دہلی فسادات- ایک سال بعد

0

ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی

ہمارے ملک کی تاریخ کا سب سے تلخ باب فرقہ وارانہ فسادات کا رہاہے۔ ملک کی جدوجہد آزادی سے لے کر اب تک فرقہ پرست طاقتوں نے ملک وسماج کو تقسیم کرنے کے لیے اگر کسی سیاسی چال کا استعمال سب سے زیادہ کیا ہے تو وہ فرقہ وارانہ فسادات رہے ہیں۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اب تک ملک میں تقریباً ستر ہزار سے زائد فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں اب تک بے شمار تحقیقات ہوئی ہیں، تقریباً تمام ہی حکومتیں فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کرنے میں ناکام رہی ہیں، کسی بھی سیاسی پارٹی نے فسادات کو روکنے میں پولیس کی ذمہ داری و جواب دہی کو طے کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی، ملک میں یا ملک کے کسی بھی کونے میں اگر کسی بھی شہری یا انسان کی جان و مال کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی ہوتی ہے تو یہ ناکامی بلاشبہ حکومت و پولیس کی ہوتی ہے لیکن اس ناکامی کا ہمارے ملک میں کوئی احتسابی نظام آج تک قائم نہیں ہوا۔ حکومتیں سرکاری خزانے میں جمع عوام کے ٹیکس سے معاوضہ ادا کرنے کو ہی اپنی ذمہ داری سمجھ لیتی ہیں جس کا مقصد بھی سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہی ہوتا ہے۔ گزشتہ سال فروری2020میں ہمارے ملک کی راجدھانی دہلی میں بھی فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، دہلی فسادات کے دوران ہونے والے حادثات میں ایک حقیقت سب کے سامنے ہے کہ پولیس کا رول مشکوک رہا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں دہلی پولیس نے جس طرح کی بربریت کا مظاہرہ کیا، لائبریری میں امتحانات کی تیاریوں میں مصروف طالب علموں کے ساتھ مارپیٹ کے ویڈیوز جو عوام کے درمیان آئے، ان میں سب سے زیادہ تشویشناک تھا پولیس کے ذریعہ لائبریری میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں کے ساتھ توڑپھوڑ جو یہ ثابت کرتی ہے کہ دہلی پولیس کا رول قانون کے بالکل خلاف تھا، پولیس کیمروں کو نہیں بلکہ دراصل ثبوتوں کو برباد کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ احتجاجات کے دوران کئی جگہ مظاہرین پر جس طرح حملے ہوئے اور فائرنگ کی گئی لیکن پولیس خاموش تماشائی بنی رہی، انہی احتجاجات کے دوران دہلی میں اسمبلی الیکشن ہوئے اور الیکشن میں ہونے والی تقریروں میں جس طرح احتجاج کرنے والوں کے خلاف اکثریتی طبقے کو باربار بھڑکانے کی کوششیں ہوتی رہیں لیکن پولیس ان تمام نفرت انگیز اور فرقہ وارانہ بیانات پر خاموش رہی یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے۔
دہلی فسادات کو دیگر فسادات سے یکسر منفرد کرنے والی اہم بات یہ ہے کہ یہ فسادات ملک کی راجدھانی میں ہورہے تھے اور کئی دن تک ہوتے رہے تاہم ان فسادات کو روکنے کی کوئی بھی سنجیدہ کوشش مرکزی یا دہلی حکومت کی جانب سے نہیں ہوئی۔ فسادات شروع ہونے والے دن دہلی پولیس کے سینئر افسران کے سامنے دھمکی دی گئی، ماحول پوری طرح سے خراب ہوچکا تھا اور پھر فسادات بھی شروع ہوگئے، آگ زنی و قتل غارت گری کے ساتھ ساتھ لوٹ مار کی خبریں ہر طرف پھیل گئیں تاہم پولیس کے ذریعے کرفیو لگانے یا فسادیوں پر قابو پانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی یہی وجہ رہی کہ چار سے پانچ دن تک فسادات پر قابو نہیں پایا گیا جس میں تقریباً 53افراد کی موت اور ہزاروں کروڑ کا مالی نقصان ہوا، مخصوص اقلیتی طبقے کو نشانہ بناتے ہوئے ان کے مذہبی مقامات کو تباہ و برباد کیا گیا۔
اس دوران ایسی بہت سی ویڈیو اور فوٹو بھی منظر عام پر آئے جن میں یہ صاف صاف ظاہر ہورہا تھا کہ فسادات کے دوران پولیس دنگائیوں کی مدد کررہی ہے، یہ مدد پولیس کہیں فسادیوں کو اپنے سامنے اقلیتی طبقے پر حملے کے دوران خاموش تماش بین بن کررہی تھی تو کہیں دنگائیوں کے ساتھ پولیس بھی اقلیتی طبقے پر پتھراؤ یا لاٹھی چلارہی تھی۔ اقلیتی طبقے کے بچوں کو وردی پہنے ہوئے پولیس کے افراد آزادی دلانے اور حب الوطنی کا سبق یاد کراتے ہوئے لاٹھیاں برساتے ہوئے نظر آئے۔ فسادات کے دوران زخمیوں تک ایمبولینس پہنچانے و زخمیوں کو اسپتال میں داخل کرانے کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لیے پولیس اجازت نہیں دے رہی تھی جس کے لیے بیچ رات دہلی ہائی کورٹ سے پولیس کو احکامات جاری کرانے پڑے۔ گھر و مارکیٹ تین چار دن تک جلتے رہے لیکن آگ پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ بھڑکاؤ تقریریں کرنے والوں کے خلاف پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات دینے والے دہلی ہائی کورٹ کے جج کا اگلے ہی دن ٹرانسفر ہوجاتا ہے اور ان کے احکامات کو بالائے طاق رکھ کر پولیس ایک سال گزرنے کے بعد بھی ملزمین کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کرتی ہے۔ فسادات کے دوران اور پھر فسادات ختم ہونے کے بعد بھی اقلیتی طبقے نے پولیس کی یکطرفہ کارروائی و زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ اگر شروع سے لے کر آخر تک پولیس کا رول مشکوک ہو اور ایمانداری کو لے کر اٹھنے والے سوالات شواہدات و ثبوتوں کی بنیاد پرہوں تو وہی پولیس کس بنیاد پر جانچ کرنے یا کارروائی کرنے کا حق رکھتی ہے۔ قانون کی نگاہ میں تو پولیس ہی فسادات کی ذمہ دار ٹھہری کیونکہ امن و امان اور قانون و دستور کی بالادستی کو قائم کرنا حکومت کا فریضہ ہے اور یہ فریضہ ادا کرنا ہی پولیس کی قانونی و دستوری ذمہ داری ہے جس کے لیے ایک عوامی جمہوری ملک میں عوام کے ٹیکس کے ذریعے پولیس و دیگر حفاظتی ایجنسیوں کے خرچ اٹھائے جاتے ہیں۔ متاثرین نے پولیس کے خلاف بہت سے الزامات لگائے جن میں پولیس کا ملزمین کے خلاف نامزد ایف آئی آر درج کرنے سے انکار، پولیس کے ذریعے شکایت کرنے والوں پر صلح کرنے کا دباؤ نیز فسادات کے دوران خاموش تماشائی بنے رہنا، یا اپنی ذمہ داری و فرائض کو جان بوجھ کر انجام نہ دینا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سماج دشمن طاقتیں اپنے سیاسی یا فرقہ وارانہ مفادات کے لیے ہندو مسلم فسادات یا دنگے کرانے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں اور فرقہ وارانہ حادثات کبھی بھی اور کہیں بھی ہوسکتے ہیں اور ان کے ہونے کو روکنا آسان نہیں لیکن اگر یہ فسادات ملک کی راجدھانی دہلی میں ہوتے ہیں اور کئی روز گزرجانے کے بعد بھی پولیس فساد روکنے میں نہ صرف ناکام رہی بلکہ پولیس کے کام کرنے کے طریقوں پر غلط طریقے سے جانچ بھی کرنے کے الزامات لگے تھے، ان حالات میں دہلی پولیس کو ان فسادات کی جانچ کرنے کا کوئی قانونی حق نہیں بچتا بلکہ کسی دیگر آزاد جانچ ایجنسی کے ذریعے مکمل جانچ ہونی چاہیے تاکہ متاثرین کو انصاف مل سکے۔ 1984کے سکھ فسادات و ہاشم پورہ کے قتل عام اور ان کی جانچ کے سلسلے میں دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے میں تبصرے کے بعد دہلی فسادات میں دہلی پولیس کو اپنی کھوئی ہوئی ایمانداری کو تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی، دہلی ہائی کورٹ نے پولیس کے کام کرنے کے طریقے پر بہت سنجیدہ سوالات اٹھاتے ہوئے سکھ مخالف فسادات کے ملزمین کو پشت پناہی و تحفظ دینے کی بات کہی تھی۔ فرقہ وارانہ فسادات ہمارے ملک کا المیہ ہیں، یہ کسی بھی خاص سیاسی پارٹی کی خصوصیت نہیں ہیں، یہ وہ حمام ہے جہاں ہر سیاسی پارٹی خصوصاً کانگریس پوری طرح برہنہ ہے کیونکہ کانگریس کے الیکشن مینی فیسٹو میں فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کے لیے کمیونل وائلنس(روک تھام) بل کو پاس کرانا لکھا تھا لیکن کانگریس نے مکمل اکثریت کے باوجود یہ بل پاس کرکے اقلیتی طبقات کو تحفظ دینے کی کوئی کوشش نہیں کی، اقلیتی طبقات کو ہمیشہ ووٹ بینک ہی سمجھا گیا اور صرف معاوضے و جانچ کمیشنوں سے گمراہ کرکے ووٹ حاصل کیا گیا۔ دستور ہند نے تو نہ صرف ہر شہری کو بلکہ ہر انسان کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری حکومت و عدالت کے ذمہ کی تھی لیکن افسوس فرقہ پرست طاقتیں قومی یکجہتی و گنگا جمنی تہذیب کے ساتھ ساتھ دستوری جمہوری نظام کو بھی کھوکھلا کرتی جارہی ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS