برکس کا 17 واں سربراہ اجلاس برازیل کے شہر ریو ڈی جینیریو میں آج 6 جولائی، 2025 سے شروع ہوا اور کل تک چلے گا۔ دنیا کے بدلتے حالات کے مدنظر اس بار کے برکس اجلاس کی زیادہ اہمیت ہے۔ برکس کے ایک اہم رکن ملک ہندوستان میں پہلگام حملے کے بعد یہ اجلاس منعقد ہورہا ہے تو یہ امید رکھی جانی چاہیے کہ اس میں دہشت گردی کا ایشو زیر بحث آئے گا۔ چند ہفتے پہلے ہی برکس کے ایک اور رکن ملک ایران کے خلاف اسرائیل نے جنگ چھیڑی تھی تو یہ سوال فطری طور پر پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس جنگ پر کوئی بات سربراہ اجلاس میں ہوگی؟ برکس کے 17 ویں سربراہ اجلاس میں کئی رکن ممالک کے سربراہان شرکت نہیں کر رہے ہیں۔ ان کی عدم موجودگی کا کیا کچھ اثر اجلاس پر پڑے گا، یہ بھی دیکھنے والی بات ہوگی۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے کہ برکس دنیا کے اہم ترین گروپوں میں سے ایک ہے۔ اس کی تشکیل 16 جون، 2009 کو ’برک (BRIC)‘ نام سے ہوئی تھی۔ اس وقت اس میں 3 براعظم کے 4 ممالک تھے۔ ہر ملک کے نام کے پہلے حرف کی مناسبت سے اس کا نام برک پڑا تھا یعنی برازیل کے پہلے حرف ’بی‘، روس یعنی رشا کے پہلے حرف ’آر‘، انڈیا یعنی ہندوستان کے پہلے حرف ’آئی‘ اور چائنا یعنی چین کے پہلے حرف ’سی‘ سے مل کر برک (BRIC) بنا تھا۔ 2010 میں اس میں ساؤتھ افریقہ یعنی جنوبی افریقہ کے شامل ہوجانے سے اس کا نام برکس کر دیا گیا۔ اس وقت سے اب تک یہ گروپ اسی نام سے جانا جاتا ہے جبکہ اب اس گروپ میں مصر، ایتھوپیا، انڈونیشیا، ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی شامل ہو چکے ہیں اور اس کی طاقت میں کافی اضافہ ہو چکا ہے، لیکن اپنی تشکیل کے وقت سے ہی یہ ایک بڑا گروپ رہا ہے۔ اس میں شامل برازیل جنوبی امریکہ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کی جی ڈی پی 2.13 ٹریلین ڈالر کی ہے۔ جی ڈی پی کے لحاظ سے وہ دنیا کا 10 واں بڑا ملک ہے۔ برکس میںشامل روس اقتصادی اور دفاعی لحاظ سے یوروپ اور دنیا کا ایک اہم ملک ہے۔ سب سے زیادہ ایٹم بم اسی کے پاس ہیں۔ روس کی جی ڈی پی 2.08 ٹریلین ڈالر کی ہے۔ جی ڈی پی کے لحاظ سے وہ دنیا کا 11 واں بڑا ملک ہے۔ ہندوستان ایشیا کا ایک ہم ملک ہے۔ یہ سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ ہندوستان چوتھی بڑی اقتصادی طاقت ہے۔
برکس کا ایک اور رکن ملک چین بھی ایشیا کا ایک اہم ملک ہے۔ اس کی جی ڈی پی 19.23 ٹریلین ڈالر کی ہے ۔ جنوبی افریقہ، براعظم افریقہ کا ایک اہم ملک ہے۔ اس کی جی ڈی پی410.34 ارب ڈالر ہے۔ ان ملکوں کے علاوہ بھی جو ممالک برکس میں شامل ہیں، ان میں سے کوئی اقتصادی یا دفاعی اور کوئی دونوں لحاظ سے دنیا کا اہم ملک ہے۔ کئی ملکوں کا محل وقوع ایسا ہے کہ ہنگامی حالات میں دنیا بھر میں اتھل پتھل مچا سکتے ہیں جیسے اسرائیل کے خلاف حالیہ جنگ میں ایران نے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کا اعلان کرکے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی تھی، کیونکہ دنیا کا 20 فیصد ایل این جی یعنی لیکویفائیڈ نیچرل گیس اور 25 فیصد تیل اسی بحری راستے سے سپلائی کیا جاتا ہے۔ اس کے بند ہو جانے کا مطلب دنیا بھر میں مہنگائی کا بڑھنا تھا۔ غالباً ایران کے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کے اعلان کی وجہ سے ہی امریکہ کو اسرائیل سے کہنا پڑا کہ وہ جنگ روکے۔ اس نے چین سے بھی یہ کہا تھا کہ وہ ایران کو آبنائے ہرمز کو بند کرنے سے روکے۔ اس سے ایران پر چین کے اثرات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ یوکرین جنگ میں ایران نے روس کا ساتھ دیا ہے اور حالیہ جنگ میں روس کھل کر ایران کی حمایت میں بولا ہے۔
اس سے اب یہ بات ناقابل فہم نہیں رہ گئی ہے کہ روس، ایران اور چین متحد ہیں اور ان تینوں ملکوں کے سربراہوں نے اس بار کے برکس سربراہ اجلاس میں شرکت نہیں کی ہے تو اس پر شبہ پیدا ہونا فطری ہے۔ اس سوال کا پیدا ہونا فطری ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ان تینوں ہی ملکوں کے سربراہوں نے اجلاس میں شرکت نہیں کی؟ سربراہ اجلاس میں روسی صدر ولادیمیر پوتن کے شرکت نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے ان کے خلاف جنگی جرائم میں گرفتاری کا وارنٹ جاری کر رکھا ہے، لیکن چینی سربراہ شی جن پنگ کے شرکت نہ کرنے کی وجہ کیا ہے؟ ایران کے صدر مسعود پزشکیان کے شرکت نہ کرنے کی وجہ کیا ہے؟ برکس سربراہ اجلاس کے اختتام پر یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ اب برکس کی دِشا اور دَشا کیا رہے گی؟ اس کا مستقبل روشن ہے یا وہ ٹرمپ کے انتباہ کے زیر اثر آگیا ہے؟