شاہد زبیری
18ویں لوک سبھا کے 2024کے انتخابات کے نتائج نے سب سے زیادہ جس پارٹی کی امیدوں پر پانی پھیرا ہے وہ ہ بی جے پی ہے۔10سال سے بلا شرکتِ غیرے ملک پر حکمرانی کرنے والی بی جے پی میں اسے لے کر نیچے سے اوپر تک سر پھٹول جا ری ہے ۔شکست کے اسباب کے الگ الگ جائزوں میں الگ الگ وجوہات سامنے آرہی ہے ایک بات ان سب جائزوں میں قدرِ مشترک کے طور پر جو ابھر کر آرہی ہے وہ یہ کہ مسلم ووٹ یکمشت طور پر بی جے پی مخالف پارٹیوں کے کھاتہ میں چلاگیا ۔ سی ڈی ایس کے سروے میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ پورے ملک میں 65فیصد سے زائد مسلمانوںنے بی جے کے خلاف ووٹ دیا ہے جبکہ یوپی کی تصویر اور چونکا دینے والی ہے یوپی کے مسلمانوں کا 92فیصد ووٹ بی جے پی کے خلاف گیا ہے اور انڈیا الائنس خاص طور پر سماجوادی پارٹی کے حق میں گیا ہے۔ بی جے پی کو سیٹوں کے لحاظ سے سب سے زیادہ نقصان بھی یو پی میں ہوا ہے۔ یوپی کی گنگا ہی میں بی جے پی کی ارمانوں کی لٹیا ڈبو دی ہے ۔ سنگھ بی جے پی کے نمک خواروںمیں سنگھ بی جے پی کی مسلم فرنٹائل آرگنائیزیشن میں مسلم راشٹریہ منچ ہو یا مسلم الپ سنکھیک مورچہ یا بنکر مورچہ اور جماعت علماء وغیرہ وغیرہ یا وقف بورڈاور مد رسہ بورڈ اور ان کے چیئر مین بیچارے کوئی بھی پھلی پھوڑ نہیں پائے اور مسلم ووٹوں کو بی جے پی کھاتہ میں ڈلوانا تو دور وہ ادھر ادھر ان کو تقسیم کرانے میں بھی کامیاب نہیں ہو پا ئے اس کا افسوس تو بی ایس پی سپریمو مایا وتی کو بھی ہے کہ بی ایس پی نے اتنے مسلمانوں کو ٹکٹ دئے بیچارے اپنی ضمانت تک نہیں بچا پائے اور مسلم ووٹ نہیں لے پائے اور بی جے پی پلس بی ایس پی پلان ناکام ہو گیا۔
سنگھ اوربی جے پی کے ہر چھوٹے بڑے لیڈرکو بھی دکھ ہے کہ 400پار کے نعرہ کو چھونا تو دور بی جے پی کو سرکار بنا نے کیلئے جتنی سیٹیں درکار تھیں وہ بھی ہاتھ نہیں لگی اور 240پر سوئی اٹک گئی جبکہ کانگریس کی سیٹیں دوگنی ہو گئیں اور سماجوادی پارٹی نے تو یو پی میں بی جے پی کو ایسادھوبی پاٹ مارا کہ بی جے پی کو دن میں تارے نظر آگئے ۔یوپی میں گزشتہ انتخابات کے مقابلہ بی جے پی کی سیٹیں گھٹ کر آدھی رہ گئیں۔ یو پی کے تناظر میں ہی سنگھ پریوار کے چیف موہن بھاگوت نے وزیرِ اعظم مودی کو اپنے پندو نصائح سے نوازا تھا اور مریادا کا پاٹھ پڑھا یا تھا ۔بی جے پی اور سنگھ پریوار کے تھنک ٹیک مانے جا نے والے سنگھ کے ترجمان انگریزی میگزین آر گنا ئزر کے سابق ایڈیٹر بلبیر پنج کے نزدیک تو مسلمانوںکے بی جے پی کے خلاف’ ووٹ جہاد’ کی وجہ سے بی جے پی اپنے بل بوتے اکثریت پانے سے چوک گئی۔ہندی روزنامہ جاگرن کے 20 جون کے شمارہ میں اپنے ادارتی مضمون میں وہ لکھتے ہیں کہ انتخابات کے دوران کانگریس کے سینئر لیڈر سلمان خورشید کی بھتیجی نے ایک عوامی اسٹیج سے بی جے پی کو ہرا نے کیلئے ووٹ جہاد کی اپیل مسلمانوں سے کی تھی۔ان کے بقول جن صوبوں میں بی جے پی نے ‘ووٹ جہاد ‘ کی وجہ سے شکست کھا ئی ہے یہ وہ صوبے ہیں جہا ں آزادی سے پہلے پاکستان کیلئے سب سے زیادہ تحریکیں اٹھی تھیں ۔وہ کہتے ہیں کہ اس وقت مسلم لیگ کی حمایت کا مطلب ہی پاکستان کی حمایت کرنے جیسا تھا ان صوبوں میں بنگال،یوپی، بہار، بامبے (مہاراشٹر) وغیرہ صوبوں کے 80 سے 100 فیصد مسلمانوں نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا تھا ۔اگر بلبیر پنج کی بات مانیں کہ مسلم لیگ کی حمایت اس وقت کرنا پاکستان کی حمایت کرنا تھا تو کوئی پو چھے جن سنگھ کے بانی شیاما پرساد مکھرجی بنگال کی ہندو مہا سبھا اور مسلم لیگ کی سرکار میں وزیر کیوں تھے کیا ہندو مہاسبھا اور شیا ما پرشاد مکھر جی بھی پاکستان کے حامی تھے یہی نہیں صوبہ سندھ میں بھی ہندو مہا سبھا اور مسلم لیگ کی سرکاریں تھیں ۔
بلبیر پنج اور بی جے پی اور سخت گیر ہندو تنظیموں کے ہر بڑے چھوٹے لیڈر کی زبان پر مسلمانوں سے یہ شکوہ ہے کہ مودی سرکارکی فلاحی اسکیموںکا فیض اٹھانے کے باوجود مسلمانوں نے بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا ۔اپنے ادرتی مضمون میں بلبیر پنج بتا تے ہیں کہ مسلمانوں کی آبادی 15فیصد سے زائد ہے اور کوشل بھارت یوجنا کے فیض یافتگان میں ان کی حصہ داری لگ بھگ 23فیصد ہے جن دھن یو جنا میں کے 52کروڑ سے زائد کے کھاتوں میں 42فیصد کھا تے دار مسلمان ہیں اسی طرح وہ دیگر سرکاری اسکیموں کا ذکر کرتے ہوئے اپنی آبادی کے تناسب سے زیادہ مسلمانوں کی حصّہ داری کا احسان جتا تے ہو ئے کہتے ہیں مسلم آبادی قریب 20فیصد اور حصہ داری 24سے 30فیصد ان کو شکوہ ہے کہ اس کے باوجود 90فیصد سے زائد مسلمانوں نے بی جے پی کو ہرا نے کیلئے ووٹ دیا ہے ۔بلبیر پنج یا ان جیسے دوسرے بی جے لیڈر وں نے یہ تو تسلیم کیا کہ ان کے ارمانوں پر پانی اگر پھرا ہے تو اس کی وجہ مسلم ووٹ رہے جو بی جے پی کے خلاف بی جے پی مخالف پارٹیوں کے کھاتہ میں چلے گئے،حالانکہ بی جے پی خاص طورمودی،امت شاہ اور یوگی کل تک 80-20کا فارمولہ جیب میں لئے پھرتے تھے اور صاف کہتے تھے کہ ان کو مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت ہی نہیں ۔ غیر بی جے پی پارٹیاں بھی بی جے پی کے گڑھے گئے بیانیہ کے دبائو میں آکر مسلمانوں کا نام لیتے ہوئے ڈرتی ہیں اور مسلمانوں کا نام لیتے ہوئے ان کے لیڈروںکی زبانوں پر بھی آبلے پڑجاتے ہیں لیکن 2024کے لوک سبھا انتخابات میں ان کی ریڑھ کی ہڈی مسلم ووٹوں کی وجہ سے مضبوط ہوئی ہے جبکہ پوری انتخابی مہم میں مسلمانوں کے مسائل کا ان پارٹیوں نے ذکر کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ یہی رویہ ٹکٹوں کی تقسیم میں دکھائی دیا ۔ سماجوادی پارٹی جو کل تک ایم وائی کے فارمولہ پر انتخاب لڑتی رہی اس مرتبہ اس کے PDA فارمولہ کے تحت ٹکٹ بھی پسماندہ ہندو برادریوں کے کھاتے میں گئے مسلمانوں کے حصّہ میں کم آئے جبکہ کامیابی میں بڑا کردار مسلم ووٹوں کا رہا جیسا کہ سی ڈی ایس کے جائزے میں سامنے آیا ہے ۔بی جے پی حلقوں کی طرف مسلم ووٹوں کے بی جے پی مخالف ہونے کا تو صاف طور شکوہ بھی کیا جا رہے اور ناراضگی بھی جتا ئی جا رہی ہے کہ مودی سرکار کے اتنے احسانات کے باوجود مسلمانوں نے بی جے پی کے خلاف ووٹ دیا جس کی وجہ سے بی جے پی کمند لبِ بام کو چھو تے چھو تے رہ گئی ۔بقول بلبیرپنج کہ آزادی سے پہلے گاندھی ،نہرو اور پٹیل مسلمانوں کا دل جیت نہیں پائے تو مودی ،شاہ اور یو گی کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے مسلمانوں کے بارے جس طرح کی گندی اور گھٹیا زبان استعمال کی ان کی جو تصویر پیش کی پھر بھی بی جے پی کو یہ امید کیوں تھی کہ مسلمان بی جے پی کو ووٹ دیں گے۔اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلم نوجوان جیلوں میں ڈالے جائیں،یکساں سول کوڈ ،سی اے اے اور این آر سی تلوار بھی ان کے سروں پر لٹکائی جا ئے ،ان کے گھروں مدرسوں اور مساجد پر بلڈوزرچلا ئے جائیں، گھر وں کے فریج کھنگا لے جا ئیں پھر بھی بی جے پی کو مسلمانوں کے ووٹوں کی آس ۔اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا۔ شکر ہے کہ مسلم ووٹوں کی اہمیت کا اعتراف تو بی جے پی نے کیا۔ بی جے پی مخالف پارٹیوں نے تو اس کا اعتراف تک نہیں کیا نہ ایسا کوئی ان کا بیان سامنے آیا ۔غیر بی جے پی پارٹیاں یہ سمجھ بیٹھی ہیں کہ مسلم ووٹ ہمارے سوا آخر کس کے کھا تہ میں جائے گا گو یا کہ بی جے پی کر ہرانے اور سیکولر زم کی ڈولی کا کہار بننے کی ذمہ داری صرف مسلمانوں کے سر رہ گئی ہے ۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بھی مسلمانوں نے یکمشت سماجوادی پارٹی کو ووٹ دیا تھا اور بغیر کسی ایجنڈہ اور بغیر کسی شرط کے ۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ملک کے موجودہ سیاسی تناظر میں مسلم سیاسی جماعت کی ضرورت ہے یہ بے وقت کی راگنی ہے ۔ ہاں جو مہلت بچی ہے اس کا تقاضہ ہے کہ تعلیمی اور معاشی میدانوں میں مسلمان آگے بڑھیں، مذہبی اور عصری تعلیم میں توازن کا خیال رکھتے ہوئے تعلیمی ادارے قائم کئے جا ئیں ،کونسلنگ گروپ بنائے جا ئیں،مسلم نوجوانوں کو مسابقہ جا تی امتحانات خاص طور جوڈیشیری ،پولیس اور سول سروسز کی تیاری پر توجہ اور ترغیب دلا ئی جا ئے اس کے مواقع مہیّا کرائے جائیںاور اسی کے ساتھ ساتھ سیاسی محاذ بھی خالی نہ چھوڑا جا ئے اور سوجھ بوجھ کے ساتھ اسی طرح سیاسی حیثیت منوائی جا ئے جیسا 2024میں منوائی ہے۔
[email protected]