نئی دہلی: یوپی کے سیتا پور شہر سے لوجہادکے نام پر گرفتار دس ملزمین کومقدمہ سے ڈسچارج کرنے والی عرضی پر آج ا لہ آبادہائیکورٹ کی لکھنؤ بینچ نے لوجہاد قانون کے غلط استعمال پر یوپی سرکار سے جواب طلب کیا ہے نیز سرکاری وکیل کو جواب داخل کرنے کا آخری موقع دیتے ہوئے سماعت دو ہفتوں کے لیئے ملتوی کردی۔وہیں جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے قانون کو شہریوں کی آزادی اور خودمختاری پر ایک حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس قانون کی آڑ میں ایک فرقہ کو نشانہ بنانا غلط ہے۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے یہ حکم سماعت کرتے ہوئے دیا۔ اس سے قبل عدالت نے یو پی حکومت کو ملزمین کی جانب سے داخل عرضداشت پر جواب داخل کرنے کا حکم دیا تھا لیکن آج سرکار کی جانب سے جواب داخل نہ ہونے کی صورت میں عدالت نے یوپی سرکار کی نمائندگی کرنے والے وکیل کو جواب داخل کرنے کا آخری موقع دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
جسٹس نریندر کمار جوہر ی کے روبروآج معاملہ سماعت کے لیئے پیش ہوا جس کے دوران سینئرایڈوکیٹ او پی تیوار ی نے عدالت کو بتایا کہ پولس نے دس بے قصور لوگوں کو جس میں خواتین بھی شامل ہیں کو حراست میں لیکر آئین ہند کے ذریعہ دی گئی ان کی شخصی آزادی ختم کردی ہے لہذا ان کے خلاف قائم مقدمہ ختم کیا جائے، ایڈوکیٹ تیواری نے عدالت کو بتایاکہ ملزمین کے خلاف 26 نومبر کو مقدمہ قائم کیا گیا جبکہ 28 نومبر 2020 کو اتر پردیش کے گورنر آنندی بین پٹیل نے ”غیر قانونی تبدیلی مذہب مانع آرڈیننس 2020“ Uttar Pradesh Prohibition of Unlawful Conversion of Religion Ordinance, 2020 پر دستخط کیئے یعنی کے اس مقدمہ پر غیر قانونی طور پر اس قانون کا اطلاق کیا گیا جس پر جسٹس جوہری نے عدالت میں موجود ایڈوکیٹ جنرل سے جواب طلب کیا جس پر انہوں نے عدالت سے کہا کہ انہیں جواب داخل کرنے کا موقع دیں تاکہ مقدمہ کی فائل کا معائنہ کرنے کے بعد عدالت کو جواب دے سکیں۔
ایڈوکیٹ او پی تیواری نے تقریباً ایک گھنٹے تک بحث کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ یو پی حکومت لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کو ہراساں کررہی ہے اور آئین ہند کے ذریعہ حاصل بنیاد ی حقوق کو اقتدار کے بل بوتے پر پامال کررہی ہے نیزلو جہاد کو غیرقانونی قرار دینے والے قانون کا سہارا لیکر اتر پردیش پولس مسلمانوں کو پریشان کررہی ہے اور انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل رہی ہے جس کی ایک مثال یہ مقدمہ ہے جس میں مسلم لڑکے کے والدین، قریبی رشتہ داروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ ان کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، مسلم لڑکا اور ہندو لڑکی نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور دونوں فی الحال کہاں ہیں کسی کو نہیں معلوم لیکن لڑکی کے والد کی فریاد پر مقامی پولس نے دو خواتین سمیت دس لوگوں کو گرفتار کرلیا جس کے بعد سے پورے علاقے میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔
ایڈوکیٹ تیواری نے کہا کہ گرفتار شدگان شمشاد احمد، رفیق اسماعیل، جنید شاکر علی،محمد عقیل منصوری، اسرائیل ابراہیم، معین الدین ابراہیم، میکائیل ابراہیم، جنت الا براہیم، افسری بانو اسرائیل عثمان بقرعیدی اور چان بی بی کے خلاف قائم مقدمہ غیر آئینی بنیادوں پر ٹکا ہوا ہے جسے ختم کردینا چاہئے جس پر عدالت نے انہیں کہا کہ ریاستی حکومت کے جواب کی روشنی میں عدالت اس تعلق سے فریقین کی بحث کی سماعت کے بعد فیصلہ کریگی۔
آج عدالت میں سینئر ایڈوکیٹ او پی تیواری کے ساتھ ایڈوکیٹ عارف علی، ایڈوکیٹ فرقاق و دیگر موجود تھے۔
جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے قانون کو شہریوں کی آزادی اور خودمختاری پر ایک حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس قانون کی آڑ میں ایک فرقہ کو نشانہ بنانا غلط ہے۔انہوں نے کہا کہ کچھ ریاستوں میں مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کی غرض سے نام نہادلوجہادکی آڑمیں قانون سازی آئین کے رہنمااصولوں کے خلاف ہے اور یہ قانون شہریوں کی آزادی اور خودمختاری پر ایک حملہ ہے جبکہ آئین میں ملک کے ہر شہری کو نہ صرف مکمل مذہبی آزادی دی گئی ہے بلکہ اسے اپنی پسند اور ناپسند کے اظہارکا بھی پورااختیاردیا گیاہے انہوں نے کہا کہ قانون سازی کے وقت دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس کا اطلاق سب پر یکساں ہوگا، اور کسی فرقے کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتاجائے گالیکن اترپردیش جیسی اہم ریاست میں اس آئین مخالف قانون کا دھڑلے سے ایک مخصوص فرقہ کے خلاف استعمال ہورہا ہے، انہوں نے آگے کہا کہ حال ہی میں اسی طرح کے ایک معاملہ میں الہ آبادہائی کورٹ میں اترپردیش سرکارکی طرف سے جو حلف نامہ داخل کیا گیا ہے وہ اس افسوسناک سچائی کا آئینہ ہے، حلف نامہ میں دی گئی تفصیل کے مطابق اب تک جن 85لوگوں کے خلاف اس قانون کے تحت مقدمے قائم کئے گئے ہیں ان میں 79مسلمان ہیں جبکہ دیگر عیسائی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS