مہاجرین کو پناہ دینے کے معاملے میں کئی ملکوں نے فراخ دلی کا اظہار کیا ہے۔ اگر وہ فراخ دلی کا اظہار نہ کرتے، اگر ان کے لیڈران بھی یہ سوچتے کہ کون غیر قانونی مہاجر ہے، کون قانونی مہاجر ہے اور جو غیر قانونی مہاجر ہے، اسے کون سے ملک میں منتقل کیا جائے تو مہاجرین کے لیے نہ جانے کیسے حالات ہوتے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی یوروپی ممالک انسانیت کی باتیں زیادہ کرتے ہیں جبکہ حالات کے ستائے ہوئے لوگوں کو پناہ دینے کے معاملے میں وہ بہت آگے نہیں ہیں۔ مہاجرین کی زیادہ تعداد کو پناہ دینے کے معاملے میں پہلے یا دوسرے نمبر پر امریکہ ہے، نہ ہی اس کا کوئی اتحادی۔ اقوام متحدہ کے اعلیٰ کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کی رپورٹ کے مطابق، پہلے اور دوسرے نمبر پر ایران اور ترکی ہیں۔ دونوں ملکوں نے 34-34 لاکھ مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے۔ سب سے زیادہ شامی مہاجرین کو ترکی نے ہی پناہ دی ہے۔ اس کے بعد اردن کا نمبر آتا ہے۔
ترکی کی اقتصادی حالت بہت اچھی نہیں ہے، گزشتہ ایک دہائی میں ترک حکومت کے لیے اقتصادی شرح نمو کو برقرار رکھنا چنوتی بھرا رہا ہے، اس کے باوجود ترکی نے بڑی تعداد میں شامی مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے تو یہ واقعی حیرت کی بات ہے۔ اسی طرح امریکہ اور یوروپی ممالک ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے بہانوں کی تلاش کرتے رہے ہیں، اس کی اقتصادی حالت اچھی نہیں ہے، اس کی جی ڈی پی سے زیادہ اسرائیل کی جی ڈی پی ہے مگر انسانی خدمت کے معاملے میں وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے بہت آگے ہے، کم سے کم مہاجرین کو پناہ دینے کے حوالے سے تو یہ بات کہی جائے گی۔ مہاجرین کو سب سے زیادہ پناہ دینے والے ٹاپ 3 ملکوں کی بات کی جائے تو اس میں تیسرا نمبر جرمنی کا ہے۔ اس نے 25 لاکھ مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے۔ 25 لاکھ مہاجرین کو کولمبیا نے بھی پناہ دے رکھی ہے جبکہ پاکستان میں 21 لاکھ مہاجرین کو پناہ ملی ہوئی ہے۔ ان اعداد و شمار کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ کن ملکوں کے لیڈران انسانیت کی اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں اور کن ملکوں کے لیڈران انسانوں کو راحتیں دینے کا کام کرتے ہیں۔n