار ایک دوسرے کے وجود کا اعتراف کیا تھا اور ساتھ ہی دونوں فریقوں نے ایک دوسرے سے اس بات کا وعدہ بھی کیا تھا کہ دہائیوں سے ان کے درمیان جنگ کی جو آگ جل رہی ہے اس کو بجھائیں گے اور مستقبل میں ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہیں گے۔ اس پہلے معاہدہ کے بعد ستمبر 1995 میں واشنگٹن کے اندر ایک دوسرے معاہدہ پر بھی دستخط کیا گیا۔ یہ معاہدہ تاریخ میں ’اوسلو۔2‘ کے نام سے درج ہے۔ اوسلو2- کے مطابق فلسطینی زمینوں پر ان اداروں کا قیام عمل میں آنا تھا، جن کی بدولت امن و آشتی کا یہ عمل آگے بڑھ سکے گا۔ اوسلو معاہدہ کو کس قدر اہم مانا جا رہا تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب 1993 میں اس معاہدہ پر دستخط ہوا تو اگلے ہی سال یعنی 1994 میں اس سیاسی معاہدہ کو ناروے کی نوبل کمیٹی نے ایک عظیم جرأتمندہ قدم قرار دیتے ہوئے اسرائیل کے وزیر اعظم رابین اسحاق، ان کے وزیر خارجہ شمعون پیریز اور فلسطینی لیڈر یاسر عرفات کو نوبل انعام برائے امن کے لئے منتخب کیا تھا اورایسے امکانات کا اظہار کیا گیا تھاکہ اس سے اخوت و محبت کی ایک عجیب ہی فضاء قائم ہوجائے گی۔اوسلو معاہدوں کے مطابق فلسطینیوں کو یہ حق ملنے والا تھا کہ وہ اپنے مقدر کا فیصلہ خود کریں گے، اسرائیل کے پہلو میں ایک دوسرے کے ہمسایہ کے بطور ایک نئی فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آئے گا اور 1948 کے نکبہ کے نتیجہ میں جن فلسطینی زمینوں پر اسرائیل کا وجود ہوا تھا وہی اسرائیل اب فلسطین کے مطالبوں کو قبول کرے گا اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے لئے راہ ہموار کرے گا۔ ایک ایسی فلسطینی ریاست جس کو قومی سیادت حاصل ہوگی اور فلسطینیوں کو بھی ایک باوقار زندگی گزارنے کا موقع مل سکے گا۔ لیکن ان خوبصورت الفاظ کے پیچھے اسرائیلی لیڈران کی یہ بدنیتی بھی مخفی تھی کہ فلسطین کی ریاست کو تاریخی فلسطین کے ایک چھوٹے سے حصہ پر ہی قائم کرنے کی اجازت دی جائے گی جبکہ باقی حصے اسرائیل کے تسلط کے لئے چھوڑ دیئے جائیں گے۔ حالانکہ اوسلو کی اصل روح کے مطابق یہ طے پایا تھا کہ اسرائیل نے 1967 میں جن فلسطینی زمینوں پر ناجائز قبضہ جما لیا تھا اور وہاں اپنی فوج مسلط کر دی تھی ان تمام جگہوں سے دھیرے دھیرے اپنی فوج ہٹا لے گا، ہر قسم کی اتھارٹی فلسطینی ادارہ کو سونپی جائے گی اور باقی اہم مسائل پر فیصلہ کن بات کو بعد کے لئے مؤخر کر دیا جائے گا۔ ان اہم معاملوں میں قدس کے شہر کا مشرقی حصہ بھی شامل تھا۔ یہ شہر کا وہ نصف حصہ ہے جس کو اسرائیل نے 1967 میں قبضہ کرلیا تھا اور عالمی برادری کی نظر میں یہ فلسطینی زمین ہے، جس پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ اب تک برقرار ہے۔ جہاں تک ویسٹ بینک اور غزہ میں موجود صہیونی بستیوں کا تعلق ہے تو اوسلو کے مطابق یہ طے کیا گیا تھا کہ ان کے بارے میں باتیں بعد کے مرحلہ میں کی جائیں گی۔ اوسلو معاہدوں کے تحت ایک عارضی فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آگیا تھا اور غزہ کی زمینوں کو A، B اور C تین الگ الگ بلاکوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ ان میں سے بلاک A اور B پر آج بھی فلسطینی اتھارٹی کی حکومت محض برائے نام ہی ہے۔ حقیقت میں اسرائیل ہی کا حکم چلتا ہے۔ غزہ کے ایک چھوٹے سے حصہ پر حماس کا زور ہے، لیکن وہ حصہ بھی فلسطینیوں کے لئے بس ایک کھلا ہوا جیل ہی ہے، جس پر اسرائیل نے گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے حصار قائم کر رکھا ہے۔ وہ خواب جو 1993 میں دیکھا گیا تھا اب ایک بھیانک خواب میں بدل چکا ہے۔ جس اوسلو معاہدہ میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اگلے 5برسوں میں یہ سارے کام ہوجائیں گے آج 30برسوں بعد بھی نہ ہی اس پر کچھ اقدامات کئے گئے ہیں، بلکہ آئندہ بھی اس سلسلہ میں کوئی پیش رفت ہوگی اس کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کے وہ رائٹ ونگ عناصر جنہوں نے اوسلو معاہدہ کے وقت بھی اس قدم کو قبول نہیں کیا تھا آج وہ سبھی اقتدار میں موجود ہیں۔ یہ رائٹ ونگ کے لوگ خواہ وہ لیڈران کی شکل میں رہے ہوں یا عوام کے اندر، کوئی بھی اس بات کے لئے راضی نہیں تھا کہ فلسطینیوں کے حق میں کسی شئے سے دستبردار ہوں۔ اس سے بھی بڑھ کر وہ تو یاسر عرفات کی تنظیم ’پی ایل او‘ کو ایک دہشت گرد جماعت مانتے تھے۔ فلسطین کی زمینوں پر آباد کردہ ناجائز صہیونی بستیوں میں رہنے والوں کو یہ معاہدہ اس لئے منظور نہیں تھا، کیونکہ اس کے نفاذ کی صورت میں ان کا اپنا مفاد متاثر ہو رہا تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ اگر یہ معاہدہ حقیقت کی زمین پر اتر آیا تو انہیں اپنی بستیوں کو خالی کرنا پڑے گا اور اسی لئے وہ اس معاہدہ کے سخت مخالف تھے۔ رائٹ ونگ عناصر کی نظر میں اوسلو کا معاہدہ اس قدر مبغوض اور ناپسندیدہ تھا کہ 4 نومبر 1995 کو ایگال عامر(Yigal Amir)نامی ایک تشدد پسند رائٹ ونگ سے تعلق رکھنے والے شخص نے اسرائیلی وزیر اعظم رابین اسحاق کو اوسلو معاہدہ پر دستخط کرنے کی پاداش میں گولی مار کر ٹھیک اسی طرح ختم کر دیا، جس طرح ناتھورام گوڈسے نے گاندھی جی کو ہندو۔مسلم اتحاد کے لئے قتل کر دیا تھا۔ اسرائیل کا موجودہ وزیر برائے قومی سیکورٹی ایتمار بن گویر بھی ان رائٹ ونگروں میں سے ایک ہے، جس نے رابین اسحاق کے قتل سے کچھ دن قبل ہی ان کو دھمکی دی تھی۔ فلسطین کی جانب سے حماس اور جہاد اسلامی جیسی تنظیمیں اس لئے محتاط پہلو اختیار کر رہی تھیں کہ انہیں خطرہ تھا کہ اگر اوسلو معاہدہ نافذ ہوگیا تو ان فلسطینیوں کو اپنی ان زمینوں پر واپس ہونے کا حق نہیں ملے گا، جن پر 1948 کے نکبہ میں صہیونی قوت کے زور پر قابض ہوگئے تھے اور ان پر اسرائیل کا قیام عمل میں آیا تھا۔ عظیم فلسطینی دانشور اڈوارڈ سعید بھی اوسلو معاہدہ کے سخت خلاف تھے، کیونکہ وہ اس قدم کو اسرائیل کے سامنے سر تسلیم خم کرنے دینے کے مترادف سمجھتے تھے۔ رابین اسحاق کی موت کے بعد اوسلو معاہدوں کی شقوں پر عمل ہی نہیں ہوا۔ نہ تو تدریجی طور پر اسرائیلی فوجیں ہٹائی گئیں اور نہ ہی فلسطینی اتھارٹی کو اپنا کام آزادی سے کرنے دیا گیا۔ اس کے برعکس مزید فلسطینی زمینوں پر اسرائیل قابض ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ جو علاقے فلسطینی اتھارٹی کے زیر تسلط ہیں ان پر بھی اسرائیل نے لگاتار حملہ جاری رکھا اور اس طرح فلسطینی اتھارٹی کی سیادت کو عملی طور پر ختم کر دیا گیا۔ سب سے افسوسناک پہلو یہ رہا کہ جن عناصر نے اوسلو معاہدوں کی مخالفت کی تھی رابین اسحاق کی موت کے بعد ان کو ہی اقتدار میں اسرائیلی عوام نے پہنچا دیا۔ ان مخالفین میں موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کا نام سرِ فہرست ہے۔ ایریل شیرون ایک دوسرا نام تھا، جو اپنی شرارت میں معروف رہا اور اب دنیا سے جا چکا ہے۔ اوسلو سے لے کر اب تک ہزاروں فلسطینی جانیں تباہ ہوچکی ہیں، فلسطینی زمینوں پر یہودی بستیاں 1993 کے مقابلہ تین گْنا بڑھ چکی ہیں اور ہر روز کی دبش اور اسرائیلی بربریت سے فلسطینی پریشان ہو چکے ہیں۔ اب معاہدہ کو عملی شکل دینے کی خواہش فلسطینیوں میں بھی باقی نہیں رہی، جبکہ اسرائیلی رائٹ ونگروں میں تو کبھی تھی ہی نہیں۔ لہٰذا ایک تاریک مستقبل منہ پھاڑے کھڑا ہے اور امریکہ کی جانب داری نے اس معاملہ کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ جہاں تک عرب ممالک کا تعلق ہے تو وہ اسرائیل کو اپنا دوست مان چکے ہیں اور ان کے ساتھ سفارتی تعلقات یکے بعد دیگرے قائم کر رہے ہیں۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں