کسان تحریک اوراظہار رائے کی آزادی

0

عبدالحفیظ گاندھی

کسی قانون کے خلاف مظاہرہ کرنا آئینی حق ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی اس حق کو تسلیم کیا ہے۔ کسی بھی مسئلہ پر مختلف آرا رکھنا ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 19میں بنیادی حق ہے، تاہم اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ ضلع انتظامیہ دفعہ144سی آر پی سی کے ذریعہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی پامالی کرتی ہے۔
دہلی اور ملک کے مختلف حصوں میں جاری کسان تحریک کے ساتھ بھی حکومت کا یہی رویہ ہے۔ دفعہ 144نافذ کرکے کسان تحریک کو توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار اپنے ہی ملک کے کسانوں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ دھرنے کے مقام پر لوہے کی کیلیں، سیمنٹ اور پتھر کی دیواریں اور خاردار تاروں کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اس طرح کے کانٹوں کے تاروں کو اکثر دو ممالک کی سرحدوں پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ سب اس لیے کیا جارہا ہے تاکہ پنجاب ، ہریانہ ، راجستھان ، اترپردیش ، اتراکھنڈ اور دیگر ریاستوں سے کسانوں کو آنے سے روکا جاسکے۔ یہ سب دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے یہ کسان اس ملک کے شہری نہیں بلکہ دشمن ملک سے ہوں۔ کیا اسی دن کے لیے مجاہدین آزادی نے آزادی کی جنگ لڑی تھی؟ کیا اسی دن کے لیے آئین بنانے والوں نے ملک کو ایک بے حد خوبصورت آئین دیا تھا؟ ایسا تو کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ حکومتیں اپنے لوگوں کے ساتھ ہی دشمنوں جیسا سلوک کریں گی۔
کسانوں کے دھرنا مقامات کی بجلی اور پانی کاٹا جارہا ہے۔ وہاں انٹرنیٹ کی سہولت ختم کردی گئی۔ کیا یہ چیزیں حکومت کو ایک صحت مند جمہوریت میں کرنی چاہیے۔ دہلی پولیس کی لاپروائی کا یہ عالم ہے کہ مقامی لوگوں کی شکل میں شرپسند عناصر سنگھوبارڈر پر کسانوں کے دھرنے کے مقام تک آجاتے ہیں اور وہاں تشدد کرتے ہیں۔ یہ سب منظم طریقہ سے کیا جارہا ہے تاکہ کسانوں کی تحریک کو کمزور کیا جاسکے۔
دہلی کے غازی پور بارڈر پر بھی خوف پیدا کرنے کی  کوشش کی گئی۔ وہاں بیٹھے لوگوں کو گرفتاری کے نام پر ڈرایا گیا۔ لیکن راکیش ٹکیت نے ہمت اور تدبر سے کام لیا۔ ان کے آنسوؤں نے دھرنا کو تقویت بخشی۔ غازی پور بارڈر پر ہنگامہ آرائی کے بعد کسان تحریک مغربی اتر پردیش ، اتراکھنڈ اور ہریانہ میں مزید مضبوط ہوگئی۔ مختلف کھاپ پنچایتوں نے اپنی حمایت دہلی میں جاری کسان تحریک کو دی ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتیں اب بیک فٹ پر آگئی ہیں۔
26 جنوری کو ہونے والے تشدد کے بعد حکومت نے کسان لیڈروں اور صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرا دی ہے۔ کچھ صحافیوں پر گمراہ کن ٹویٹ کرنے پر غداری جیسے سنگین جرم کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ مقدمہ درج کرتے وقت اس بات کو نظرانداز کیا گیا کہ ان صحافیوں نے کچھ ہی منٹوں میں اپنی غلطی کا احساس کرنے پر ٹوئٹ ڈیلیٹ کردیے تھے۔ایڈیٹر گلڈ آف انڈیا اور پریس کلب آف انڈیا نے صحافیوں کے خلاف غداری جیسی دفعات میں مقدمات کے اندراج کی پرزورمخالفت کی ہے۔
سنگھو بارڈر سے صحافی مندیپ پُنیا کو صرف اس وجہ سے گرفتار کیا گیا کیوں کہ وہ عوام کے سامنے حقیقت کو بے نقاب کررہا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک میں آزاد صحافت کرنا اب مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اگر کوئی صحافی حکومت کے خلاف لکھتا ہے یا بولتا ہے تو گرفتاری کی تلوار اس کے سر پر لٹکتی رہتی ہے۔ حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ حکومت پر تنقید کرنا، ملک کی تنقید نہیں ہے۔ میڈیا کا بنیادی کام تو سوال پوچھنا ہی ہے۔ پھر حکومتیں سوالوں سے اتنی خوفزدہ کیوں ہیں؟
کچھ دن قبل حکومت نے ٹویٹر سے کہا کہ وہ تقریباً250 ٹویٹر اکاؤنٹس کو غیرفعال (Deactivate) کردے۔کچھ گھنٹے ڈی ایکٹیویٹ کرنے کے بعد ٹویٹر نے ان اکاؤنٹس کو دوبارہ ایکٹیویٹ کردیا۔ یہ زیادہ تر وہ اکاؤنٹس تھے جو کسان تحریک کی حمایت میں لکھ رہے تھے۔ ٹویٹر کو ایکٹیویٹ کرتے ہوئے یہ خیال کیا جارہا تھا کہ یہ مسئلہ فریڈم آف اسپیچ سے منسلک ہے، اس لیے وہ حکومت کے کہنے پر ان اکاؤنٹس کو مستقل طور پر غیر فعال نہیں کرسکتا۔
حکومت اور کسانوں کے مابین بڑھتے ہوئے تعطل کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم نے ایک بیان دیا کہ وہ ایک فون کال کے فاصلے پر ہیں اور کسان جب چاہیں ان سے بات کرسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ کس طریقہ کی بات چیت کی پیش کش ہے کہ ایک طرف حکومت مذاکرات کی پیش کش کرے اور دوسری طرف دھرنا مقامات کی بجلی ، پانی اور انٹرنیٹ بھی کاٹ دیا جائے۔ ان سب سے لگتا ہے کہ حکومت کی مذاکرات کی کوئی منشا نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت جان بوجھ کر وقت ضائع کررہی ہے۔ حکومت کو لگتا ہے کہ تھک کر کسان اپنے گھروں کی جانب لوٹ جائیں گے۔ کسانوں کے جوش کو دیکھ کر ایسا نہیں لگتا۔ انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ جب تک تینوں قوانین واپس نہیں ہوں گے وہ گھر نہیں جائیں گے۔
ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ان قوانین کو اتنی جلدبازی میں آرڈیننس کے ذریعہ کیوں لایا گیا اور حکومت ان قوانین کو واپس نہ لینے پر کیوں بضد ہے۔ حکومت ایسا کیوں نہیں کرتی کہ ان تینوں قوانین کو واپس لے اور پھر کسان تنظیموں اور سبھی سیاسی پارٹیوں سے صلاح و مشورہ کرکے دوبارہ ان قوانین کو پارلیمنٹ سے پاس کرائے۔
کوئی بھی حکومت عوام کے لیے ہوتی ہے۔ اگر لوگ کہہ رہے ہیں کہ حکومت کے ذریعہ بنائے گئے قوانین سے نقصان ہوگا تو حکومت کو بھی اس پر غور کرنا چاہیے۔ موجودہ تعطل کو ختم کرنے کے لیے حکومت کو پہل کرنی چاہیے۔
کسانوں کے تئیں حکومت کا رویہ مناسب نہیں ہے۔ درجنوں کسان دھرنا مقامات پر شہید ہوگئے لیکن حکومت کی طرف سے ان کسانوں کے لیے یا ان کے اہل خانہ کی ہمدردی میں ایک بھی بیان نہیں آیا۔ وزیراعظم نے اس معاملے میں ایک ٹویٹ تک نہیں کیا۔ کیا ہماری حکومتیں اتنی بے حس ہوچکی ہیں کہ انہیں کسانوں کی شہادت نظر نہیں آتی؟
کپکپاتی سردی میں بیٹھے کسانوں کی تکلیف حکومت کو محسوس کرنی چاہیے۔ کوئی یوں ہی مہینوں اپنا گھر چھوڑکر کپکپاتی سردی میں سڑکوں پر نہیں بیٹھتا۔ معلوم نہیں حکومت کی ایسی کیا مجبوری ہے کہ اسے کسانوں کا درد نظر نہیں آتا۔ اگر درد نظر آتا تو حکومت دہلی کے بارڈر کی قلعہ بندی نہیں کرتی۔ اگر درد نظر آتا تو دہلی بارڈر پر دیوار بنانے کے بجائے حکومت اپنے اور کسانوں کے درمیان پل بنانے کی کوشش کرتی تاکہ بات چیت کے ذریعہ مسئلہ کا حل تلاش کیا جاسکے۔
کامیاب جمہوریت وہی ہوتی ہے جہاں بات چیت کے ذریعہ معاملات کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ مظاہرہ کرنے والوں یا اپنی بات کہنے والوں پر کیس درج کرنا جمہوریت کا گلا دبانے جیسا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ کسانوں اور صحافیوں کے خلاف جھوٹے مقدمات واپس لے اور بات چیت کے لیے فضا بنائے۔بات چیت میں پہل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ صرف اتنا کہہ دینے سے کہ ہم ایک فون کال کے فاصلہ پر ہیں، حکومت کی ذمہ داری ختم نہیں ہوجاتی۔ حکومت مذاکرات کا دور جاری رکھے اور یہ بھی یقینی بنائے کہ کسانوں کو دھرنا مقامات پر پریشان و ہراساں نہ کیا جائے۔ 
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS