کورونا وائرس کے انفیکشن کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال کے سبب کھانے کی بھاری قلت کی شکار دنیا میں بھوک سے مرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔انسدادغربت کیلئے کام کرنے والی تنظیم ’ آکسفیم‘ (آکسفورڈ کمیٹی آف فیمین ریلیف )کاحالیہ سروے رونگٹے کھڑے کردینے والا ہے۔ آکسفیم کے مطابق دنیا بھر میں بھکمری کی وجہ سے ہر ایک منٹ میں11لوگوں کی اموات ہورہی ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں پوری دنیا میں قحط جیسے حالات کا سامنا کرنے والے لوگوں کی تعداد چھ گنا بڑھ گئی ہے۔
یہ درست ہے کہ غربت اور بھکمری دنیا کا قدیم ترین مسئلہ ہے لیکن موجودہ دور میں یہ ایک سنگین چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔اس سلسلے میں ہونے والے سروے اور جائزے بتاتے ہیں کہ آسمان پرکمند ڈالنے والی دنیا نے اپنے اس قدیم ترین مسئلہ سے نمٹنے کیلئے اب تک کوئی اطمینان بخش تدبیر نہیں کی ہے۔یہ مسئلہ عام حالات میں تو پہلے سے ہی سنگین تھا لیکن گزشتہ سال مارچ میں کورونا وبا سے محفوظ رہنے کیلئے لگائی گئی پابندیوں کے سبب حالات سنگین تر ہوگئے ہیں۔ آکسفیم کا کہنا ہے کہ بھکمری سے ہونے والی اموات دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سبب ہورہی اموات کو بھی مات دے رہی ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا میں ہر ایک منٹ میں7لوگوں کی موت ہورہی ہے لیکن بھکمری کی وجہ سے فی منٹ11افراد ہلاک ہورے ہیں۔ ’دی ہنگر وائرس ملٹی پلائز‘ نام کی اس رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ صحت ایمرجنسی یعنی کورونا وائرس اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا بھر کی معیشتیں متاثر ہوئی ہیں اور گزشتہ سال کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ انسان قحط سالی جیسے حالات کے شکار ہیں۔155ملین افراد قلت خوراک سے گزررہے ہیں جو گزشتہ سال کے مقابلے میں20ملین زیادہ ہے ا وران میں سے دو تہائی افرادبھکمری کے شکار ہیں۔
آکسفیم کے چیئرمین اور سی ای او ایبے میکس مین کا کہنا ہے کہ یہ اعدادوشمار انفرادی سروے میں سامنے آئے ہیں جہاں ایک فرد کا مطلب ایک خاندان ہوتاہے۔لہٰذا یہ تعداد چار گنا سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان سنگین حالات میں بھی دنیا بھکمری سے جنگ کے بجائے آپس میں ہی الجھی ہوئی ہے اوراس کااثرا ن لوگوں پر پڑرہا ہے جو پہلے سے ہی مالی ابتری کے شکار ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ دنیا میں اناج کی پیداوار کم ہورہی ہو بلکہ یمن، افغانستان، جنوبی سوڈان، ایتھوپیا اور شام جیسے ممالک جہاں خانہ جنگی ہورہی ہے، وہاں کھڑی فصلوں کو تباہ کرکے بھکمری اور خوراک کی قلت کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیاجا رہاہے۔اس وجہ سے بھی ان ممالک میں بھکمری کے شکار لوگوں کی تعداد دوسرے ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔
ہندوستان میں بھی بھکمری کی یہ صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے یہاں آبادی کا ایک حصہ پہلے سے ہی غربت، قلت خوراک اور بھکمری جیسے حالات کا سامنا کررہاہے۔کورونا وائرس نے صورتحال کی سنگینی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ وسائل اور ذرائع ہونے کے باوجود ہندوستان کاشمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں بھکمری ایک بڑا مسئلہ ہے۔گلوبل ہنگر انڈیکس 2020 میں ہندوستان کا اسکور27.2ہے اور107ممالک والی اس فہرست میں ہندوستان 94ویں نمبر پرہے۔جب کہ ہندوستان سے کہیں زیادہ پسماندہ، معاشی اعتبار سے کمزور سمجھے جانے والے پڑوسی ممالک پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اورا نڈونیشیا میں یہ صورتحال نہیں ہے۔دنیا کاسب سے بڑا عوامی تقسیم کا نظام ہونے کے باوجود ہندوستان کے21فیصد عوام قلت خوراک کے شکار ہیں۔ضرورت مندوں تک اناج اور غلہ نہیں پہنچ پارہاہے، کھلے بازار میں غذائی اجناس کی قیمتوں میں40فیصد کا اضافہ بھی ہوا ہے۔
حالانکہ ہندوستان ان ممالک میں بھی شامل ہے جو عالمی بھکمری کے خلاف لڑائی لڑرہے ہیں اور انسداداغربت کیلئے کام کرنے والی رضاکار تنظیموں کو امدادی رقم بھی دے رہے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کورونا وباکی وجہ سے ہندوستان سمیت دنیا بھر کی معیشتیں ابتری کا شکار ہوگئی ہیں اوران کے وسائل سمٹ رہے ہیںجس کا اثر بھی بھوک کے خلاف لڑائی پر پڑرہاہے۔یہی صورتحال اگرجاری رہی تو بھوک سے مرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتاچلاجائے گا۔خدشہ تو یہ بھی ہے کہ فی منٹ دہائی کے ہندسہ تک پہنچنے والی اموات کہیں سیکڑہ کا ہندسہ نہ پار کرلیں۔اس لیے ضروری ہے کہ دنیا اس سنگین مسئلہ کے حل کیلئے سنجیدہ کوشش کرے اورغریبوں کی مدد کیلئے آگے آئے تاکہ بھکمری کے اس خطرہ کو کم اورختم کیاجاسکے۔
[email protected]
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS