کہیں اسلحہ نہ بن جائے پانی

0

دنیش مشر
(مترجم: محمد صغیرحسین)

چین کے ذریعہ برہم پتر ندی پر اپنے علاقے میں مجوزہ کئی باندھوں کی تعمیر کا ذکر زوروں پر ہے جس کی وجہ سے ہندوستان میں تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔ یہ تشویش صرف ہندوستان کی نہیں ہے۔ اس کا اثر بنگلہ دیش پر بھی پڑنے والا ہے۔ برہم پتر کو ہندوستانی روایت میں، سون بھدر اور سندھو کی طرح ندی نہیں دریا تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ دریا تبت میں مانسروور تال کے مشرق میں ہمالیہ کے شمالی حصے میں واقع آنگسی گلیشیر سے نکلتا ہے جو سطح سمندر سے 5,150 میٹر کی اونچائی پر موجود ہے۔ یہاں سے یہ دریا مشرق کی جانب بڑھتا ہے اور 3,000کلومیٹر کی مسافت طے کرکے گیالہ پری اور نامچہ بروا وادی میں پہاڑوں کے بیچ سے چکر کاٹتا ہوا مغرب اور جنوب مغربی سمت میں مڑجاتا ہے اور اروناچل پردیش میں پاسی گھاٹ کے پاس ہندوستان میں داخل ہوتا ہے۔ چین میں یارلنگ تسانگپونام سے مشہور یہ دریا اروناچل میں داخل ہونے کے وقت سیانگ اور آگے دہانگ نام سے پہچانا جاتا ہے۔ یہاں پہنچ کر یہ کئی حصوں میں تقسیم ہوکر بہنے لگتا ہے اور پھر آسام میں سادیامقام کے پاس اس کی تمام شاخیں ایک ہوکر ریاست میں داخل ہوتی ہیں اور اس کا نام برہم پتر ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد لگ بھگ 800کلومیٹر مغرب میں بہتا ہوا یہ دُھری کے پاس بنگلہ دیش کو سیراب کرتا ہے اور جنوب کی سمت آگے بڑھتا ہوا خلیج بنگال میں سما جاتا ہے۔
اس دریا کے پورے راستے میں بہت سی جگہیں ایسی ہیں جو مسطح ہیں، تو کہیں کہیں اسے پہاڑیوں کے درمیان سے گزرنا پڑتا ہے۔ پہاڑیوں کے درمیان سے گزرتے وقت، اس پر باندھ بنانے والوں کی نظر پڑتی ہے۔ چین میں سینچائی کے لیے تو نہیں، مگر بجلی کی پیداوار اور ذخیرئہ آب کے لیے اس کے پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس میں بھی خاص طور پر، بجلی پیداوار کے لیے کئی معقول و مناسب مقامات ہیں۔ چوں کہ دریا کے منبع پر پانی کم و بیش پانچ کلومیٹر اونچائی سے نیچے گرتا ہے، اس لیے اس کے پانی کی رفتار زبردست ہوتی ہے اور ایسی رفتار سے بہنے والے دریا سے بجلی کی پیداوار بھی آسان ہوجاتی ہے۔ پانی کی تیز رفتاری کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ دریا کے کٹاؤ کی استعداد زیادہ ہوتی ہے اور وہ اپنی روانی کے ساتھ زرخیز مٹی بھی میدانی علاقوں میں پھیلا دیتا ہے۔ چین نے سال 2009میں اس دریا پر بجلی پیداوار کے لیے جانگ مؤ میں باندھ بنانے کا کام شروع کردیا تھا اور پہلا 510میگاواٹ طاقت کا باندھ 2014 میں بن کر تیار بھی ہوچکا تھا۔
اس کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ چین ان باندھوں کی مدد سے ہندوستان آنے والے پانی کو اپنے ذخائر آب میں روک سکتا ہے۔ اتنا ہی نہیں برسات میں جب دریا میں پانی کی مقدار بڑھ جاتی ہے، تب وہ پانی کو کھلا چھوڑ سکتا ہے جس سے ہمارے یہاں سیلاب آنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
یہ دونوں صورت حال ہندوستان کے لیے باعث تشویش ہیں۔ اس طرح کا ایک باندھ تبت کی راجدھانی کے پاس کافی پہلے بنالیا گیا تھا اور اب کچھ نئے باندھ بنانے کی تجویز ہے۔ آج کل جن نئے باندھوں کی تعمیر کا خوب چرچا ہے، اُن کی تعداد تین ہے۔ ان کی تعمیر نامچہ بروا میں داگو، جیاچہ اور جسومیں ہوئی ہے جن کی مجوزہ استعداد بالترتیب 640میگاواٹ، 320میگاواٹ اور 560میگاواٹ بتائی جاتی ہے۔
ان باندھوں کے ماحولیات پر، پانی کی کمی یا زیادتی پر کیا اثرات ہوں گے، یہ قابل غوروفکر ہے کیوں کہ ان تمام مجوزہ باندھوں سے اگر کبھی پانی چھوڑ دیا جائے گا تو اس صورت حال کا مقابلہ ہم کس طرح کریں گے۔ اس کے بارے میں ابھی سے سوچنا ہوگا۔ کہتے ہیں کہ ہندوستان اور چین کے مابین ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے مطابق وہ ہندوستان کو موسم باراں میں دریا میں آنے والے پانی کے بارے میں مطلع کرتا رہے گا۔ یہ اطلاعاتی نظام کس قدر کارگر ہوگا، اس کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔ چند سالوں پہلے ماجُلی جزیرے میں اچانک بہت پانی آگیا تھا جس سے نمٹنے کی کوئی تیاری نہیں تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں زبردست تباہی ہوئی۔ وہاں کیا بلکہ پورے برہم پتر کی لمبائی میں کٹاؤ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اگر باندھوں کے سبب زیادہ پانی تیز رفتاری سے آگیا تو کٹاؤ اور تباہی دونوں میں بے انتہا اضافہ ہوگا۔ حالاں کہ ہندوستان بھی اپنی طرف دریائے برہم پتر پر باندھ بنانے کا ارادہ کررہا ہے تاکہ چین کی طرف سے اچانک چھوڑے گئے پانی کے سیلاب کو سنبھالا جاسکے۔
یہ مسئلہ سفارتی-سیاسی سطح پر حل کیا جاسکتا ہے مگر جو پریشانیاں، دریائی علاقوں کے باشندگان ہر سال جھیلتے ہیں، اُن پر ہمیں توجہ کرنی چاہیے۔ ابھی بھی آسام سمیت شمال مشرقی ریاستوں کو ہر سال سیلاب کا عذاب سہنا پڑتا ہے۔ ہمارے ملک میں جہاں سب کچھ ہمارے ہاتھوں میں ہے، وہاں دریا کے دونوں جانب، نشیب و فراز میں، پشتوں کے اندر اور باہر، گاؤں اور شہر میں آپسی اختلافات کم نہیں ہیں۔ اسے تو ہم حل کرسکتے ہیں یا کم ازکم ایک دوسرے سے متصادم توقعات پر نظرثانی کرسکتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ برسات میں اگر ایک طرف کے لوگ زیادہ پانی دوسری طرف دھکیل دیں تو اس صورت حال سے کس طرح نمٹا جاسکتا ہے؟
ندیوں کے کنارے بنے پشتے جب ٹوٹ جاتے ہیں اور نام نہاد محفوظ لوگ مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں، تب اس وقت ذمہ داری کو دوسرے فریق پر ڈالنے کے لیے کتنے بہانے بنائے جاتے ہیں۔ ہماری ساری طاقت اور توانائی پانی کی کمی والے علاقوں کی نگہداشت میں خرچ ہوجاتی ہے۔ مگر کچھ ہی دنوں کے لیے سہی، جب نامطلوب پانی ہمارے گھروں میں در کر آتا ہے تب اس کا علاج لوگوں کو حواس باختہ کردیتا ہے۔ افسوس اور رنج کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت اس مسئلے کا حل راحت رسانی میں سمجھتی ہے اور یہ راحتیں کتنے متاثرین تک پہنچتی ہیں یا صحیح وقت پر ملتی بھی ہیں یا نہیں، ان موضوعات کو لائق ذکر نہیں سمجھا جاتا۔
چین میں باندھوں کی تعمیر کی خبر ہمیں یہ موقع دے رہی ہے کہ اسی بہانے ہم اپنا گھر بھی ٹھیک کرلیں۔
(صاحب مضمون ماہر آب ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS