زین شمسی: نظر نہیں تو اندھیرا ہے آدمی کیلئے

0

زین شمسی

تپتے ریگستان میں بسے ایک چھوٹے سے ملک قطر میں آج دنیا کا سب سے بڑا میلہ ہے۔ 30لاکھ کی آبادی والا یہ ملک آج دنیا کی نظروں میں معتبر بن چکا ہے۔ جہاں فٹ بال کے دیوانے لاکھوں کی تعداد میں اپنے اپنے ممالک کے جھنڈے بلند کیے خوشگوار ماحول میں فیفا کا لطف اٹھا رہے ہیں۔ یوں بھی عالمی فٹ بال مقابلہ دنیا کا سب سے دلچسپ اور مقبول ایونٹ ہے۔ قطر میں اس مقابلہ کا انعقاد خلیج ممالک کے لیے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ یوروپ اور مغربی طاقتوں کو خلیجی روایت اور تہذیب ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اس لیے عیسائی اور یہودی ممالک اس خطہ کو بدنام اور برباد کرنا کھیل سمجھتے ہیں، لیکن کھیل کھیل میں ہی قطر نے ایسا دھماکہ کر دیا کہ وہی ممالک آج خلیج کے ایک خطہ کے مہمان بننے پر مجبور ہوئے۔ مجبور اس لیے کہ ان کے تعیش کا کوئی سامان وہاں موجود نہیں پھر بھی وہ لوگ وہاں قیام کے لیے مجبور ہیں۔2010میں ہی فیفا نے یہ طے کردیا تھا کہ2020کا عالمی فٹ بال مقابلہ کی میزبانی قطر کو دی جا ئے گی۔ اس فیصلہ کے بعد امریکہ اور جاپان نے سخت اعتراضات درج کیے تھے۔ کئی طرح کے الزامات عائد کیے گئے۔ خاص کر گرم موسم کا معاملہ اٹھایا گیا۔ انفرااسٹرکچر کی دہائی دی گئی اور سب سے بڑا الزام یہ عائد کیا گیا کہ قطر نے فیفا کے آفیسروں کو رشوت دے کر یہ میزبانی حاصل کی ہے، مگر تمام الزامات، اعتراضات اور احتجاجات کو نظر انداز کرتے ہوئے قطر اتنے بڑے ایونٹ کو کامیاب بنانے میں مصروف ہوگیا اور آج قطر دنیا کی نظروں میں ہے۔
تنازعات سے ڈر جانا یا اپنے موقف سے ہٹ جانا کمزوروں کی نشانی ہے۔ آدمی کی نیت صاف ہو تو وہ کسی چیز کی پروا نہیں کرتا۔ فیفا شروع ہونے سے قبل ہی قطر نے کچھ اصول مرتب کیے جو دنیا کو چونکا گئے اور اس پر ایک بار پھر الزامات کی بارش ہوئی۔ قطر نے واضح طور پر کہا کہ ہماری روایت سے انحراف کی کوئی صورت نکلی تو ہم اربوں روپے کی پروا نہیں کریں گے اور آئندہ 50 سال پھر انتظار کریں گے۔ دنیا بھر کے فٹ بال شائقین سے صاف لفظوں میں کہہ دیا گیا کہ اسٹیڈیم سے باہر اور اس کے اندرشراب نوشی جرم ہے۔ یہاں تک کہ بیئر کی بوتلیں بھی دکھائی نہ دیں۔ خاتون شائقین کو پیغام دے دیا گیا کہ وہ چھوٹے لباس نہ پہنیں۔ ہم جنسوں کا تو داخلہ ہی پابند کر دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ یوروپ و امریکہ بمقابلہ خلیج و اسلامی ممالک میں روایت، تہذیب اور شناخت ہی اصل ایشو ہے اور اس معاملہ میں قطر ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا۔ اپنی شناخت کو مزیدمضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے فیفا کی شروعات قرآن خوانی سے کرائی۔ احادیث مبارکہ کے اقوال زرّیں کی ہورڈنگ سے اسٹیڈیم کو سنوارا۔ مہمان نوازی کا وقار قائم رکھتے ہوئے تمام شائقین کی سیٹوں پر تحفہ کا کٹ سجا دیا۔کھیل کے میدان کو تہذیب و روایات کی تشہیر کا سبب بنانے والے قطر کی تعریف فیفا کے سربراہ نے یہ کہہ کر کردی کہ شیخ دنیا کے مکروہات اور توہمات سے بالا ہیں۔
آج جب یہود اور نصاریٰ کے بعد ہنود بھی اسلامی روایات کے سخت ترین مخالف بن گئے ہیں، وہاں قطر کا ایمانی فیصلہ واقعی قابل ستائش ہے کہ اس نے کھیل کھیل میں دنیا کو کپڑے پہنانے کا سبق دے دیا۔ یہ نظر کی وسعت کا کمال ہے۔
ویسے نظر کی وسعت کی بات کی جائے تو مالیگاؤں کی جواں سال خاتون ڈاکڑ مریم عفیفہ انصاری بھی قابل مبارک باد ہیں۔ جنہوں نے حالات کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنی منزل پر نگاہ رکھی اور خود کو اتنا توانا بنا لیا کہ میڈیکل کے شعبہ میں پہلی مسلم نیوروسرجن بننے کا شرف حاصل کیا۔ 2020 کےNEETمقابلہ جاتی امتحان میں انہیں 137واں مقام حاصل ہوا تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم اردو اسکول سے ہوئی ۔ مگر ان کا خواب یہی تھا کہ وہ سفید کوٹ پہن کر گلے میں استھیستوکوپ لگائے مریضوں کا علاج کریں۔ آج جب وہ نیورو سرجن بن گئیں تو ان کا دیرینہ خواب سچ ثابت ہوگیا۔ ان کی کامیابی تبھی ممکن ہو پائی جب انہوں نے اپنی منزل پر اپنی آنکھیں جمائے رکھیں۔ حالات و مسائل سے جوجھتے ہوئے آگے بڑھتی چلی گئیں۔
دراصل کوئی بھی انسان یا کوئی بھی ملک تبھی بلندیوں کو چھوتا ہے، جب اس کے سلوک میں مخلصانہ خوشبو ہوتی ہے اور اس کی نیت میں ایماندارانہ پاکیزگی۔ ہم ذرا سے فائدے کے لیے اپنے آپ کو گرا دیتے ہیں، ضمیر کو بیچ کھاتے ہیں اور پھر اپنی تنزلی کا رونا روتے ہوئے خدا سے پوچھتے ہیں کہ یااللہ میری دعائیں کب قبول ہوں گی اور میرے گناہ کب معاف ہوں گے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS