آیورویدک ڈاکٹروں کو سرجری کی اجازت

0

شیلجا چندرا
(مترجم: محمد صغیر حسین)

ابھی تک مباحثے کا موضوع یہ تھا کہ آیورویدوں کو ایلوپیتھک دوائوں کے استعمال کا حق ہونا چاہیے یا نہیں۔ لیکن اب اس مباحثے کے دائرے نے دوائوں کے ساتھ سرجری کے حق استعمال کو بھی اپنے میں سمیٹ لیا ہے۔
ایلوپیتھک اور آیوش (AYUSH)برادریوں کے مابین تین دہائیوں پرانا ایک تنازع، 2016کے ایک نوٹیفکیشن کی وضاحت کے نتیجے میں پھر زندہ ہوگیا ہے۔ اس بار تکرار آیوش معالجین کے ذریعے ایلوپیتھک دوائوں کے حق استعمال پر نہیں ہے بلکہ ان کے حق جراحت سے متعلق ہے۔
اس آرڈر سے متاثر ہونے والے تین اہم فریقوں کا موقف یہ ہے: کہ آیورویدک نظام تعلیم میں جن چودہ نصابوں میں پوسٹ گریجویشن کیا جاسکتا ہے، اس میں شلیہ (Shalya)اور شالکیہ (Shalakya)کے دوسرجری کورسز بھی شامل ہیں۔ دوسرے یہ کہ دنیا کا سب سے قدیمی معلوم ماہر جراحی، در اصل ایک آیوروید سرجن، رشی سوشروت (600قبل مسیح) تھے جنہوں نے اس موضوع پر اپنی شہرۂ آفاق کتاب سوشروت سمہتا تحریر کی جس کو آج بھی دنیائے علم ودانش نگاہِ تحسین سے دیکھتی ہے۔ مغربی معالجے کی آمد سے قبل آیورویدک سرجن، سرجری کیا کرتے تھے۔
ایلوپیتھک معالجین اس دعوے کی منطق پر سوال اٹھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کیا سوشروت کی ہزاروں سالہ قدیمی سرفرازی، جدید سرجری کی پریکٹس کا حق دے سکتی ہے؟ کیا یہ آیورویدک سرجن ہر سرجری کے طور طریقوں میں پوشیدہ خطرات سے واقف ہیں؟ اور کیاوہ جانتے ہیں کہ سرجری کے دوران کسی آفت ناگہانی کا ازالہ کس طرح کیا جاسکتا ہے؟
وزارتِ آیوش، اس بنیاد پر اپنے نوٹیفکیشن کو جائز قرار دیتی ہے کہ تمام ویدیوں کو نہیں بلکہ صرف ان ویدیوں کو منتخب سرجریوں کی اجازت دی گئی ہے جنہوں نے سرجری کے شعبوں میں پوسٹ گریجویشن کیا ہو اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن نزاعی نقطہ یہ ہے کہ یہ کون طے کرے گا کہ آیورویدک سرجن، بخیروعافیت سرجری کرنے کی مناسب استعداد اور اہلیت رکھتے بھی ہیں یا نہیں؟ سرجری کے لئے لازم مہارتِ تامہ کا فیصلہ کون کرے گا؟ کسی ملک میں سرجری کی اہلیت کو مختلف پیمانوں پر نہیں جانچا جاسکتا، خاص طور پر جہاں کم تعلیم یافتہ مریض سرجن کی کوالیفکیشن پر سوال اٹھانے کے بجائے پیسے بچانے پر زیادہ زور صرف کریں گے۔
سی سی آئی ایم (Central Council of INdian Medicine)آیوش کی تعلیم کا قانونی طور پر ذمہ دار ریگولیٹری ادارہ ہے جو گزشتہ بیس سالہ عرصے میں سابقہ میڈیکل کونسل آف انڈیا کی نعل بن گیا ہے۔ کئی دہائیوں سے آیوروید کی نمایاں شخصیتیں اس بات پر اظہار افسوس کررہی ہیں کہ سی سی آئی ایم نے بس نجی کالجوں کی انتظامیوں کے اس مطالبے کی تکمیل کی ہے کہ طبی معالجین کی حیثیت سے طلبا کی ایک مستحکم آمدنی کی ضرورت کو کس طرح یقینی بنایا جائے۔ آیورویدک ویدوں کی آمدنی کو بہتر بنانے کی ہوڑ میں، سی سی آئی ایم نے ایسی کئی فنی مہارتوں کو نظر انداز کردیا جنہیں آیوروید، دور جدید کے تقاضوں کے تحت شامل کرسکتا تھا۔
آیورویدک برادری بھی فریاد کناں ہے کہ وہ قانونی ادارہ جو آیورویدک تعلیم کے معیارات طے کرتا ہے، اس نے آیورویدک نظام کو جدید طب کا غلام بنا دیا ہے اور اس کی ہر ممکنہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ ایلوپیتھک ڈاکٹروں کی نقل کالاصل تیار کرتے رہیں۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں، ایک قدیمی ہمیشہ سے قابل قدر اور مجرب علم وآگہی کی دولت سے مالا مال طبی نظام کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا کہ اس طریقۂ علاج کے طلبا کو اس نہج پر تیار کیا گیا کہ وہ ایلوپیتھک طریقۂ علاج کو حرزجاں اور تعویذ دل بنالیں۔ اِس طرز عمل نے کلاسیکی آیوروید کی دانش، پاکیزگی اور اہمیت وافادیت کا قتل کردیا۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اپنے جائے وطن میں جب آیوروید کے ساتھ یہ سلوک روا ہو، وہیں امریکہ، یورپ اور روس میں اس کی مانگ روز افزوں بڑھ رہی ہے۔
ابھی تک مباحثے کا موضوع یہ تھا کہ آیورویدوں کو ایلوپیتھک دوائوں کے استعمال کا حق ہونا چاہیے یا نہیں لیکن اب اس مباحثے کے دائرے نے دوائوں کے ساتھ سرجری کے حق میں استعمال کو بھی اپنے میں سمیٹ لیا ہے۔ دو حقائق آیورویدک سرجنوں کے کیس کو کمزور بناتے ہیں۔ سرجری میں صرف علم کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ سخت تربیت اور مسلسل پریکٹس کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے کامل بناتی ہے۔ دونوں میں کلینک کے سازوسامان کی ضرورت ہوتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر آیورویدک اسپتالوں میں سرجری کے مریضوں کی تعداد، ایلوپیتھک جنرل اسپتالوں میں سرجری کے مریضوں کی تعداد کی عشر عشیر بھی نہیں ہوتی۔ سرجری کے ایلوپیتھک طلبا پہلے سرجری کے مشاہدوں سے سیکھتے ہیں، پھر اساتذہ کی نگرانی میں بیسیوں سرجری کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، 400 آیورویدک اسپتالوں میں سے صرف دس ایلوپیتھک اسپتالوں سے مربوط ہیں۔ سرجری کا فن سیکھنا ناممکن نہیں ہے لیکن اِس پر مہارت تامہ، صرف مسلسل ٹریننگ اور نگرانی سے پیدا ہوتی ہے۔ مریضوں کی کمی، ٹریننگ اور پریکٹس کے امکانات اور مواقع کو کم کردیتی ہے۔ ایسی صورت حال میں شلیہ اور شالکیہ کے تمام پوسٹ گریجویٹوں کو سرجری کرنے کی اجازت دینا خطرے سے خالی نہ ہوگا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک ایم ایس سرجری (ایلوپیتھی)یا ایک سرجن جس نے ایف آر سی ایس (Fellow of the Royal College of Surgeons/FRCS)کا فیلو بننے کے لئے دنیا کا مشکل ترین امتحان پاس کیا ہو، اسے بھی نسبتاً آسان آپریشنوں مثلاً tonsillites(گلے کے غدود کا ورم) کی اجازت بھی نہیں ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں اختصاص نے جنرل سرجنوں کو عام آپریشن سمجھے جانے والے آپریشنوں سے روک دیا ہے۔ مثال کے طور پر اب ایک ENTسرجن ہی tonsilleetony(اخراج ٹونسلز) انجام دے سکتا ہے۔ چنانچہ ان حالات میں، آیورویدک پوسٹ گریجویٹ سرجنوں کو تمام اقسام کے آپریشن کرنے کی اجازت دینا، ہندوستان اور دیگر ملکوں میں رائج اصولوں کی واضح خلاف ورزی ہے۔
سرجری کے لئے جو پیمانہ ہمیشہ سے مقرر ہے وہ کچھ اور نہیں بلکہ اس فن میں مشاقی ہے اور کتنی جراحتیں انجام دیں اس کا شمار ہے۔ پھر یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ خلق خدا کیا کہتی ہے۔ سرجری کی تربیت کے مختلف معیارات کا معمہ بھی حل کیا جانا چاہیے کیونکہ مریضوں کا تحفظ، آیورویدک پوسٹ گریجوٹس کے کیریئر کی پیش رفت سے کہیں زیادہ ضروری اور اہم ہے۔
مضمون نگار حکومت ہند کی سابق آیوش سکریٹری، اور حکومت دہلی میں سکریٹری برائے صحت ہیں۔
(بشکریہ: دی انڈین ایکسپریس)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS