9/11 کے حملوں کو آج 20 برس ہوگئے۔ ان برسوں میں دنیا دہشت گردی سے کتنی پاک ہوئی، یہ ایک سوال ہے اور سوال یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کی لڑائی کیا غیرمتعصب اور واضح مؤقف کے ساتھ لڑی گئی؟ سوال یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو الگ مسئلوں سے جوڑ کردوسری طرح کے فائدے اٹھانے کی کوشش تو نہیں کی گئی؟ پچھلے 20 برسوں میں دہشت گردی مخالف جنگ نے کئی سوال پیدا کیے ہیں۔ 9/11 کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ’صلیبی جنگ‘ ہے،امریکہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا۔ اس جنگ کی ابتدا افغانستان سے کی گئی، طالبان کو دہشت گردوں کا ساتھی اور دہشت گرد بتایا گیامگر چند برسوں بعد امریکہ کے لیے دو طرح کے طالبان ہوگئے یعنی اچھے طالبان،برے طالبان۔ امریکہ کے نمائندوں نے افغان جنگ ختم کرنے کے لیے طالبان کے نمائندوں سے دوحہ میں گفتگو شروع کی، موجودہ امریکی صدر بائیڈن نے افغان جنگ ختم کرنے کا اعلان کیا۔ بائیڈن کا واضح مؤقف تھا کہ امریکیوں کی ایک اور نسل کو وہ جنگ کی نذر کرنا نہیں چاہتے۔ آج اہمیت کا حامل سوال یہ ہے کہ دہشت گردی پر امریکہ کے اصل مؤقف کا اظہار جونیئر بش نے کیا تھا یا بائیڈن نے کیا ہے؟
9/11 سے پہلے کے 20 برس کے مقابلے بعد کے 20 برسوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اضافہ ہوا ہے یا نہیں، یہ ایک بحث طلب موضوع ہو سکتا ہے مگر یہ کہنے میں تامل نہیں کہ عالمی لیڈروں کی تمام باتوں اور دعوؤں کے باوجود دنیا دہشت گردی سے پاک نہیں کی جا سکی ہے۔ کہیں کئی لوگ مارڈالے جاتے ہیں تو وہ دہشت گردانہ حملہ نہیں کہلاتا، کہیں کھلم کھلا کوئی فرد یا کچھ افراد لوگوں کو مارنے کی دھمکی دیتے ہیں تو انہیں دہشت گرد نہیں کہا جاتا اور کہیں کچھ باتیں ہی کسی کو دہشت گرد بنا دیتی ہیں، چھوٹا سا حملہ بھی دہشت گردانہ حملہ بن جاتا ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جاسنڈا آرڈرن جیسے لیڈران کم ہیں جن کے لیے دہشت گردی دہشت گردی ہے، وہ یہ دیکھ کر بیان کے الفاظ نرم یا سخت نہیں رکھتے کہ دہشت گردانہ واقعہ انجام دینے والا کون ہے۔ 15 مارچ، 2019 کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مسجدوں میں حملے میں 51 لوگوں کو جانیں گنوانی پڑی تھیں، 40 افراد زخمی ہوئے تھے۔ ان حملوں کو دہشت گردانہ حملہ قرار دینے میں جاسنڈا نے تاخیر نہیں کی تھی، حملہ آور کو کھل کر دہشت گرد بتایا تھا مگر انہی حملوں اور حملہ آور کے بارے میں بیشتر عالمی لیڈروں نے کیا بیانات دیے تھے، انہیں پڑھ کر یہ سمجھنا مشکل نہیں رہ جاتا کہ سبھی لیڈروں کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مطلب ایک ہی نہیں۔ یہ سچ ہے کہ 9/11 کے حملوں کے بعد سے 2011 تک 66 ملکوں میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں شمولیت کے شبہ یا الزام یا مذموم واقعوں کو انجام دینے کی وجہ سے 119,044 گرفتار کیے جا چکے تھے، ان میں سے 35,117 مجرم قرار دیے گئے تھے مگر سچ یہ بھی ہے کہ آج تک دہشت گردی کی کسی واضح تعریف کو سبھی ملکوں نے اتفاق رائے سے قبول نہیں کیا ہے۔ 11ستمبر، 2001 سے پہلے سنکیانگ کے اویغوروں کو چینی حکومت علیحدگی پسند کہتی تھی، جنوبی تھائی لینڈ کے علیحدگی پسند جنگجوؤں کو تھائی حکومت علیحدگی پسند کہتی تھی، اسی طرح دنیا کے دیگر علاقوں کی بیشتر حکومتیں اپنے علاقوں کے علیحدگی پسند جنگجوؤں کو علیحدگی پسند ہی کہتی تھیں مگر 9/11 کے بعد امریکہ کی دہشت گردی مخالف جنگ میں معاونت کا اظہار کرتے ہوئے بیشتر ملکوں نے اپنے علاقوں کے علیحدگی پسند جنگجوؤں کو دہشت گرد کہنا شروع کیا۔ 2008 کے بیجنگ اولمپکس یا 2008 سمر اولمپکس کے موقع پر چینی حکومت نے قول و عمل سے یہ دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی کہ اویغور دہشت گرد ہیں، وہ کھیلوں کے دوران بڑے حملے کر سکتے ہیں مگر دنیا نے اس کی باتوں پر توجہ نہیں دی۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ چھیڑنے کے ساتھ دہشت گردی کی واضح تعریف اگر پیش کر دی ہوتی تو کیا دہشت گردی کے الزامات میں برسوں بے قصور لوگوں کو جیل میں رہنا پڑتا اور عدالتوں سے باعزت رہائی پر یہ سوچنا پڑتا کہ ان کے پچھلے ماہ و سال کی خوشیاں کون لوٹائے گا؟ کون ہے ان کی خوشیوں کا اصل قاتل؟ ۔۔۔وہ عالمی لیڈران ہیں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کی باتیں کرتے ہیں مگر اس کی ایک باضابطہ تعریف پر دنیا بھر کے ملکوں میں اتفاق پیدا نہیں کرسکے یا مقامی انتظامیہ کے وہ لوگ ہیں جنہیں اطمینان ہے کہ بے قصور لوگوں کو پھنسانے کے لیے ان سے پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی، انہیں ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا؟
[email protected]
9/11 حملوں کے 20 برس
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS