عبدالسلام عاصم
آب و ہوا میں ناموافق تبدیلی سے دنیا کو نجات دلانے کے رخ پر متعلقہ فریقین کی 28ویں کانفرنس بالآخر اُس معاہدے تک پہنچ گئی جس کی راہ مشکل ہی نہیں دشوار ترین تھی۔ اس طرح کوپ28نے بالآخر حیاتیاتی یعنی روایتی ایندھن کے دور کے ’’اختتام کے آغاز‘‘کا اشارہ دے ہی دیا۔ اس معاہدے سے آلودگی پھیلانے والے ایندھنوں سے نجات اور مضر اخراج سے انتہائی حد تک پاک ماحول کی جانب ایک تیز، منصفانہ اور مساوی منتقلی کی امید بندھ گئی ہے۔ دبئی کانفرنس میں جس عالمی یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا ہے، وہ اندیشوں سے بھرے ماحول میں امکانات کے در وا کرتا ہے۔ اس سفر میں اس موڑ تک پہنچنے میں تین دہائیاں لگی ہیں۔ کوپ اقوام متحدہ کے ’فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج‘ کا سپریم فیصلہ ساز پلیٹ فارم ہے۔ ’فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینج‘ کا قیام مارچ1994میں عمل میں آیا تھا اور کنونشن کی جانب سے ’کانفرنس آف دا پارٹیز‘ یا کوپ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس طرح کوپ کا پہلا اجلاس مارچ1995میں جرمنی کے شہر برلن میں ہوا تھا۔
کوئی200فریقین کے مذاکرات کاروں نے دبئی میں دنیا کے اولین ’عالمی اسٹاک ٹیک‘ کے فیصلے کے ساتھ ان عناصر کو چونکا دیا ہے جو رجائیت پر قنوطیت کو ترجیح دینے کا کاروبار کرتے ہیں۔ خوش امید حلقوں کا کہنا ہے کہ ایسے عناصر کو کل بھی اس وقت چونکنا ہے جب ان کی نظروں کے سامنے جاری دہائی کے اختتام سے قبل آب و ہوا میں موافق تبدیلی کے رخ پر موسمیاتی کارروائی تیز تر ہوتی نظر آئے گی۔ اس مشق کا بنیادی مقصد عالمی درجۂ حرارت کی حد کو 1.5ڈگری تک برقرار رکھنا ہے۔ اخباری دستاویز کے مطابق آب و ہوا میں تبدیلی کے اقوام متحدہ کے ایگزیکٹیو سکریٹری سائمن اسٹیل نے اپنی اختتامی تقریر میں کہا ہے کہ دبئی میں معدنی ایندھن کے عہد کی تاریخ کا محض ایک صفحہ نہیں پلٹا گیا بلکہ مقصود اختتام کا آغاز کیا گیا ہے۔ اب تمام حکومتوں اور صنعتوں پر لازم ہے کہ وہ بلا تاخیر اپنے معیشت رخی وعدوں کو حقیقت میں بدلیں۔
اب جبکہ دبئی میں دنیا کے بیشتر ممالک نے ایک تاریخی معاہدے تک رسائی حاصل کرلی ہے، جسے متحدہ ’عرب امارات اتفاقِ رائے‘ نام دیا گیا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ2050تک دنیا حیاتیاتی ایندھن سے مسلسل دوری اختیار کرتے ہوئے مُضر اخراج سے پاکی کے مقصد کی حصولیابی کے ذریعے کایا پلٹ انقلاب سے ہمکنار ہو چکی ہوگی۔ کوپ28نے بلا شبہ تمام رکاوٹوں کو پار کرتے ہوئے ایک بڑی اور تاریخی کامیابی حاصل کی ہے۔اُس کانفرنس نے عملاً آب و ہوا کی تبدیلی سے مقابلہ آرائی کی عالمی کوششوں کو ایک نیا رُخ دیا ہے۔198شریک فریقین نے امنگوں سے بھرے آب و ہوا کے ایجنڈے کا جو خاکہ پیش کیا ہے، اس کا مقصد عالمی تمازت کو محض ایک اعشاریہ پانچ ڈگری کی قابلِ حد رسائی تک محدود کرنا ہی نہیں ہے بلکہ قدرتی وسائل کے استعمال کو آئندہ اقوام کیلئے صرف اور صرف بابرکت بنانا ہے۔ جنوبی افریقہ اور چھوٹے جنوبی افریقی ممالک کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔
تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا بہر حال غلط نہیں کہ اب بھی ہم صرف چونکنے کے مرحلے میں ہیں، جہاں نئی بات صرف یہ ہوئی ہے کہ اختلافی نوٹ کے بغیر کسی نئے معاہدے کے تحت پہلی بار حیاتیاتی ایندھن کا استعمال ترک کرنے پر اتفاق کر لیا گیا ہے۔ باوجودیکہ کئی ممالک نے ابھی بھی روایتی ایندھن کے استعمال کو مرحلہ وار مکمل طور پر ترک کرنے کا راگ الاپنا بند نہیں کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ بہت زیادہ بضد نہیں ہیں اور ان کے ایسے خیال کا اس معاہدے میں متفقہ طور پر کہیں اندراج نہیں۔ جو ایک بڑی بات ہے۔ اس لحاظ سے کوپ28کے حوالے سے صدر سلطان الجبر نے بجا طور پر کہا ہے کہ فریقین نے حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے اس معاملے میں دنیا کا رخ صحیح سمت کی طرف موڑا ہے۔ کوپ کی تاریخ میں عالمی حکومتوں نے پہلے کبھی بھی روایتی ایندھنوں کو اجتماعی طور پر ترک کرنے سے اس طرح اتفاق نہیں کیا تھا۔
یہاں یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ کوپ28کے صدر سلطان الجابر نے کچھ وقفہ پہلے ایک نزاعی بیان دے دیا تھا۔ انہوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ ایسی کوئی سائنس نہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ عالمی درجۂ حرارت کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کے لیے روایتی ایندھن کو مرحلہ وار ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ سائنس دانوں نے الجابر کے اس ریمارک پر حیرانی کے ساتھ تشویش بھی ظاہر کی تھی کیونکہ یہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے موقف سے متصادم تھا۔ الجابر کا بہرحال یہ موقف بھی آن ریکارڈ ہے کہ روایتی ایندھن کا مرحلہ وار خاتمہ ناگزیر ہے۔ اس طرح انہی کی سربراہی میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کوپ28کا دبئی اجلاس جب اختتام پذیر ہوا تو جاری اعلامیہ میں اطمینان بخش طور پر کہا گیا ہے کہ حیاتیاتی ایندھن کے استعمال کو بتدریج مگر تیزی سے کم کیا جائے گا۔
اب جبکہ تقریباً200ممالک نے حیاتیاتی ایندھن سے دیگر ذرائع کی طرف منتقلی کے روڈ میپ کی منظوری دے دی ہے، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے بھی دبئی کانفرنس کوپ28 کے نتائج کا خیرمقدم کیا ہے۔ سکریٹری جنرل نے اس بات پر بھی خوشی ظاہر کی ہے کہ حیاتیاتی ایندھن کے مرحلہ وار خاتمے کے بغیر مقصد کا حصول ناممکن ہونے کی حقیقت کو تسلیم کرنے والے ممالک کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ واضح رہے کہ عالمی درجۂ حرارت میں اوسط اضافے کو 1.5ڈگری تک محدود رکھنا 2015کے پیرس معاہدے میں طے شدہ اہم اہداف میں سے بھی ایک تھا۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]