وقت گزرنے کے لیے آتا ہے لیکن گزرتا ہوا وقت اپنی چھاپ چھوڑ کر جاتا ہے اور 2024 بھی اپنی چھاپ چھوڑ کر جا رہا ہے۔ یہ سال کئی لحاظ سے عالمی امن کے لیے ایک بدترین سال تھا۔ اس سال اکیلے غزہ جنگ میں اتنی بڑی تعداد میں بچوں کو جانیں گنوانی پڑی ہیں کہ اسی وجہ سے 2024 کو ایک بدترین سال قرار دے دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ویسے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے تنازعات کا شکار بننے کی وجہ سے 2024 کو بچوں کے لیے ایک بدترین سال قرار دیا ہے۔ 2024 میں غزہ جنگ ختم ہونے کی کبھی ٹھیک طرح سے امید ہی نہیں بندھی۔ غزہ جنگ کے حوالے سے دنیا کے امن پسند لوگوں نے یہ دیکھ لیا کہ انسانیت کی باتیں کرنے اور انسانیت کی حفاظت کے لیے جنگ تک کے لیے تیار ہوجانے والے عالمی لیڈروں کی دراصل حقیقت کیا ہے، ان کے لیے انسانیت کا دوہرا پیمانہ ہے۔ وہ انسانیت کی باتیں ضرور کرتے ہیں مگر ہر ایک کو انسان نہیں مانتے۔ ایک جگہ انسانوں کو ہلاک کرنے والے عمل کے لیے وہ غیر منطقی جواز پیش کرتے ہیں تو دوسری جگہ انسانیت کے علمبردار نظر آنا چاہتے ہیں مگر ایک ساتھ دو جنگوں یعنی یوکرین اور غزہ کی جنگوں کے جاری رہنے سے ان کی حقیقت عالمی برادری کے لیے ناقابل فہم نہیں رہ گئی ہے۔
جذبات سے کھیلنے والے مسلم لیڈروں کی حقیقت بھی امن پسند عالمی برادری کے لیے فہم سے بالاتر نہیں رہ گئی ہے، یہ بات سمجھ میں آچکی ہے کہ انہیں نہ غزہ کے بچوں سے کچھ لینا دینا ہے اور نہ ہی شام کے لوگوں سے، ان کے لیے اپنے مفاد کی اہمیت ہے، البتہ امن پسند اور انسان دوست لوگوں کو باتوں سے بہلاتے رہتے ہیں مگر غزہ جنگ کے دراز ہوجانے سے اور کئی عیسائی اکثریتی ملکوں کے لیڈروں کے غزہ جنگ اور اہل غزہ کی مدد کے سلسلے میں واضح موقف اختیار کرنے سے مذہب کے نام پر کارڈ کھیلنے والے مسلم لیڈروں کی شبیہ مسخ ہوئی ہے، یہ میسیج گیا ہے کہ امن پسندی کو کسی خاص مذہب کے ماننے والے لیڈروں تک محدود کرکے دیکھنا مناسب نہیں۔ اور اگر لگتا ہے تو پھر اس سوال کے جواب پر پہلے غور کرلینا چاہیے- اہل غزہ کے لیے جتنا واضح موقف عیسائی اکثریتی ملکوں نے اختیار کیا اتنا واضح موقف کس مسلم ملک نے اختیار کیا ہے؟ ترکیہ کے صدر اردگان نے بیانات کے علاوہ اہل غزہ کے لیے کیا ٹھوس کام کیا ہے، یہ خود انہیں ہی بتا دینا چاہیے، البتہ شام میں بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے میں ان کے رول کی اہمیت سے انکار کی گنجائش نہیں مگر بشار کے اقتدار سے ہٹتے ہی اسرائیل نے شام پر بمباری کا سلسلہ شروع کیا تو عبوری حکومت کے لڑاکے اسے اسی طرح جواب نہیں دے سکے جیسے لبنان میں حزب اللہ نے یا غزہ میں حماس نے دیا ہے۔ ایسی صورت میں 2025 بھی مشرق وسطیٰ کے لیے خدشات بھرا ہی ہوگا۔
امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے یوکرین اور غزہ جنگوں کو ختم کرانے کی بات کہی تو ہے مگر نئے سال میں یوکرین جنگ کے بھی ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ ادھر کے مہینوں میں امریکی صدر جو بائیڈن اور امریکہ کے اتحادی ممالک کی یوکرین جنگ کے سلسلے میں جو پالیسی رہی ہے، اس سے یہ نہیںلگتا کہ جنگ ختم کرانے کے لیے وہ روس اور یوکرین کے نمائندوں کو مذاکرات کی میز تک لانا چاہتے ہیں۔ فی الوقت یہی لگتا ہے کہ 2025 میں بھی یوروپی لیڈران اس اندیشے سے نجات نہیں پا سکیں گے کہ کب یوکرین جنگ کی توسیع ہو جائے۔ یہ صورتحال جرمنی، برطانیہ، فرانس اور اٹلی جیسے ان یوروپی ممالک کے لیے ٹھیک نہیں جن کی اقتصادی حالت خستہ ہے۔ ٹرمپ کے اقتدار کی باگ ڈور سنبھال لینے کے بعد کیا ان کی اقتصادی حالت میں بہتری آئے گی؟ اس کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔
وطن عزیز ہندوستان کے لیے 2024 سائنسی کامیابیوں کے لحاظ سے ایک اہم سال ثابت ہوا۔ یکم جنوری،2024 کو اِسرو نے کازمک ایکس- رے اور پولرائزیشن کے مطالعے کے لیے اسپیس آبزرویٹری، ایکسپوسیٹ (XPoSat) کی کامیاب لانچنگ کی، یہ سلسلہ SpaDeX تک پہنچا اور اس سے آگے اسپیس اسٹیشن تک جانے کی امید ہے۔ پڑوسی ممالک سے تعلقات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بنگلہ دیش میں نئے حالات بنے مگر مالدیپ کی حکومت نے ہندوستان کی اہمیت محسوس کرلی۔ توقع رکھی جانی چاہیے کہ 2025 وطن عزیز کے لیے ایک بہتر سال ہوگا۔